اسلامتازہ ترین خبریں

اسلامی مذاہب کےاتحاد میں حج کا کردار!


موجودہ  دور میں اسلام اور اسلامی اقوام کے خلاف جنگ کا طریقہ، اسلامی مذاہب اور فرقوں کے درمیان اختلاف پیدا کرکے ان کو ایک دوسرے کا دشمن بنانا ہے۔ اس وقت اسلامی معاشروں اور اقوام کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو ہوا دینے کا بہترین وسیلہ مسلک اورفرقہ ہے، اسلام دشمن عناصرفرقہ پرستی اورعدم برداشت کےذریعے اسلامی معاشرے کو کمزورکرنےکی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کررہے ہیں؛ لہذا اسلامی مسالک کے درمیان اتحاد پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔

تحریر: ڈاکٹرمحمد ھادی فلاح زادہ

ترجمہ: ڈاکٹر غلام مرتضی جعفری

 اس تناظرمیں مسلمانوں کو اکٹھا کرنا اور ان میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا مسلم دانشوروں کی سب سے بڑی آرزو ہے اور اس آرزو کو پوری کرنے میں حج بہترین کردار ادا کررہا ہے۔ نسلی، مسلکی، قومی اور ثقافتی اختلافات کے باوجود لاکھوں فرزندان توحید کا یہ عظیم اجتماع وحدت اور اتحاد کا حقیقی مظہر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں مسلمان ہرقسم کے رنگوں کو بھول کرایک ہی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔

وحدت و اتحاد کا مفہوم

 وحدت: وحدت کے مختلف معانی ہیں؛ جیسے یگانگی، ایک ہونا، واحد ہونا، فرد ہونا (کثرت کا نقیض)؛ اکیلا ہونے کی حالت، احدیت، توحید، یکتائی۔(دهخدا، 1373، ج 14، 453) اور اتحاد کا مطلب ہے کہ دو یا دو سے زیادہ کا مل کر ایک ہونا، واحدیت، وصل، کسی جماعت یا گروہ کی یکدلی و ہم خیالی، اتفاق۔

اسلامی مسالک کے درمیان وحدت، اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان، ہرقسم کے شیطانی حربوں کو شکست دے کرقرآن کریم، رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اورائمہ اطہارعلیہم السلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ایک اچھی اور پرامن زندگی بسر کرے۔ جب تک اتحاد نہ ہوامن ممکن نہیں ہے اورجہاں امن نہ ہو وہاں ایک پرسکون زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی متعدد آیات اتحاد و اتفاق پرتاکید کرتی ہیں۔ سورہ بقرہ آیت 213: «كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً …»؛سوره روم آیت 21: «وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَ رَحْمَةً» سوره حجرات آیت 10: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ»؛اور سوره آل‌عمران آیت 103: «واعتصموا بحبل الله جمیعاً و لاتفرقوا» ان آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ  تحاد، ایک پرسکون زندگی کے لئے کس قدراہمیت کا حامل ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای اتحاد کی تاکیدکرتے ہوئےفرماتے ہیں: امت اسلامیہ کے اتحاد سے ہماری مراد عقائد اور نظریات کا اتحاد نہیں ہے۔ نظریات اورعقائد مختلف ہیں اور رہیں گے، یہ ایک علمی میدان ہے، فقہی اختلافات، کلامی اختلافات اور تاریخی اختلافات، سیاسی میدان میں اثر اندازنہیں ہونا چاہئے۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ اپنا مسلک اور مذہب چھوڑ کر دوسرے کا مسلک ومذہب اپناؤ؛ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ شیعہ، شیعہ رہ کر اور سنی، سنی رہ کر ہی ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ ہم نے کب کہا کہ اتحاد کا مطلب سنی، شیعہ ہونا ہے؟! ہم یہ نہیں کہتے کہ تم اپنا مذہب تبدیل کرو!؛ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ سنی اور شیعہ زمانے کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے، مشترکات پرتوجہ دیں اور ایک قوم بن جائیں؛ جس طرح اسلامی جمہوریہ ایران میں شیعہ اور سنی ایک قوم بن کرزندگی بسر کررہے ہیں۔(بین الاقوامی وحدت کانفرنس سے خطاب:30/05/1385)۔

امت اسلامیہ کے درمیان اتحاد و اتفاق کے مندرجہ ذیل وسائل ہیں:

