اسلاماسلامی بیداریتازہ ترین خبریں

اسلامی اور مغربی تہذیب کا تقابلی جائزہ


 پچھلےکئی سالوں سے اسلام کے خلاف مغرب کی دشمنی نئی شکلوں اور نئے اوزار کے ساتھ شدت اختیار کرگئی ہے۔ پچھلی صدیوں میں، مغربی اسلام دشمن عناصرکی توجہ صرف فرقہ واریت، قوم پرستی، نسل پرستی، لسان پرستی پرمرکوز تھی؛ لیکن آج ان طریقوں کے ساتھ ساتھ نئی ٹیکنالوجی اور ورچوئل اسپیس کا استعمال کرتے ہوئے اسلامی اقدار کو مسخ کرکے ناقص اور ناکارہ متعارف کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ فلمیں، کمپیوٹرگمیز، اسلام مخالف کتابیں اور مقالات شائع کرکے اسلام کو ایک شدت پسند مذہب کے طورپر پیش کرنےکی کوشش کی جارہی ہے؛ تاکہ لوگ اسلام سے دور رہیں۔

تحریر: مصطفی علیمردانی

ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

اس مضمون میں، مغرب کے نوجوانوں کے نام رہبرانقلاب کے خط کی روشنی میں، اسلامی اور مغربی تہذیب کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

کلیدی کلمات: مغربی جوانوں کے نام رہبرانقلاب کا خط، اسلامی تہذیب، مغربی تہذیب، اسلام دشمنی، اصل اسلام۔

مقدمہ

   مغرب میں قرون وسطی کے دوران، بنیادی طاقت چرچ کے پادریوں کے ہاتھ میں تھی اور پادری ہی معاشرے کا نظام چلانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ انہوں نے  بہت سے سائنسدانوں کو کلیسا کے نظریات کے خلاف بات کرنے کی وجہ سے مجرم قرار دے کرقتل کرنے کا حکم دیا تو سائنسدانوں اور علمی حلقوں کی جانب سے کلیسا کی مخالفت میں مزید شدت آگئی اور اس کی بالادستی کا خاتمہ ہوا۔ معاشرے میں لوگ سکیولر اور  لبیرل نظریات کو ترجیح دینے لگے؛ یوں مغرب میں تشکیل پانے والی تہذیب، نشاۃ ثانیہ (رنسانس)کے بعد آہستہ آہستہ بدنام ہوگئی۔ حکومتی نظام میں کلیسا کی ناکامیوں نے مغربی مفکرین کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ مذہب معاشرے کو خوشحال نہیں بناسکتا ہے۔  انسان اپنی عقل اور تجربات کے ذریعے ہی ترقی کے منازل طے کرسکتاہے اور یہ نظریہ بھی پیش کیا گیا کہ مذہب انسانی ترقی کے خلاف ہے، اگر دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہوتو مذہب سے دور رہو۔! اس طرح  انسانیت کی بنیاد پر تشکیل پانے والےمختلف فلسفیانہ افکار، مغربی سماجی اور معاشرتی تہذیب کی بنیاد بن گئے۔

اسلامی اور مغربی تہذیب کا تقابلی جائزہ

ذیل میں اسلام اور مغربی تہذیب اور ان دونوں کےبنیادی اختلافات کا جائزہ لیا گیا ہے:

اسلامی تہذیب اور اس کی خصوصیات

اسلامی تہذیب میں ایسی خصوصیات ہیں جو اسے دوسری تہذیبوں سے ممتاز کرتی ہیں۔

“اسلامی تہذیب” سے مراد: نظریات، عقائد، روایات، تخلیقات، ایجادات اور فنون کا ایک مجموعہ ہے جو اسلامی قوانین اور ضوابط کے عین مطابق کسی بھی معاشرے میں رائج ہے۔ (یعقوبی، 1389) قرآن کریم، سنت نبوی اور اہل بیت اطہارعلیہم السلام کی جانب سے بتائے گئے اصول اور قوانین کا نام اسلامی تہذیب ہے۔ اس تہذیب کا ایک خاص معیار ہے، نہ کسی چیز کو یکسرمسترد کرتی ہے اور نہ ہی مطلق طورپرقبول؛ بلکہ اس تہذیب میں اسلامی قوانین کے مطابق کوئی بھی چیز ہو اسے اپنایا جاتا ہے؛ لہذا اسلامی تہذیب میں آنکھیں بند کرکے سابقہ اور مغربی جدید ثقافتوں کی تقلید نہیں کی جاتی ہے۔(زرین کوب، 1350، 12)۔

