تازہ ترین خبریں

ثقافت اور ثقافتی تبادلے میں حج کا کردار

حج امت اسلامیہ کا مشترکہ ثقافتی ورثہ ہے جو سالانہ دنیا بھر سے لاکھوں مسلمانوں کو ایک ہی جگہ اکٹھا کرتا ہے۔

تحریر: حافظ نجفی۔ (حج و زیارت کےتحقیقاتی ادارے کا رکن)

ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری 

ثقافت؛ علم، ادب اور تعلیم و تربیت کے معنی میں آیا ہے۔ (لغتنامه دهخدا: ج10 ص 109)؛ اس مضمون میں ثقافت سے مراد وہ عقائد، اخلاقی اقدار، زندگی کے رسم و رواج، طور طریقے، نمونے اور اصول و ضوابط ہیں جو قرآن پاک کی آیات، پیغمبراسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سنت سے لیے گئے ہیں، اس ثقافت کی خصوصیت یہ ہے کہ جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں وہاں موجود ہے؛ کیونکہ یہ اصول و ضوابط تمام مذاہب اسلامی کے مشترکات ہیں اور مسلمان نہ صرف ان پر شب و روز عمل کرتے ہیں؛ بلکہ دنیا بھرمیں پھیلانے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ اسلامی ثقافت کے پھیلاؤ کے وسائل میں سے بہترین وسیلہ حج ہے؛ اگر مناسک حج، اسلامی تعلیمات کےعین مطابق انجام دیے جائیں تو بین الاقوامی سطح پراسلامی ثقافت کو ایک اعلیٰ مقام دلوایا جاسکتا ہے اور دنیا بھرکی قومیں اسلامی ثقافت اپنانے میں فخرمحسوس کرسکتی ہیں!۔

 حج اہمترین مذہبی رسومات میں سے ایک ہے جس کا ایک بین الاقوامی پہلو ہے۔اسلامی مذاہب کے درمیان بہت سے احکام اور دینی مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ جبکہ حج کے مناسک میں اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے، احرام، طواف، نماز، عرفات کا وقوف، مشعرو منیٰ اور رمی وغیرہ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ مسلمانوں کےلئے اللہ کی طرف سے عطا کردہ عظیم تحفہ ہے۔

