ایرانتازہ ترین خبریں

جنرل سلیمانی کی نظر میں قرآنی ہونے کا معیار

شہید جنرل قاسم سلیمانی کی قرآنی زندگی کی خصوصیات

  قرآنی ہونے کا معیار، قرآن کریم کی آیتوں پرعمل پیرا ہونا ہے؛ جیسے کہ امام حسن مجتبی علیہ­السلام  سے روایت نقل ہوئی ہے جس میں قرآنی ہونے کا معیار بیان فرمایا ہے:

تحریر:ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

 قرآنی ہونے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو قرآن پرعمل کرتا ہے؛ حتی اگر حافظ قرآن نہ بھی ہو اس کے بعد امام علیہ­السلام فرماتے ہیں: قرآن سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہیں جو قرآن پرعمل پیرا نہیں ہوتے؛ اگرچہ وہ اس کی تلاوت کرتے ہوں[1]»  اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی ہونے کا معیار قرآن حفظ کرنا یا اچھی تلاوت کرنا نہیں؛ بلکہ قرآنی احکام پرعمل پیرا ہونا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) کا ارشاد گرامی ہے: اگر کوئی قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا تو خداوندمتعال میدان محشر میں اسے اندھا محشور کرے گا[2]۔  

شہید سلیمانی نے قرآن کریم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے فرمودات کےعین مطابق زندگی گزارنے کی بھرپورکوشش کی؛ اس مختصرمقالے میں ان کی قرآنی زندگی کے چند ایک پہلووں اورخصوصیات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

قرآنی قوانین پرعمل پیرا ہونا

جنرل قاسم سلیمانی اپنی پوری زندگی قرآن و اھل بیت اطہارعلیھم­السلام سے متمسک رہے اور قرآنی زندگی گزاری، یہی وجہ تھی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج سے وابستہ تمام افسران کے نزدیک شہید سلیمانی کا ایک خاص مقام تھا اور انہیں بے حد احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور اپنےلئے نمونہ عمل سمجھتے تھے[3]۔

نظام ولایت سے منسلک رہنا

  جنرل سلیمانی نظریہ ولایت فقیہ پر اعتقاد راسخ رکھتے تھے؛ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے نظام ولایت کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا اور اپنی آخری وصیت میں بھی ولایت کو اصل قرار دیتے ہوئے فرمایا: پہلی اصل ولایت فقیہ پرعملی اعتقاد ہے؛ یعنی ولی فقیہ کی نصیحتوں اور فرمودات پرعمل کیا جائے؛ اگر کوئی اسلامی جمہوریہ میں کسی عہدے کا خواہاں ہے اور کسی منصب پر فائز ہونا چاہتا ہے تو اس کی بنیادی شرط ولایت فقیہ پر عملی اور حقیقی اعتقاد ہونا چاہئے۔ شہید اپنے وصیت نامے میں مزید لکھتے ہیں: ولایت قانونی پوری قوم (مسلمان ہوں یا غیر مسلم) کے لئے ہے؛ جبکہ ولایت عملی، ان عہدہ داروں اور منصب داروں کے ساتھ خاص ہے جو ملک کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے خواہاں ہیں[4]۔

سادگی پسند

جنرل سلیمانی نہایت سادہ زیست اور ہرقسم کے تجملات اور دنیا داری سے پاک تھے جس کا دوست دشمن سب معترف ہے۔ اخلاص و مروت اور سادہ زیستی ان کا خاصہ رہا، کسی نمود و نمائش اور مقام و منزلت کی لالچ کئے بغیر ملکی و غیر ملکی محاذوں پر اسلام کی سربلندی کےلئے خدمات سرانجام دیتے رہے۔

جہادی جذبے سے سرشار ہونا

حاج قاسم سلیمانی کی سب سے نمایاں خصوصیت جہاد کا جذبہ تھا؛ یعنی حقیقت میں قرآنی آیات ان کی روح اورقلب پر اتری ہوئی تھیں «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ[5]»۔  قاسم سلیمانی چالیس سال اس جذبہ سے سرشار رہے اور ان کی شہادت بھی ایسے موقع پر واقع ہوئی جب لوگ فطری طور پر سو رہے تھے لیکن وہ جہاد کر رہے تھے۔

نڈر اور بہادر ہونا

 شہیدجنرل قاسم سلیمانی نڈر اور بہادر شخصیت کے مالک تھے ان کے دل میں دشمنوں کا خوف بالکل بھی نہیں تھا۔ حاج قاسم کا وجود اس آیۂ شریفہ «الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا[6]» کا مصداق تھا۔ وہ لوگوں کے ساتھ نہایت تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آتے تھے؛ میدان کارزار میں ان کی شجاعت، اپنے دوستوں اور ماتحت افراد کے ساتھ محبت اور خلوص کا عالم یہ تھا کہ کبھی کسی سے نہ کہتے کہ میدان میں جاو؛ بلکہ خود فرنٹ لائن پہ رہتے اور دوسروں سے کہتے میرے پیچھے رہیں[7]۔ قاسم سلیمانی ایک مجاہد اور انقلابی کمانڈر تھے جن کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں جہاد کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا تھا، ایک انقلابی مجاہد کی تمام تر خصوصیات ان کے طرزعمل اور منصوبوں میں صاف دکھائی دیتی تھیں۔