دنیا کی بہترین تہذٰیب

اسلامی ثقافت اور تہذیب، شروع سے ہی ایک عالمی اور بین الاقوامی نقطہ نظر رکھتی ہے، جس کی بنیاد الہی قانون؛ یعنی قرآن ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ص پرنازل ہوا ہے۔ قرآن ایک قوم، ایک نسل اور کسی گروہ سے خاص نہیں ہے، اس میں عرب،عجم، ترک، ایرانی، پاکستانی، ہندوستانی، چینی، افریقی، یورپی سب برابر ہیں؛ یہی وجہ ہے دنیا بھرمیں لوگ جوق در جوق مسلمان ہوکراسلامی تہذیب اپنا رہے ہیں۔ اسلامی تہذیب کی نشو ونما کی ایک وجہ علم اورعلماء(دانشمندوں) پر اسلام کی توجہ ہے، جس قدر اسلام نے علم پر توجہ دی ہے اور علماء کا احترام کیا ہے کسی نے نہیں کیا۔ اسی وجہ سے دنیا بھرمیں انسانوں کی ایک بڑی تعداد اسلامی تہذیب کو بہترین تہذیب سمجھتی ہے۔(اکبری ناصری، 1394)

قدیم مغربی تہذیب

مغربی تہذیب کے تین ادوار قابل ذکر ہیں:

– قبل مسیح کی تہذیب: اسلام سے پہلے چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدیوں میں اس تہذیب کا عروج تھا؛

– قرون وسطی کی تہذیب: جس کا آغاز چوتھی صدی عیسوی میں ہوا؛

– نشاۃ ثانیہ کی تہذیب: جو پندرہویں اور سولہویں صدی میں کلیسا کے زوال کے ساتھ ہی وجود میں آئی۔

نئی مغربی تہذیب

نئی مغربی تہذیب میں ہیومینیزم یا انسانیت محوری، عصبیت یا نحیل ازم پرتوجہ دی جاتی ہے، اس نظریے کے مطابق کائنات کی کوئی قدر نہیں ہے اور یہ بنیادی طور پر بے معنی ہے، جو کچھ ہے وہ عقل اور علم ہے۔ مذہب کا علم، سیاست اور ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔(اکبری ناصری، 2014)

اسلامی اور مغربی تہذیب کے بنیادی اختلافات

معرفت اورعلمی بنیادوں میں اختلاف؛

اقدار میں اختلاف؛

طرز حکمرانی میں اختلاف؛

قومی قیادت اور رہبریت میں اختلاف؛

ثقافتی اہداف میں اختلاف۔

 (اسحاقی، 1384)

 مغربی تہذیب اور استکباریت

”کِبر” اُس نفسانی کیفیت کو کہتے ہیں کہ جس کے سبب انسان اپنے آپ پر فخرکرتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتا ہے۔ اسلامی تہذیب میں استکبار، تسلط پسندانہ رویہ، استعماری سازشیں ناقابل قبول ہیں؛ جبکہ مغربی تہذیب میں ایک اقلیت اکثریت پرحاکم ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب میں یہ رویہ اندرونی اور بیرونی سطح دکھا جاسکتا ہے۔ اس تہذیب میں مال و دولت، طاقت اور اثر ورسوخ کا استعمال کرکے ظلم کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ رہبرانقلاب فرماتے ہیں: ہماری ثقافت اورتہذیب میں، استکبار اس نظام کو کہا جاتا ہے جو اپنی سیاسی، عسکری، سائنسی اور اقتصادی توانائیوں کی مدد سے اور نوع انسانی کے بارے میں تفریق آمیز فکر کی بنیاد پر انسانی معاشرے کے بڑے حصے یعنی اقوام، حکومتوں اور ممالک کو اپنے تحقیر آمیز و جابرانہ تسلط میں جکڑ لے اور اپنے مفادات کے حصول کےلئے ان پر سختیاں کرے، ان کا استحصال کرے، ان کے امور میں دخل اندازی کرے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرے، حکومتوں پر دھونس جمائے اور قوموں پر ظلم کرے، ان کی تہذیب، ثقافت؛ یعنی آداب و رسوم کی توہین کرے۔ اس کی بالکل نمایاں مثال قدیم اور جدید سامراج کا کردار ہے۔ انہوں نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا سہارا لےکر سیاسی، اقتصادی اور تبلیغاتی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