حج کا موسم اسلامی ثقافت کو پھیلانے کا سنہری موقع

اللہ تعالی نے پیغمبراسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کوحکم دیا کہ اسلام کی روشن تعلیمات لوگوں تک پہنچائے؛ جیسے کہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر67 میں ارشاد فرمایا: «اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اوراللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔»۔ اور اللہ تعالی نے لوگوں کو حکم دیا کہ اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کریں، جیسے کہ سورہ مائدہ آیت نمبر92 میں ارشاد فرمایا: «االلہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنا بچاؤ کرو، پھر اگر تم نے منہ پھیر لیا تو جان لو ہمارے رسول کی ذمہ داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچا دینا ہے»۔ پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم، مکہ میں اپنے تیرہ سالہ قیام کے دوران حج کے لیے مختلف علاقوں سے مکہ آنے والے قبائل کے سربراہوں، عوامی نمائندوں تک نہ صرف الہی احکام پہنچاتے رہے؛ بلکہ ان سے رابطے میں بھی رہے، جن کی متعدد مثالیں مورخین نے بیان کی ہیں۔(سیره ابن هشام، ج۱، ص ۴۲۲). رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری حج کے خطبے میں اصحاب کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کا یہ پیغام حاضرین غائبین تک پہنچائیں:«يُبَلِّغُ الشَّاهِدُ الْغَائِب‏…» (سليم بن قيس الهلالي، کتاب سلیم: ج‏2، ص: 579 و 655)۔ رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ائمہ اطہارعلیہم السلام نے اسلامی تعلیمات کو پھیلانےکے لئے سب سے زیادہ ایام حج سے ہی فائدہ اٹھایا؛ جیسے کہ امام علی علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں اپنے نمائندے قُثَّم بن عباس کو لکھا:«فَأَقِمْ لِلنَّاسِ الْحَجَّ وَ ذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ وَ اجْلِسْ لَهُمُ الْعَصْرَيْنِ فَأَفْتِ الْمُسْتَفْتِيَ وَ عَلِّمِ الْجَاهِلَ وَذَاكِرِالْعَالِمَ وَلَا يَكُنْ لَكَ إِلَى النَّاسِ سَفِيرٌ إِلَّا لِسَانُكَ وَ لَا حَاجِبٌ إِلَّا وَجْهُكَ…»(شریف رضی، نهج البلاغه، نامه 67)؛«لوگوں کےلیے حج کے قیام کا سروسامان مہیا کرو، اور انہیں خدا کے ایام یاد دلاؤ، ان کی خاطر دن کے دونوں طرف (صبح و شام) بیٹھو، اورتم سے مسئلہ پوچھنے والوں کو مسئلے کا جواب دو، جاہلوں کو تعلیم دو، اور عقلمندوں سے تبادلہ خیال کرو۔ آپ کے اور لوگوں کے درمیان آپ کی زبان کے سوا کوئی اور سفیر نہیں ہونا چاہئے اور آپ کے چہرے کے سوا کوئی دربان نہیں ہونا چاہئے، کسی ضرورت مند کواپنی ملاقات سے محروم نہ کرنا….»۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے حج کے دوران(معاویہ کی وفات سے ایک سال قبل) عالم اسلام میں رونما ہونے والے حالات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کےلیے سات سو اصحاب رسول کو منیٰ میں جمع کیا اور معاویہ کی جانب سے صلح (امام حسن مجتبی علیہ السلام) کی شرائط کی پامالی اور یزید کے ولی عہد منتخب کرنے سے اسلامی معاشرے پر پڑنے والےمضراثرات کے بارے میں تفصیلی خطبہ دیا۔ امام حسین علیہ السلام نےخطبےمیں امیرالمومنین علی علیہ السلام کےفضائل بیان کئے، حديث مؤاخاة، حدیث سد باب، حدیث غدیر، حدیث منزلت، ایہ مباہلہ اور سورہ برائت پڑھ کرقرآن اور اہل بیت اطہارعلیہم السلام کا بھرپوردفاع کیا۔ (سليم بن قيس الهلالي، کتاب سلیم: ج‏2، ص: 793- 788)۔

امیرالمومنین علی علیہ السلام کی نظرمیں حج کے سفر میں کامیاب ہونے والے، وہ منتخب لوگ ہیں جو اس روحانی سفر میں انبیاء کی پیروی کرتے ہوئےہمیشہ راہ خدا پر چلنے کا عزم رکھتے ہیں؛ جیسے کہ امام کا فرمان ہے:«وَ فَرَضَ عَلَيْكُمْ حَجَّ بَيْتِهِ الْحَرَامِ…»؛« اللہ نے اپنے گھرکا حج تم پرواجب کیا، جسے لوگوں کا قبلہ بنایا، جہاں لوگ اس طرح کھنچ کرآتے ہیں؛ جس طرح پیاسے حیوان پانی کی طرف اور اس طرح دارفتگی سے بڑھتے ہیں؛ جس طرح کبوتر اپنے آشیانوں کی جانب۔ اللہ جل شانہ، نے اس کو اپنی عزت کےاعتراف کا نشان(پرچم) بنایاہے، اس نے اپنی مخلوق میں سے سننے والے لوگ چن لئے، جنہوں نے اس کی آواز پرلبیک کہی اور اس کے کلام کی تصدیق کی وہ انبیاء علیہم السلام کی جگہوں پرٹھہرے، عرش پرطواف کرنے والے فرشتوں سے مشابہت اختیار کی۔ وہ اپنی عبادت کی تجارت گاہ میں منفعتوں کو سمیٹتے ہیں اور اس کی وعدہ گاہ مغفرت کی طرف بڑھتے ہیں»( نهج البلاغه، خطبه اول، ترجمہ مفتی جعفر حسین، ص92۔).

