اسلامی بیداریتازہ ترین خبریں
قاسم سلیمانی فلسطینی مقاومت کا روح رواں
“طوفان الاقصی” ایک ایسا آپریشن ہے جس نے مقبوضہ بیت المقدس میں غاصب حکومت کی زندگی کے خاتمے کی الٹی گنتی تیز کر دی ہے۔
تحریر: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری
یہ آپریشن جو کہ بروز ہفتہ۷ اکتوبر کو اسرائیل کے حالیہ جرائم کے جواب میں شروع کیا گیا تھا، جس سے صہیونی جعلی حکومت کو زبردست دھچکا پہنچا اور مزاحمتی محاذ کو شاندار فتوحات نصیب ہوئیں۔ اس عظیم آپریشن کی گرما گرمی میں ہم ایک ایسے شخص کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں کہ جس نےصیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی محاذ کو مضبوط کیا، جہاد فی سبیل اللہ کا طریقہ سکھایا؛یعنی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے کمانڈر شہید حاج قاسم سلیمانی جس کا تذکرہ کئے بغیرفلسطین اور مقاوت کا تذکرہ کامل نہیں ہوتا ہے۔
مقاومت اور مزاحمت
جنرل قاسم سلیمانی ہمیشہ فلسطینی مجاہدین کا زبردست حامی و ناصر رہے، انہوں نے مزاحمتی محاذ کی پچھلی کامیابیوں، بشمول 33 روزہ اور 22 روزہ جنگوں میں موثر کردار ادا کیا جس کی وجہ سے صہیونی غاصب فوج اپنے ناپاک منصوبوں میں ناکام رہی۔ جیسا کہ حاج قاسم سلیمانی نے اپنی شہادت سے چند سال قبل قسام بٹالین کے کمانڈر “محمد الضیف” کے نام ایک خط میں اس آپریشن اور اس کی کامیابیوں کی پیشین گوئی کی تھی۔ خیال رہے کہ 2014 میں صہیونی فوج نے طوفان قدس آپریشن کے کمانڈر کے گھر پر حملہ کرکے ان کے بیٹے اور بیوی کو شہید کر دیا تھا جس کے بعد جنرل قاسم سلیمانی نے ان کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ:«سب کو یقین ہوناچاہیے کہ ایران، فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑے گا چاہے کتنا ہی دباؤ بڑھ جائے اور کتنی ہی پابندیاں لگ جائیں۔ فلسطین کا دفاع ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے اور ہم مال اور دنیاداری کی خاطراس فرض کو نظرانداز نہیں کریں گے۔ فلسطین کے دوست ہمارے دوست ہیں اور فلسطین کے دشمن ہمارے دشمن ہیں اور یہی ہماری پالیسی رہی ہے اور رہے گی۔ فلسطین کا دفاع، اسلام کا دفاع ہے اور جو بھی فلسطینیوں کی پکارکو سنے اور توجہ نہ دے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔» اس خط کے آخر میں جنرل قاسم سلیمانی نے قسام بٹالین کے کمانڈر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھاتھا: «اللہ تعالی کی مدد سے فتح کا سورج بہت جلد طلوع ہوگا، اب غاصب صیہونیوں کی موت کی گھنٹی بج چکی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں آپ کے شانہ بشانہ مشترکہ دشمن کے خلاف لڑنے کا موقع فراہم کرے گا اور ہمیں فلسطین کے راہ میں شہادت نصیب فرمائے گا»۔