  1. حج اسلامی اخوت کا مظہر

حج کی تشریع کا فلسفہ قرآنی حکم کے مطابق (تم میں سب سے زیادہ عزیز وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار اور متقی ہو) دینداری اور پرہیزگاری ہے، اس میں رنگ، نسل، قوم و قبیلہ معنی نہیں رکھتے؛ اسی طرح « واعتصموا بحبل الله جمیعاً و لاتفرقوا …» سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام، مخلوق اور خالق کے درمیان رابطے کا مرکز اور شاہراہ ہے اور یہ رابطہ حج کے ذریعے یکساں قوانین کے ساتھ ممکن ہے؛ لہٰذا، حج میں، لوگ ان کی انسانی فطرت کی وجہ سے ہی اللہ تعالی سے جڑ جاتے ہیں نہ کہ ان کی نسلی، قبائلی اور مذہبی نوعیت کی وجہ سے؛ دوسرے لفظوں میں سارے افراد ایک ہی خالق کی مخلوق ہیں جو درحقیقت ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں اور حج، ان بھائیوں اور بہنوں کا اللہ کی بارگاہ میں ایک ہی رنگ و شکل میں حاضر ہونے کا نام ہے۔ جیسے کہ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: یہ گھر *ناس* کے لئے ہے؛ یعنی ساری انسانیت کے لئے ہے، ایک فرد، ایک گروہ یا مخصوص قوم و قبیلہ، کےلئے نہیں ہے، اس میں سب برابر ہیں؛ لہذا مشرق و مغرب میں بسنے والے انسانوں پر فرض ہے کہ وہ مسلمان ہو جائیں اور اس گھر (کعبہ)میں جمع ہو کر ایک ہی خالق کی مخلوق ہونے کا ثبوت دیں۔ (صحیفه نور، ج 8 ص 172)۔

  1. حج ، مسلمانوں کے امور سے آگاہی کا مرکز

حج وہ میدان ہے؛جہاں مسلمان ایک دوسرےسےآشناہونےکےعلاوہ؛ ایک دوسرے کی کمزوریوں، مشکلات، خطرات، مشترکہ نقصانات اور مفادات سے بھی آشنا ہوجاتے ہیں اور افھام و تفہیم، اتحاد و اتفاق کے ذریعے ایک دوسرے کا بازو بن کر ہرقسم کی مشکلات کا مقابلہ کرکےایک خوشحال زندگی کا سامان مہیا کرتےہیں؛ لہذا حج امت اسلامیہ کے اقتدار، طاقت، سربلندی اور عظمت کا سرچشمہ ہے۔

  1. مشترکہ دشمن کی پہچان

موجودہ دور میں اسلامی مسالک کے اتحاد میں رکاوٹیں ڈال کر تفرقہ ایجاد کرنے والے مشترکہ دشمن کی پہچان بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ملک کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کوپہچانے؛ لہذا دنیا کی بڑی استعماری طاقتیں اپنے مفادات کو مدنظررکھ کر قدرتی خزانوں سے مالا مال اسلامی ممالک کے وسائل پرقبضہ کرنے کے درپے ہیں، وہ اپنے مقصد میں تب کامیاب ہونگے، جب اسلامی ممالک آپس میں اختلافات کا شکار ہوکر ایک دوسرے کا دشمن بن جائیں گے!؛ لہذا دشمن کی کوششش ہوتی ہے کہ اسلامی ممالک کےدرمیان کسی بھی طریقے سے نفرت و دشمنی ایجاد کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خطے میں لسان پرستی، نسل پرستی اور فرقہ پرستی کو ہوا دی جارہی ہے، مسلمانوں کو ایک دوسرے کی تکفیر پر اکسایا جارہاہے۔ اگر کہیں کوئی اتحاد نظرآئے تو ان کو بڑی تکلیف ہوتی ہے؛جیسے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی پر سخت پریشان ہیں اور برملا مخالفت کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں امام خمینی حجاج کرام کے نام پیغام میں فرماتے ہیں: «ہر ملک، ہر قبیلے اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے معزز حجاج کرام سے گزارش ہے کہ قرآن کریم، رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات پرسختی سے عمل کریں۔ آپ سب کو ایک مشترکہ درندہ صفت دشمن کا سامنا ہے جو اپنےایجنٹوں، ذرائع ابلاغ اور تفرقہ انگیز پروپیگنڈے کے ذریعے آپ کے درمیان اختلافات اور دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ دشمن کی منفی تبلیغات نے پوری تاریخ میں بالخصوص حالیہ صدیوں اور موجودہ دور میں تمام اسلامی ریاستوں اور قوموں کو اپنی لپیٹ میں لےلیا ہے، اس مشترکہ دشمن نے آپ کے ملک اور مظلوم مسلمانوں کو نہایت بےدردی سے لوٹا ہے۔ دشمن اسلامی ممالک کی حکومتوں پر اثرانداز ہوکر ان ممالک میں موجود قدرتی وسائل پرقبضہ اور مسلمانوں کی ترقی کو روکنا چاہتا ہے؛ لہذا شیطانی چالوں اور سازشوں کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ استعماری طاقتوں کے ناپاک منصوبوں کا مقابلہ اتحاد کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ۔۔۔۔»۔ (صحیفه نور، ج 20، ص 16)

منابع

  1. قرآن کریم
  2. دهخدا، علی‌اکبر. تعداد جلد: 15. زبان: فارسی. ناشر: روزنه – تهران – ایران. سال نشر: 1372۔
  3. بیانات  مقام معظم رهبری در جمع میهمانان اجلاس وحدت اسلامی 30/5/85۔
  4. بیانات  مقام معظم رهبری در دیدار کارگزارن حج/ 1392۔
  5. خمینی، روح الله، صحیفه نور، تهران، سازمان مدارک فرهنگی انقلاب اسلامی، 1372۔
Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close