حج کے متعلق جو کچھ تحریرکیا گیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ حج مسلمانوں کے درمیان فکری میل جول، ثقافتی تبادلے اور مخلصانہ تبادلہ خیال کا بہترین ذریعہ ہے، حج بہت بڑا عالمی اجتماع ہے، جس میں دنیا بھر سے مفکرین جمع ہوکر اپنے خیالات اور اقدامات ایک دوسرے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جس سے اعلی مذہبی اقدار کے حصول میں مدد ملتی ہے۔

مکہ اور مدینہ کی مقدس سرزمین پر قدم رکھنا ہر مسلمان کے لیے باعث فخر ہونے کے ساتھ ساتھ، حضرت آدم صفی اللہ، ابراہیم خلیل اللہ، اسماعیل ذبیح اللہ، حبیب خدا محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہل بیت اطہارعلیہم السلام اور صحابہ کرام (رض) کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

مناسک حج اور حرمت کعبہ، توحید کی نشانی اور اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہیں کہ جو اس پر عمل کرے گا وہ صراط مستقیم پرہوگا اور زندگی کی سیدھی راہ سےنہیں ہٹےگا؛ اسی وجہ سے امیر المومنین علی علیہ السلام نے حج(کعبہ) کواسلام کا پرچم کا قرار دیا ہے:«جَعَلَهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالَى لِلْإِسْلَامِ عَلَماً وَ لِلْعَائِذِينَ حَرَماً… اللہ سبحانہ اس گھرکو اسلام کا نشان(پرچم)، اور پناہ چاہنے والوں کے لئے حرم بنایا ہے۔ (نهج البلاغه، خطبه اول)۔  آیات و روایات میں حج اور اس عظیم اجتماع کے مخصوص اہداف بیان کیے گئے ہیں یہ عظیم اجتماع مسلمانوں کو مادی اور روحانی طور پرمختلف قسم کے فوائد کا حامل ہے۔ «و لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُم‏…» (حج/ 28)؛ افکار و نظریات کا تبادلہ اور مختلف اسلامی فرقوں سے تعلق رکھنے لاکھوں پیروکاروں کا نتیجہ خیز تعامل، حج کے اہم ترین فوائد میں سے ایک ہے؛ لہذا توحید پرعقیدہ، خدائے بزرگ و برتر کی مخلصانہ عبادت، اللہ تعالی سے قرب کے ذریعے نفس و روح کو دنیاوی آلودگیوں سے پاک کرکے، کمالات کے منازل طےکرنا، برادرانہ تعامل کے نتیجے میں انسانی اقدار کا حصول، اسلامی ثقافت کی پہچان، سعادت اور علمی ترقی کے بارے میں سوچ بچار کرنا ہرمسلمان کی شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اسلامی علوم اور جدید اسلامی تہذیب کو پوری دنیا خاص کرآنے والی نسلوں تک پہنچانا ہرمسلمان کا فرض ہے۔