سال 2019 میں، لبنان اور شام پر صیہونی فضائی حملے کے بعد، جنرل قاسم سلیمانی سے منسوب ایک ٹوئٹراکاؤنٹ نے ان کا درج ذیل بیان شائع کیا تھا: “یقینی طور پر یہ پاگلانہ کارروائیاں صیہونی حکومت کی آخری کوششیں ہوں گی۔”
عماد مغنیہ کی شہادت کی دسویں برسی
فروری 2016 کو عماد مغنیہ کی شہادت کی دسویں برسی کی تقریب میں قدس فورس کے اعلی افسران اور مزاحمتی محاذ کے دیگر رہنماؤں کے ایک اعظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: «ایک اہم نکتہ جو دشمن جانتا ہے اور اسے سنجیدگی سے جاننا چاہیے کہ عماد کے خون کا بدلہ میزائل فائر کرنا نہیں ہے۔ عماد کے خون کا بدلہ کسی ایک شخص کا قتل نہیں ہے۔ فلسطین اور لبنان میں شہید ہونے والا ہرعماد اور انہیں صہیونی حکومت کی سازش سے ایران اور دیگر مقامات پر شہید ہونے والے ہرشہید کے خون کا بدلہ، ان ظالموں کا خاتمہ ہے۔ دشمن جانتا ہےکہ جتنی بھی شہادتیں ہوتی ہیں ان کا جگہ لینے کےلئے اس مکتب میں درجنوں بچے پیدا ہوتے ہیں اور ان شہدا کے خون کا انتقام کے لئے آمادہ ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے؛ لہٰذا یہ خدائی وعدہ ضرور پورا ہو گا اور ہمیں اس وعدے پر یقین ہے۔ ہم اللہ تعالی کے وعدے کو سچا سمجھتے ہیں اور یہ سچائی ہم مختلف میدانوں میں کئی بار دیکھ چکے ہیں اور ہم بہت جلد ان شہداء کے خون کا بدلہ بھی دیکھیں گے۔
صہیونی حکومت کا خاتمہ!
ہم رات کو کبھی نہیں سوتے جب تک کہ ہم اپنے دشمنوں کے بارے میں نہ سوچیں اور وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ ہم ان سے غافل نہیں!۔ یہ صہیونی حکومت نہیں رہے گی اس کا خاتمہ ہوگا۔ ان کرائے کے قاتلوں کے اقدامات سے ظاہرہے کہ ان کی حکومت مستحکم نہیں ہے اور اس حکومت میں استحکام کے کوئی عوامل اور آثار نظر نہیں آتے۔ صیہونی حکومت کے اقدامات عدم استحکام اور ناپائیداری کو ظاہر کرتے ہیں اور ہم نہ صرف اس کو محسوس کرتےہیں؛ بلکہ دیکھ بھی رہے ہیں۔ جنونی کارروائیاں ان کی آخری کوششوں کے اثرات ہیں۔ فلسطین، لبنان، عراق اور دیگر مقامات کے گرانقدر شہداء خاص کر عماد مغنیہ کا یہ مشن جاری رہے گا اور آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مزاحمتی محاذ محدودیت سے نکل کر پورے خطےمیں پھیل چکا ہے اور روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری اور عالم اسلام کے تمام مجاہدین کی آرزو پوری اور ہم سب کو اپنے عظیم مقصد میں کامیابی عنایت فرمائے۔ آج امت اسلامیہ کی کامیابی کےلیے ہم میں سے ہر ایک کی ضرورت ہے؛ لہذا حوصلہ بلند کریں اورکوششیں جاری رکھیں۔ آئیے اسلام کے دفاع کےلیے اپنی کوششیں تیز کریں، آج ہم فتح کے بالکل قریب ہیں».