دشمن کی سازشوں سے آگاہی

دشمن شناسی اور دشمن کی سازشوں سے آگاہ رہنا جنرل شہید سلیمانی کی ایک اور اہم خصوصیت تھی۔ اکثر افراد دشمن شناس نہیں ہوتے جس کی وجہ سے دشمن کی چال میں بہت جلد گرفتار ہوجاتے ہیں۔ شہید حاج قاسم دشمن شناس ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن کی سازشوں کو بھی بے نقاب کرنے کے ماہرتھے۔

اللہ کی خوشنودی کو مد نظررکھنا

جنرل قاسم سلیمانی ہمیشہ خدا کی رضا اور خوشنودی کی تلاش میں رہتے تھے اور دشمنوں کی طرف سے دی جانےوالی دھمکیوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے یہ خصوصیت قرآن مجید اور اہل بیت اطہارعلیہم السلام کے فرمودات سے لی تھی۔ شہید قاسم سلیمانی کی ہمہ جھت شخصیت کا ایک اور روشن پہلو دنیا بھر کے محروم اور مظلوم طبقے کی حمایت تھی۔ شہید دہشتگردی کے خلاف ہمیشہ برسرپیکار رہے اور ظلم کے ستائے ہوئے مظلوم عوام خصوصاً فلسطینیوں اور یمنیوں کی حمایت اور ہر قسم کی مدد میں پیش پیش رہے۔

اللہ پر توکل

حاج قاسم کی ایک اور خصوصیت اللہ پر بھروسہ تھی، انہوں نے اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمنوں کو نظر انداز کرکے اپنے مشن کو بخوبی انجام دیا۔ جنرل شہید قاسم سلیمانی اللہ پر مکمل توکل کرتے اور اس ایہ کریمہ «اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ وَعَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ[8]» کے مصداق تھے۔

شوق شہادت سے سرشار ہونا

شہید قاسم سلیمانی کے دل میں شہادت کی تمنا اتنی تھی کہ جب امریکا اور اسرائیل نے انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی تو آپ نے فرمایا کہ میں شہادت کی تلاش میں پہاڑوں اور صحراوں میں گھوم رہا ہوں ان کے دل میں ہمیشہ شہید ہونے کی حسرت تھی اور اکثر کہا کرتے تھے کہ میں کیوں رہ گیا ہوں وہ اپنی جان اللہ کو بیچ چکےتھے:  «اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ[9]؛ یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھرمارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں اللہ کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہد پورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پر خوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔»

قرآن و سنت میں شہید کے مقام و مرتبے کے حوالے سے جو ارشادات ملتے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں شہید کی عظمت اور شہادت کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند ہے؛ لہذا جنرل سلیمانی کی اہم ترین آرزو شہادت تھی جو اپنی دیرینہ آرزو اور تمنا تک پہنچ گئے۔ روحش شاد


[1]. «ما بَقِىَ فِى الدُّنْيا بَقِيَّةٌ غَيْرَ هَذَا القُرآنِ فَاتَّخـِذُوهُ إماما يَدُلُّكُمْ عـَلى هُداكُمْ، وَإنَّ أَحَقَ النّاسِ بِالقُرآنِ مَنْ عَمِلَ بِهِ وَإنْ لَمْ يَحْفَظْهُ وَأَبْعَدَهُمْ مِنْهُ مَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِهِ وَإنْ كانَ يَقْرَأُهُ؛ اس فانی دنیا میں صرف ایک چیز باقی رہے گی وہ قرآن ہے، لہٰذا قرآن کو اپنا رہبر اور امام بنا لو، تاکہ تم سیدھے راستے پر چلو۔ درحقیقت قرآن کے قریب ترین لوگ وہ ہیں جو اس کی پیروی کرتے ہیں، اگرچہ انہوں نے اس (آیات) کو بظاہر حفظ بھی نہ کیا ہواور قرآن سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہیں جو اس کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے، حالانکہ وہ اس کے قاری اور پڑھنے والے ہوں»۔ (حسن بن ابی الحسن دیلمی؛ ارشاد القلوب، ص102)

[2] ۔ «من تعلم القرآن و لم یعمل به حشره الله یوم القیامة اعمی فیقول یا رب لم حشرتنی اَعمی و قد کنت بصیراً قال کذلک اتتک آیاتک فنسیتها؛ جس نے قرآن سیکھا اور اس پر عمل نہیں کیا، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائے گا،  وہ شخص کہے گا کہ اے اللہ تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا  جب کہ میں دیکھ رہا تھا۔ اللہ کی طرف سے جواب آئے گا: تم نے ہماری آیات کو کیسے پڑھا اور انہیں بھلا دیا اور ان پر عمل نہیں کیا۔ (شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص 286)

[3]. قاسم سلیمانی مورد احترام دوستان و دشمنانش است.خبرگذاری دانشجو:  snn.ir/0036yj  

[4] ۔شهید جنرل قاسم سلیمانی کا وصیت نامہ۔  اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل پشاور پاکستان کی ویب سایٹ سے اقتباس۔ https://peshawar.mfa.gov.ir/ur /

[5] توبه،73. اے نبی ! کفار اور منافقین سے لڑو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔

[6]. احزاب، 39. جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔

[7] ۔ محمد ثقلین واحدی، شہید قاسم سلیمانی ایک ہمہ جہت شخصیت۔ اسلام ٹائمز سے اقتباس۔ https://www.islamtimes.org

[8]۔ تغابن،13۔ للہ (ہی معبود برحق ہے) اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور مومنین کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔

[9] ۔ توبہ،111۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close