حج میں دنیا بھر سے جمع ہونے والے مسلمان باہمی تعلقات، تعاملات اورتوحیدی جذبے کو مضبوط کرکے اسلامی معاشرے کو ثقافتی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی، طور طاقتور بنا سکتے ہیں۔ درحقیقت حج ایک اعلیٰ ثقافتی یونیورسٹی ہے؛ جہاں انسان کو خود سازی،امن و سلامتی، سماجی انصاف، ایثار و قربانی، نظم و ضبط … کا کلچر سکھایا جاتا ہے؛ تاکہ وہ ان تعلیمات کو پوری دنیا تک پہنچا سکے۔ لوگوں کے درمیان رابطے،اسلامی ثقافت و تہذیب کا پھیلاؤ، تبادلہ خیال اور باہمی افہام و تفہیم، حج کے مقاصد اور فوائد میں سے ہیں؛ چنانچہ امام صادق علیہ السلام فلسفہ حج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «فَجَعَلَ فِيهِ الِاجْتِمَاعَ مِنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لِيَتَعَارَفُوا…وَ لِتُعْرَفَ آثَارُ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ تُعْرَفَ أَخْبَارُهُ وَ يُذْكَرَ وَ لَا يُنْسَى… (شیخ صدوق، علل الشرائع، ج‏2، ص: 406) ؛اللہ تعالی نے مشرق اور مغرب کے لوگوں پر فرض کیا ہے کہ وہ مناسک حج کو انجام دینے کےلئے اکٹھے ہوں؛ تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو پہچانیں… اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار، سنت اور احادیث کو جانین اور فراموش نہ کریں».حج کے سالانہ اجتماع میں دنیا کے ہرملک سے توانمند اور قابل لوگ اپنے معاشرے کے نمائندے کے طور پر شرکت کرتے ہیں۔ اس شرکت کے فوائد میں سے ایک، ایک دوسرے کے افکار و نظریات سے واقفیت اور معلومات کی منتقلی ہے۔ اسی طرح امام رضا علیہ السلام نے حج کے فلسفے کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے دینی، اخلاقی، سماجی اور اقتصادی فوائد کی طرف اشارہ فرمایا:حج کی پابندی حجاج کو اخلاقی اور مذہبی فوائد پہنچاتی ہے اور مسلمانوں کے درمیان تعامل کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ «وَ عِلَّةُ الْحَجِّ الْوِفَادَةُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَ طَلَبُ الزِّيَادَةِ وَ الْخُرُوجُ مِنْ كُلِّ مَا اقْتَرَفَ وَ لِيَكُونَ تَائِباً مِمَّا مَضَى مُسْتَأْنِفاً لِمَا يَسْتَقْبِلُ….وَ مَنْفَعَةُ مَنْ فِي شَرْقِ الْأَرْضِ وَ غَرْبِهَا وَ مَنْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ مِمَّنْ يَحُجُّ وَ مِمَّنْ لَا يَحُجُّ مِنْ تَاجِرٍ وَ جَالِبٍ وَ بَائِعٍ وَ مُشْتَرٍ وَ كَاسِبٍ وَ مِسْكِينٍ وَ قَضَاءِ حَوَائِجِ أَهْلِ الْأَطْرَافِ وَ الْمَوَاضِعِ الْمُمْكِنِ لَهُمُ الِاجْتِمَاعُ فِيهَا كَذَلِكَ لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ…»(شیخ صدوق، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏2، ص: 90)؛ «اور حج بجا لانے کی علتوں میں سے ایک علت یہ ہے کہ انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے،اللہ سے اجرعظیم طلب کرتا ہے اوران تمام گناہوں سے مغفرت طلب کرتا ہے جو اس سے (جانے یا انجانے میں) سرزد ہوئے ہیں۔ ظلم، جبر، سخت دلی اور بے خوفی جیسے برے صفات سے خود کو دور کرنا، ہمشیہ یاد خدا میں رہ کر اسے فراموش نہ کرنا، خدا کے سوا کسی سے امید نہ رکھنا، اپنے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا، اور اپنے آپ کو فساد اور ہرقسم کی برائیوں سے بچا کر رکھنا، اور ان تمام لوگوں کو فائدہ پہنچانا یا ان سے فائدہ اٹھانا جو مشرق و مغرب میں رہتے ہیں، صحرا یا سمندر میں رہتے ہیں، حج میں شرکت کرنے والے اور نہ کرنے والے، تاجروں اور سوداگروں سے ملنا، اشیا درآمد کرنے اور برآمد کرنے والوں، ضرورت مندوں، نیز آس پاس کے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا حج کے فوائد میں سے ہیں؛ جیسا کہ آیت مبارکہ میں بیان ہوا ہے۔ «لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ».

مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ دشمنانِ اسلام ہمیشہ اسلام کی مستند ثقافت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مختلف شیطانی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ جدید سہولتوں کو استعمال کرتے ہوئے، مغربی بےہودہ ثقافت کو پھیلانے اور اسلامی ثقافت اور اقدار کی شناخت کو کمزور کرنے کی مزموم کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ دشمنوں کے ان ناپاک منصوبوں سے نمٹنے کا واحد راستہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور حج کے ذریعے دنیا بھر میں اسلامی اقدار اور ثقافت کی منتقلی ہے۔ جس سے دنیا میں اسلام کا روشن چہرہ کھل کرسامنے آئے گا اور مسلمان ایک عظیم قوم بنےگی؛ جیسے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ حج کا یہ عظیم اجتماع جو ہر سال مکہ کی مقدس سرزمین میں خداوند متعال کے حکم سے منعقد ہوتا ہے، تمام مسلم اقوام کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اسلام کے مقدس مقاصد کو پورا کریں اور مسلمانوں کے اتحاد سے اسلامی معاشرے کی ترقی و سربلندی کے لیے کوشاں رہیں۔ آزادی کی راہ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور استعماری کینسر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ مسلم اقوام کی مشکلات کا تدارک کریں اور ان کے مسائل کے حل کےلیے کسی بھی کوشش سے دریغ نہ کریں۔ اسلامی ممالک کے غریبوں اور ناداروں کا سوچیں۔(امام خمینی، صحيفه امام، ج‏2، ص: 322)۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ‌ای اس سلسلے میں مسلمانوں کو تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حج رموز اور اسرار سے بھری عبادت ہے۔ اس میں نقل و حرکت اور سکون کی خوبصورت امتزاج اور آمیزش، مسلم معاشرے کی شناخت کراتی ہے اور دنیا کی نظر میں اس کی خوبصورتیوں کو ظاہرکرتی ہے۔ ایک طرف، یہ عبادت بندوں کے دلوں کو ذکر، عاجزی اور دُعا کے ذریعہ روحانی طور پر بلند کرتی ہے اور انہیں خدا کے قریب کرتی ہے تو، دوسری طرف سے، یکساں لباس اور یہ ہم آہنگ حرکات و سکنات کے ذریعے سب مسلمانوں کو جو دنیا بھرسے آکر جمع ہوتے ہیں ایک دوسرے سے جوڑ دیتی ہے اور اس کے ساتھ ہی گہرے معانی و رموز سے آراستہ تمام مناسک کے ذریعے عالم اسلام کی اعلی ترین مثال دنیا والوں کی نگاہوں کے سامنے لاتی ہے اور امت کے عزم اور عظمت کو بد نیت عوامل کے مقابل میں ظاہرکرتی ہے۔(پیغام حج؛ ۱۹ جولائی ۲۰۲۱)؛

 رہبرانقلاب مزید فرماتے ہیں:«دنیا بھرسےآئےہوئے مسلمانوں کا یہ عظیم اجتماع، دشمن کی سازشوں کو بےاثر کرتا ہے۔ قرآن وسنت کے دستور کے مطابق ایک صحیح اور درست حج، دلوں کو قریب کرکے اسلام اور مسلمانوں کےخلاف، دشمن کی خطرناک‌ترین سازشوں کو ناکام بنا سکتا ہے».(صحيفه حج، ج 2، ص 222 و 165)۔