ایران کی حکمت عملی
جنرل قاسم سلیمانی نے جنوری2017 کو فلسطین کے متعلق ایران کی حکمت عملی کے بارے میں کہا: “ہم دنیا کی خاطر فلسطین کی مدد نہیں کرتے ہیں، فلسطینی عوام کی حمایت کرنا ہم اپنا دینی اور ایمانی فرض سمجھتے ہیں، صہیونی غاصب حکومت کا مقابلہ کرنا اسلامی انقلاب کی تکمیل کا حصہ ہے”۔
اہل بیت سےعشق
جنرل سلیمانی ظلم اور تکفیریت کے خلاف جنگ میں ہرقسم کی کامیابی کو ائمہ اطہارعلیہم السلام کی طرف سے ایک عنایت اور عطیہ سمجھتے تھے،جہاں کہیں بھی کوئی کامیابی ملتی توعاجزانہ طور پریہی کہتے تھےکہ یہ کامیابی حضرت زہرسلام اللہ علیہا کی دعاوں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔
دوستوں اور دشمنوں کی نظرمیں
اندرون اور بیرون ملک، دوست اور دشمن سبھی نے اس بات کاعتراف کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی طاقت کی ایک بڑی وجہ شہید قاسم سلیمانی کے عظیم کارنامے ہی ہیں۔
شہید سلیمانی کی برسی پررہبرکا خطاب
جنرل سلیمانی کی شہادت کےبعد رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: «اس مرد مجاہد نے فلسطینیوں کے ہاتھوں کو اتنا مضبوط کیا کہ غزہ جیسا چھوٹا علاقہ صہیونی حکومت کے سامنے کھڑا ہے اور غاصب فوج پرایسے طماچے مارتا ہے کہ ان غاصبوں کی طرف سے 48گھنٹوں کے اندرجنگ بندی کی درخواست کی جاتی ہے۔ یہ بات ہمارے فلسطینی بھائیوں نے بارہا مجھ سے کہی ہے، البتہ مجھے معلوم ہے؛ لیکن فلسطینی رہنما ہمارے پاس آئے اور کئی بار گواہی دی کہ جنرل قاسم سلیمانی نے اسلامی مقاومت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے آج اسرائیل سخت پریشان ہے»۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل سلیمانی کےاہل خانہ اور رشتہ داروں سے ملاقات میں فرمایا: شہید قاسم سلیمانی شجاع تھے، مومن تھے، بڑی ذمہ داری قبول کرنے والے تھے، ذہین تھے،عقل مند تھے، جب بھی انھیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ کوئي کام ہونا چاہیے یا ہو سکتا ہے تو وہ قدم آگے بڑھاتے تھے۔ ان کے کام میں رکنا، شش و پنج اور شک وغیرہ نہیں ہوتا تھا[1]۔ شہید نے مزاحمتی محاذ کی بنیادیں مضبوط کی اور نئی روح پھونکی۔ جنرل سلیمانی نےمزاحمتی تحریک کے جوانوں کو نہ صرف مادی طورپر؛ بلکہ روحانی اور معنوی طور پر بھی اتنا طاقتور بنایا کہ صہیونی حکومت اور امریکا سمیت استکباری ممالک کے اثر و رسوخ کےمقابلے کےلئے تیار ہوگئے۔ انہوں نے اس محاذ کو روحانی لحاظ سے بھی لیس کیا اور مادی لحاظ سے بھی لیس کیا۔ شہید سلیمانی کے بارے میں ہمارے عزیز و عظیم سید جناب سید حسن نصر اللہ صاحب کی گواہی، جو واقعی ایک بے نظیر انسان ہیں، وہ گواہی دیتے ہیں کہ شہید سلیمانی نے مزاحمت کو دوبارہ زندہ کیا۔ ہم خود بھی قریب سے دیکھتے تھے کہ اس سلسلے میں ان کی کوشش، بڑی نمایاں اور اہم کوشش تھی۔ شہید سلیمانی کا بنیادی کام، درحقیقت یہ تھا، یعنی مزاحمت کی حفاظت، مزاحمت کو فروغ دینا، مزاحمت کو لیس کرنا اور مادی و روحانی لحاظ سے مزاحمت کا احیاء۔ وہ ان لوگوں کو جوش و جذبہ عطا کرتے تھے، روحانیت عطا کرتے تھے، راستہ اور سمت دکھاتے تھے، کبھی ان کا ہاتھ پکڑتے اور انھیں اس سمت میں لے جاتے تھے جہاں انھیں روحانی اور معنوی لحاظ سے جانا چاہیے، مادی لحاظ سے بھی انہوں نے ان کے ہاتھ مضبوط کیے[2]۔
حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا خطاب
تہران میں حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نےمکتب شہید سلیمانی کے پہلے بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: «عراق میں، جنرل سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی شہادت نے عراقی قوم کے درمیان اختلافات خاتمہ کیا اور مزاحمتی محور کےلیے مزید حمایت کی راہ ہموار کی۔ شہید سلیمانی پیغمبراکرم (ص) اور دین مبین اسلام کے عاشق تھے اور انہوں نے ثابت کیا کہ وہ واحد شخص ہیں جو صیہونی حکومت کے خلاف عالم اسلام کو متحد کرسکتا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے؛ لہذا شہید سلیمانی دنیا بھرکےمظلوموں کےلئے آواز اٹھاتے تھے۔ شہید سلیمانی نہ صرف ایک فوجی ماہر افسرتھے؛ بلکہ وہ سیاسی اور اقتصادی طور پربھی مہارت رکھتے تھے۔ اس کےعلاوہ عالم اسلام کےچھوٹے چھوٹےمسائل کوبھی نظرانداز نہیں کرتے تھے؛ عالم اسلام کے ہرمسئلےمیں دلچسپی رکھتے تھے۔ اسلامی احکام کے سخت پابند تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ جہاد صرف ہتھیار اٹھانے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ جہاد کےلئے اخلاق اور ایمان کا ہونا ضروری ہے۔۔۔ ۔ جنرل سلیمانی نے تمام مزاحمتی گروہوں کے درمیان تمام تر اختلافات کے باوجود ان میں اتحاد پیدا کرنے اورمشترکہ مقصد کے حصول کےلیے سب کو اکٹھا کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ شہید جنرل سلیمان ایک دور اندیش رہنما تھے، عالم اسلام کا درد رکھتے تھے، ان کے منصوبے نہایت کارساز ہوتے تھے، وہ آیندہ نگر تھے[3]».
۲۲ روزہ جنگ کے دوران غزہ کا سفر
غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی 22 روزہ جنگ کے دوران فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں شہید سلیمانی کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سینئر رکن اسامہ حمدان کا کہنا ہے: “شہید سلیمانی اس جنگ کے دوران لمحہ بہ لمحہ فلسطینی مزاحمت کے ساتھ تھے۔” اسلامی مزاحمتی تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن اور لبنان میں حماس کے نمائندے احمد عبدالہادی کا کہنا ہے کہ: «جنرل سلیمانی نے کئی بار غزہ کا سفر کیا، دفاعی منصوبے اور جنگ کے طریقہ کار پراسلامی مزاحتمی تحریک کے جوانوں کی راہنمائی کی، یہ ایک راز نہیں ہے؛ کیونکہ دشمن جانتا ہے اسےبھی معلوم ہے؛ لیکن جس چیز کو دشمن نہیں جانتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جسے وہ جانتا ہے؛ یعنی بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جس کا دشمن کو گمان تک نہیں ہے»۔
اسرائیل کی ناکہ بندی
لبنان میں حزب اللہ کی سیاسی کونسل کے رکن محمود القماطی نےجنرل قاسم سلیمانی کو اسرائیل کے خلاف ناکہ بندی کا منصوبہ ساز قرار دیتےہوئے کہا: «جنرل قاسم سلیمانی کا مزاحمتی گروہوں کی تشکیل اور ان کی ترقی اور توسیع میں نہایت ماہرانہ اور اختراعی کردار تھا۔ اگرچہ پاسداران انقلاب میں مزاحمت کی حمایت کرنے والے تمام افسران اور اہلکار اپنے کام میں منفرد تھے اور ہیں؛ لیکن شہید حاج قاسم سلیمانی اپنے ماہرانہ اور اختراعی منصوبوں کی وجہ سے ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے مزاحمت کو مہارتوں اور صلاحیتوں سے سرشار کردیا اور مزاحمت کو نہ صرف دفاعی پہلو میں؛ بلکہ سٹریٹجک پہلو میں بھی ترقی دی؛ کیونکہ وہ ایک سٹریٹجک ذہنیت کے مالک تھے وہ لبنان سمیت پورے خطے کے بارے میں فکرمند تھے۔ اب اگر مزاحمتی تحریک اسرائیل کے ساتھ نبرد آزما ہے اور اسرائیل پر میزائلوں اور جدید ترین ڈرون طیاروں سے حملے کررہی ہے تو یہ سب کچھ شہید سلیمانی کی ہی مرہون منت ہے»۔
اسرائیل کا غرور خاک میں ملادیا
جنرل قاسم سلیمانی کے ہم وطن اور قریبی دوست حسن پلارک کا کہنا ہے کہ اگر شہید قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو مزاحمت کا اتنا مضبوط محور نہ ہوتا۔ شہید نےاسرائیل کا غرور خاک میں ملادیاہے۔ پہلےغاصب اسرائیل خطے کے ممالک پر حملہ کرنے کی جرئت کرتا تھا؛ یہاں تک کہ ایران پرحملہ کرنےکےخواب دیکھتا تھا؛ لیکن جنرل سلیمانی نے قدس فورس کے ذریعے جو بنیادی ڈھانچہ تیارکیا اسی نے ہی صیہونی کارروائیوں کو روکا۔
اسرائیل کے خطرناک منصوبوں سے آگاہ کرنا
شہیدجنرل قاسم سلیمانی نے بہت سارے ممالک کو اسرائیل کےخطرات اور ناپاک منصوبوں سے آگاہ کرتےہوئےغاصب صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے روکا۔ اس حوالے سے پلارک کا مزید کہنا ہے: اب غاصب اسرائیل ایک لمحہ بھی سکون اور چین کی زندگی بسرنہیں کرسکتا ہے؛ کیونکہ خطے کے ہرملک میں ان کے خلاف مسلسل تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان پر آئے روز حملے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ جنگ کا دائرہ مغربی کنارے تک پہنچ چکا ہے۔ پوری تاریخ میں، القدس کی قابض حکومت کبھی اتنی ناامید نہیں تھی۔ اب فوجی اثر و رسوخ سے مایوس ہو کر انہوں نے ثقافتی اور ذرائع ابلاغ کا استعمال شروع کردیا ہےاس میں بھی ناکام ہو رہے ہیں۔ آج ایران پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے یہ سب کچھ شہداء کا خون اورجنرل سلیمانی کے مرہون منت ہے۔
وزیرخارجہ حسین امیرعبداللهیان کا تبصرہ
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ حسین امیرعبداللهیان، شہید جنرل سلیمانی کی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے
کہتے ہیں:«جنرل سلیمانی اور مزاحمتی فورس کےاہلکارمقبوضہ
علاقوں کے اندر صیہونی حکومت کے اعلیٰ حکام کے بیڈ روم تک رسائی حاصل کرچکے تھے۔ یہ
کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد رک گیا ہو؛ یعنی اب ان
کے جانشین اور مزاحمتی تحریک کے افراد، نہایت سنجیدگی کے ساتھ شہید سلیمانی کے نقش
قدم پرچل رہے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیلی غاصب حکومت، اندر سے اتنی کمزور
ہوچکی ہے کہ جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے، یہ کوئی سیاسی بیان نہیں ہے؛ بلکہ
ایک حقیقت ہے کہ ان کے دن اب ختم ہونے والے ہیں جس کی تفصیلات بعد میں بیان کی
جاسکتی ہیں[4]۔
[1]۔ دیکھئے: https://urdu.khamenei.ir/news/5764
[2] ۔ سابقہ حوالہ
[3]. https://urdu.khamenei.ir/
[4]۔ جنرل سلیمانی اور فلسطین۔ رسا نیوز۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی عالمی ہیرو ہیں، وزیرخارجہ امیرعبداللہیان۔ اردو سحر ٹی وی