کمزور ممالک پرحملے

کمزور ممالک پر حملے اور ان کے خلاف پابندیوں کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرنا استکباریت ہے۔ رہبرانقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: “استکبارکا مطلب ہے کہ دنیا کی کوئی ایک طاقت یا طاقتیں، جب اپنے آپ کو دیکھتی ہیں کہ ان کے پاس پیسہ، ہتھیار اور پروپیگنڈے کی سہولیات ہیں تو یہ اپنے آپ کو حق دیتی ہیں کہ کسی بھی ملک، قوم یا معاشرے میں اپنی مرضی کے مطابق دخالت کرے۔ یہ استکبار کا مفہوم ہے۔(آیت اللہ خامنہ ای، 1388)

استکباریت کے اسباب

انسان اور معاشرے میں استکبار کے ابھرنے کے اسباب اور عوامل متعدد ہیں جن میں سے بعض کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیاہے یہ وہ اسباب اور عوامل ہیں جن کو آج کے استکباری معاشروں میں آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی تہذیب میں تکبر، تسلط پسندانہ رویہ، بد اخلاقی اور ظلم سے نفرت کی جاتی ہے، تکبرایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ قرآن کریم نے تکبر کے متعدد اسباب اور عوامل بیان کئے ہیں:

مال و ثروت  کا غلط استعمال

 اسلامی تہذیب میں مال وثروت کو ہمیشہ منفی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتاہے؛ اگرمال و ثروت کو صحیح جگہ استعمال کیا جائے تو معاشرے کی ترقی کا سبب ہے۔ ’’مال و ثروت اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ ایک نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اپنی بے شمار دینی اور دنیوی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ثروت اللہ کی جانب سے امتحان اور آزمائش بھی ہے؛ لہذا تکبر، فتنہ اور فساد کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَ نَادٰی فِرۡعَوۡنُ فِیۡ قَوۡمِہٖ قَالَ یٰقَوۡمِ اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ وَ ہٰذِہِ الۡاَنۡہٰرُ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِیۡ ۚ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ؛ (زخرف51)؛ اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا: اے میری قوم! کیا مصر کی سلطنت میرے لیے نہیں ہے، اور یہ نہریں جو میرے (محلات کے) نیچے بہ رہی ہیں؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟» اسی طرح  اللہ تعالی سورہ یونس میں ارشاد فرما رہاہے: «وَ قَالَ مُوۡسٰی رَبَّنَاۤ اِنَّکَ اٰتَیۡتَ فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَاَہٗ زِیۡنَۃً وَّ اَمۡوَالًا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۙ رَبَّنَا لِیُضِلُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِکَ ۚ رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰۤی اَمۡوَالِہِمۡ وَ اشۡدُدۡ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡا حَتّٰی یَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ۔ (یونس88) اور موسیٰ نے عرض کی: اے ہمارے رب! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے ہمارے رب! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں؟ ہمارے رب! ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں۔»

«فَاَمَّا عَادٌ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ قَالُوۡا مَنۡ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ؕ اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَہُمۡ ہُوَ اَشَدُّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ۔ (فصلت 15)

مگر عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے ؟ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ طاقتور ہے؟ (اس طرح) وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے»۔