موجودہ دورمیں، پوری دنیا میں ایک ہی ثقافت جیسی تبلیغات سے اب ثقافت کو دنیا بھرکے معاشروں میں اہمیت دی جاتی ہے۔ ثقافت پرپہلے سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے؛ تاکہ پوری دنیا میں ایک ہی ثقافت رائج ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ثقافت میں بھی دیگر امور کی طرح ترقی اور کمال کے منازل طے کرنے کی صلاحیت موجود ہے؛ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اسلامی ثقافت میں یہ صلاحیت کہیں زیادہ ہے، اگراس کو علمی اور اسلامی اصولوں کے مطابق پھیلایا جائے تو بہت جلد پوری دنیامیں راج کرسکتی ہے؛ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اس الہی سرمائے کا خوب فائدہ اٹھائیں اور دوسروں تک پہنچانے کی بھی کوشش کریں۔ جیسے کہ امام صادق علیہ السلام، حج کو مسلمانوں کے ایک دوسرے سے رابطے اور اتحاد کا ذریعہ اور اس کی توانائیوں سے فائدہ نہ اٹھانے اور اس کے مادی اور روحانی اثرات کو نظر انداز کرنے کو مسلمانوں کی کمزوری کا سبب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:«فَجَعَلَ فِيهِ الِاجْتِمَاعَ مِنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لِيَتَعَارَفُوا وَ لِيَتَرَبَّحَ كُلُّ قَوْمٍ مِنَ التِّجَارَاتِ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ وَ لِيَنْتَفِعَ بِذَلِكَ الْمُكَارِي وَ الْجَمَّالُ وَ لِتُعْرَفَ آثَارُ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ تُعْرَفَ أَخْبَارُهُ وَ يُذْكَرَ وَ لَا يُنْسَى وَ لَوْ كَانَ كُلُّ قَوْمٍ إِنَّمَا يَتَّكِلُونَ عَلَى بِلَادِهِمْ وَ مَا فِيهَا هَلَكُوا وَ خَرِبَتِ الْبِلَادُ وَ سَقَطَ الْجَلَبُ وَ الْأَرْبَاحُ وَ عَمِيَتِ الْأَخْبَارُ وَ لَمْ يَقِفُوا عَلَى ذَلِكَ فَذَلِكَ عِلَّةُ الْحَجِّ».(شیخ صدوق، علل الشرائع، ج‏2، ص: 406)؛ «اللہ تعالی نے مشرق سے مغرب تک تمام لوگوں پرحج فرض کیا؛ تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو پہچان سکیں، اس سفر کے ذریعے تجارتی اورمادی فائدے حاصل کرسکیں، سواریوں والے بھی اپنے جانوروں اور کشتیوں سےاستفادہ کرسکیں۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارکہ سے آشنائی حاصل کریں۔۔۔ اگر ہرقوم اور قبیلہ والے اپنے علاقے میں ہی رہیں اور حج کےلئے نہ نکلیں تو ہلاک ہوجائیں گے، ان کے شہرتباہ ہوجائیں گے اور ہرقسم کی تجارت اور نفع کا خاتمہ ہوگا اور رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اورائمہ اطہارعلیہم السلام سے مروی روایات محو ہوجائیں گی اور کسی کو ان کی خبر نہیں ہو گی۔ یہ ہے حج واجب ہونے کا فلسفہ»۔

منابع:

امام خمینی، سید روح الله، صحيفه امام (صحیفه نور)‏، مؤسسه تنظيم و نشرآثار امام خمينى( س) زمستان 1379.

امام خمینی، سید روح الله، صحيفه حج‏، مركز تحقيقات حج، نشر مشعر. زمستان 1382۔

شیخ صدوق. محمّد بن علي.( 1408ه. ق). علل الشرائع. الطبعة الأولى. بيروت: دار إحياء التراث.

دهخدا ، لغت نامه (م.1334ش.) زير نظر محمد معين و سيد جعفر شهيدي، تهران، مؤسسه لغت نامه و دانشگاه تهران، 1373ش.

هلالى، سليم بن قيس‏، كتاب سليم بن قيس الهلالي‏، 76 ق‏ محقق/ مصحح: انصارى زنجانى خوئينى، محمد، ناشر: الهادى‏،  ايران؛ قم‏، : 1405 ق.

شریف رضی، محمّد بن حسين (1369 ه. ش.)، نهج البلاغة، تحقيق: السيّد كاظم المحمّدي و محمّد الدشتي، انتشارات الإمام علي عليه السّلام- قم، الطبعة الثانية۔

شیخ صدوق،أبو جعفرمحمّد بن عليّ بن الحسين (الشيخ الصدوق، ت 381 ه. ق)، عيون الأخبار الرضا عليه السّلام، تحقيق: مهدى الحسيني اللاجوردي، طهران منشورات جهان. 1378 ش۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close