انسانی قدروں کی پامالی

جابر لوگ ہمیشہ اپنی رعیت سے ان کی انسانی قدریں چھین کر انہیں بے وقعت کر دیتے ہیں۔ جب قوم کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی تو پھر یہ قوم جابر طاقتوں کی غلام بن جاتی ہے۔ جیسے کہ فرعون نے اپنی قوم کو بے وقعت کر دیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «فَاسۡتَخَفَّ قَوۡمَہٗ فَاَطَاعُوۡہُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ۔ (ذخرف54)؛ چونکہ اس نے اپنی قوم کو بے وقعت کر دیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، وہ یقینا فاسق لوگ تھے»۔ فرعون نے اپنی قوم کو جب بے حیثیت کردیا تو قوم نے فرعون کی اطاعت کی۔ چنانچہ

حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید کی اطاعت کرنے والوں سے فرمایا: ان لم یکن لکم دین۔۔۔ فکونوا احراراً فی دنیاکم ۔ (بحار الانوار 45: 50) اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے، تو تم اپنی دنیا میں تو آزاد رہو۔ (بے وقعت نہ بنو)» (تفسیر الکوثر، شیخ محسن نجفی)

« وَ اِذۡ یَتَحَآجُّوۡنَ فِی النَّارِ فَیَقُوۡلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا اِنَّا کُنَّا لَکُمۡ تَبَعًا فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّغۡنُوۡنَ عَنَّا نَصِیۡبًا مِّنَ النَّارِ۔ (غافر،47)

 اور جب وہ جہنم میں جھگڑیں گے تو کمزور درجے کے لوگ بڑا بننے والوں سے کہیں گے: ہم تو تمہارے تابع تھے، تو کیا تم ہم سے آتش کا کچھ حصہ دور کر سکتے ہو؟»

انہیں معلوم ہے کہ وہ نہیں بچا سکتے۔ یہ بات صرف انہیں مزید خوار کرنے کے لیے یا دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کہ رہے ہوں گے۔ یا ممکن ہے دنیا میں ان سرداروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی عادت راسخ ہو گئی تھی، اس کے تحت آخرت میں بھی ان کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوں۔

(تفسیر الکوثر، شیخ محسن نجفی)

تخلیق میں برتری کا گمان

 بعض شیطانی قوتوں کا گمان ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں دوسروں سے افضل اور برتر خلق کیا ہے، جس طرح شیطان کا دعوی تھا۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرمارہا ہے: «قَالَ یٰۤاِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ اَسۡتَکۡبَرۡتَ اَمۡ کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ۔ (ص،75)

 فرمایا: اے ابلیس !جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ کیا تو نے تکبر کیا ہے یا تو اونچے درجے والوں میں سے ہے؟»۔

 «قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ؕ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ۔ (ص،76)

 اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے»۔

سورہ بقرہ میں ارشاد ہے: «وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (بقرہ،34)

 اور (اس وقت کو یاد کرو)جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔»

تکبر اور خود پسندی

یوں تو دنیا میں استکباریت اور فسادات کی بہت سی وجوہات موجود ہیں؛ لیکن علماء اخلاق نے غرور و تکبر، خودپسندى اور خودخواہی كى صفت كو”ام الفساد” يعنى فساد كى ماں قرار ديا ہے۔ غرور اور خودپسندی کو تمام برائیوں اور گناہوں كا سبب بتلايا ہے۔

کفر اور جرائم کا ارتکاب

 کافر اور درباری جرائم پیشہ لوگ ہر وقت مصلحین کو حقیر سمجھتے اور ان کے مقابلے میں تکبر سے پیش آئے ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۟ اَفَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَاسۡتَکۡبَرۡتُمۡ وَ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ(جاثیہ۔31)؛ اور جنہوں نے کفر کیا (ان سے کہا جائے گا) کیا میری آیات تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں؟ پھر تم نے تکبر کیا اور تم مجرم قوم تھے»۔

«ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَ کَانُوۡا قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ۔(یونس،75)؛ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے»۔

 اسی حالت سے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام بھی دو چار تھے۔ موسیٰ و ہارون علیہما السلام بے بس، بنی اسرائیل غلامی کے زنجیروں میں جکڑے ہوئے اور فرعون اور اس کے درباری اپنی دولت و اقتدار کے نشے میں بدمست۔ اسی لیے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں بڑے متکبرانہ انداز میں پیش آتے اور کسی قسم کے جرم کے ارتکاب سے باز نہیں آتے تھے۔ (شیخ محسن نجفی، تفسیر الکوثر)

اللہ کی قدرت سےغفلت

استکبار اور تسلط پسندانہ رویے کی ایک وجہ اللہ کی قدرت سے غفلت ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «فَاَمَّا عَادٌ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ قَالُوۡا مَنۡ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ؕ اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَہُمۡ ہُوَ اَشَدُّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ۔(فصلت،15)؛ ۔ مگرعاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے؟ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ طاقتور ہے؟ (اس طرح) وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے»۔

مادی انسان کی سوچ قدیم ایام سے یہی رہی ہے کہ جو عقل و فکر، مہارت، ہنر اور دولت اس کے پاس ہے وہ کسی کی عطاکردہ نہیں؛ بلکہ اس نے خود یہ چیزیں اپنے لیے بنائی ہیں۔  اللہ تعالی دوسری آیت میں ارشاد فرما رہا ہے: «قَالَ اِنَّمَاۤ اُوۡتِیۡتُہٗ عَلٰی عِلۡمٍ عِنۡدِیۡ ؕ اَوَ لَمۡ یَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ قَدۡ اَہۡلَکَ مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مَنۡ ہُوَ اَشَدُّ مِنۡہُ قُوَّۃً وَّ اَکۡثَرُ جَمۡعًا ؕ وَ لَا یُسۡـَٔلُ عَنۡ ذُنُوۡبِہِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ۔(قصص، 78)؛

 قارون نے کہا: یہ سب مجھے اس مہارت کی بنا پر ملا ہے جو مجھے حاصل ہے، کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی امتوں کو ہلاکت میں ڈال دیا جو اس سے زیادہ طاقت اور جمعیت رکھتی تھیں اور مجرموں سے تو ان کے گناہ کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا»۔

یہ مال و دولت میری اپنی مہارت اور ہنرمندی کا نتیجہ ہے۔ اس میں کسی غیبی طاقت کا کوئی دخل نہیں۔ (شیخ محسن نجفی، تفسیر الکوثر)

 ایران سے دشمنی

  مغرب کی اسلامی جمہوریہ ایران سے متکبرانہ دشمنی کی اصل وجہ، اسلام سے دشمنی ہے؛ کیونکہ اسلام اور استکبار فطری طور پر مختلف ہیں اور ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جہاں اسلام ہے وہاں اسکتبارکا ہونا ناممکن ہے۔ رہبر معظم انقلاب فرماتےہیں: اسلام کی مخالفت اور قرآن کی مخالفت عالمی استکبار کی دیرینہ خاصیت ہے۔ عالمی استکبار مختلف طریقوں سے اسلام اور قرآن کی مخالفتیں جاری رکھے ہوئے ہیں، مختلف بےبنیاد الزمات لگاکر اسلامی بیداری کا مقابلہ کرنا ان کا شیوہ رہا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی اسی تناظر میں مزید فرماتے ہیں: آج اسلامی ایران کے ساتھ استکباری طاقتوں کی دشمنی اسلام کی وجہ سے ہے۔ دراصل وہ اسلام کے دشمن ہیں، اسلام دشمنی کی وجہ سے ہی اسلامی جمہوریہ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ (آیت اللہ خامنہ ای، 1368)۔

استکبار رہبرانقلاب کی نگاہ میں

   یہ بات واضح ہے کہ مغرب میں رہنے والے ہرفرد کو استکبار پسند نہیں کہا جاسکتاہے۔ ہرکوئی اسلام مخالف بھی نہیں ہے؛ مغرب میں ایک اقلیت ہے جو اسلام دشمن اور تسلط پسند ہے، مغرب پر اسی اقلیت کی حکمرانی ہے۔ یہی حکمران طبقہ معاشرے پرغلبہ حاصل کرکے ان پراپنے خیالات مسلط کرنے کی کوشش کررہاہے۔ یہ نکتہ رہبر معظم کے بیانات میں بہت واضح نظرآتا ہے: «ہمارا اختلاف امریکی حکومت سے ہے، امریکی قوم سے نہیں ہے، امریکی قوم سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہے، امریکی قوم سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے، امریکی قوم بھی باقی اقوام کی طرح ہے؛ البتہ امریکی حکومت نے ان چند سالوں میں مسلسل منفی تبلیغات کے ذریعے امریکی عوام کو ایران مخالف بنانے کی کوشش کی ہے۔ ہماری کسی قوم سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ امریکی حکومت سے ہے۔ امریکی ایران دشمن پالیسیوں سے ہے۔ (آیت الله خامنه ای، 1376)

اسلامی اور مغربی تہذیب میں تعامل

 اسلامی اور مغربی ثقافت اور تہذیب میں اختلاف کے باوجود ان کے درمیان مکالمے اور تعامل کا امکان موجود ہے۔

رہبر معظم نےمغرب کے نوجوانوں کے نام خط میں بھی ذکرفرمایاہے کہ ہم سماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے نتیجہ خیز گفتگو کرسکتے ہیں۔ رہبرانقلاب مغربی جوانوں کے نام خط میں لکھتے ہیں: “اسلامی دنیا کے ساتھ صحیح اور باعزت تعامل کی بنیاد رکھیں۔ اس صورت میں، مستقبل قریب میں، آپ اس عمارت کو دیکھیں گے جو آپ نے ایسی بنیادوں پر تعمیر کی ہے، جو اس کے معماروں پر اعتماد اور بھروسے کا سایہ پھیلاتی ہے، انہیں سلامتی اور امن کا تحفہ دیتی ہے۔ روشن مستقبل کی نوید سناتی ہے۔۔۔ (آیت اللہ خامنہ ای، 2015)

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای مغربی جوانوں کے نام خط میں اسلام اور مغرب کے درمیان تعامل کا ذکرکرتے ہوئے لکھتےہیں: میرا ایمان ہے کہ صرف آپ جوان ہی ہیں جو آج کی مشکلات سے سبق حاصل کرکے اس بات پر قادر ہو جائيں کہ مستقبل کی تعمیر کےلئے نئي راہیں تلاش کرسکیں اور ان غلط راستوں پر رکاوٹ بن جائیں کہ جو یورپ کو موجودہ مقام تک پہنچانے کا باعث بنے ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک، مثبت سوچ اور انصاف کا پل بنا سکتا ہے ایک ایسا پل جو فاصلوں کو ختم کرسکے۔ اگرچہ بدقسمتی سے دین اسلام اور آپ جوانوں کے درمیان دوری کے منصوبے بہت ناگوار اور تلخ ہیں؛ لیکن آپ کے ذہن میں بہت سارے نئے سوالات پیدا کرسکتے ہیں۔ ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش آپ کو سچائی دریافت کرنے کا بہترین موقع فراہم کرسکتی ہے؛ لہذا اسلام کو بغیرکسی تعصب کے صحیح طور پرسمجھنے کی کوشش کریں اور وقت ضائع نہ کریں۔

 (آیت الله خامنه ای، 2014)

جاری ہے

منابع:

  • قرآن کریم، ترجمہ شیخ محسن نجفی.

– حاجی ملامیرزایی، حمید و حامد حاجی ملامیرزایی. 1388. «جایگاه فضای مجازی در فرهنگ و تمدن اسلامی ـ ایرانی». نشر دانش: 8 ـ 13.

– اسحاقی، سید حسین. 1384. «تقابل اسلام و غرب در میدان گفت وگو». مبلغان. ش65: 72 ـ 87.

– اکبری ناصری، ابراهیم. (دسترسی در: 25/1/1395). «فرهنگ و تمدن غربی و فرهنگ و تمدن اسلامی»: http://naseri2020.mihanblog.com/post/2047

 -ایزدی، فواد. (دسترسی در: 19/1/1395). «نشست بررسی زوایای نامه رهبری به جوانان غربی»: http://isna.ir/fa/news/93120402517

بشکریہ: ایران نوین میگزین

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close