ایرانتازہ ترین خبریں

اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کا مقام!

تحریر: غلام مرتضی جعفری

ایران میں اسلامی انقلاب کی شاندار فتح کے 42 سالوں میں، سامراجی اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کی خواہش کے برعکس خواتین نے ترقی کے منازل طے کئے، اپنے اندر عظیم صلاحتیں پیدا کیں، خاندان کو مضبوط کیا؛ جبکہ شہنشاہی حکومت نے ایرانی عورت کو بھی مغربی عورت کی طرح جنسی جذبات کا مظہر بنا دیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ کے نظام میں جنس کا مسئلہ انسانی فضیلت کی خدمت کےلیے استعمال کیا گیا نہ کہ انسانی انحطاط اور اخلاقی زوال کے لیے؛ جیسا کہ مغربی دنیا میں رواج ہے۔

اسی بنا پراسلامی انقلاب کے بعد ایرانی مسلمان عورت پہلے خاندانی اور پھر سماجی میدان میں اپنا اصل مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

سامراج کے اسلام دشمن منفی تبلیغات کے باوجود، اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کی ذاتی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اخلاقی  ترقی بالکل واضح  اور روشن ہے۔ دشمن، ایران میں خواتین کی ہرشعبے میں ترقی دیکھ کر سیخ پا ہے اور پوری بے شرمی کے ساتھ اسلامی معاشرے کو تباہ کرنےکی کوششوں آج بھی میں مصروف ہے۔

خواتین کے حقوق اور انسانی وقار کا فروغ

 خوش قسمتی سے انقلاب اسلامی کے بعد خواتین کے حقوق اور انسانی وقار کے فروغ اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے تمام متعلقہ اداروں میں قوانین وضع کئے گئے اور ان قوانین پربھرپور عمل درآمد کرانے کی کوشش کی گئی؛ یہی وجہ ہے کہ دشمن کی تمام ترمنفی تبلیغات کے باوجود خواتین کے مقام و مرتبے میں کسی قسم کی کمی آنے کے بجائے خواتین کی عزت و احترام اور ترقی کے منازل طے ہوتے رہے۔ اسی بنا پر اس وقت ایک ایرانی خاتون ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے؛یہی وجہ ہے کہ دن بہ دن ایرانی معاشرے میں خواتین مختلف سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، انتظامی اور علمی میدانوں میں چمک رہی ہیں۔ ایران میں خواتین کے نام سے شائع ہونے والے سائنسی، تحقیقی، تاریخی، ادبی، سیاسی اور فنی مطبوعات سمیت مختلف کتابوں پر سرسری نظر ڈالنے سے خواتین کی اعلیٰ علمی حیثیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ پیش رفت اور ترقی تمام شعبوں میں واضح ہے۔ طب، ٹیکنالوجی اور ہنرمندانہ شعبوں میں ایرانی خواتین کی سرگرمیاں بہت متاثر کن ہیں۔ اس کے علاوہ جدید علوم سے متعلق تمام شعبوں میں خواتین اثر و رسوخ اور ترقی کا ذریعہ رہی ہیں۔

بین الاقوامی اعداد شمار سے واضح ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خواتین کی مختلف سماجی، علمی، سیاسی، اقتصادی اور کھیلوں کے میدانوں میں کامیاب موجودگی متاثرکن ہے۔

  ایران کی کامیابی اور خوشحالی کی کنجی

ایران میں خواتین اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کی کنجی سمجھی جاتی ہیں:” صعود چهل ساله” چالیس سال کا عروج نامی کتاب میں انقلاب اسلامی کے چالیس سال کی کامیابیوں کا جائزہ لیا گیا ہے؛ کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انقلاب کےبعد خواتین کی شرح خواندگی میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ انقلاب سے پہلےعلمی درسگاہوں خاص کریونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد میں صرف ۶ فیصد خواتین ہوتی تھیں، اب یہ تعداد ۵۰ فیصد تک پہنچ چکی ہے؛ یعنی خواتین اور مردوں کی تعداد برابر ہوچکی ہے۔ اس وقت ملک کے ابتدائی اسکولوں میں بچوں سے بچیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اب والدین اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنے سے کسی قسم کی گبھراہٹ یا عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق ایران میں 15 سال سے زائد عمر کی خواتین میں ناخواندگی میں کمی اور پرائمری، سیکنڈری اور یونیورسٹی میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔

کھیلوں کے میدان ایرانی خواتین

اسلامی انقلاب کےبعد کھیلوں کے میدان میں خواتین کی سرگرمیوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ ایرانی خواتین دنیا بھرمیں منعقد ہونے والے مختلف قسم کے کھیلوں میں شرکت کرتی ہیں۔ آج ایرانی مسلمان خواتین عالمی سطح پر حجاب کی رعایت کرتے ہوئے مختلف کھیلوں میں نہ صرف شرکت کرتی ہیں؛ بلکہ مختلف تمغے بھی اپنے نام کرتی ہیں۔ انقلاب سے پہلے ایشیائی مقابلوں میں ایرانی خواتین کے حصے میں صرف 5 تمغے آئے تھے؛ جبکہ اب یہ تعداد بڑھ کرکے ۲۰۰ تک پہنچ چکی ہے۔

ایرانی خواتین کی عمر میں اضافہ

اسلامی انقلاب سے پہلے ایران میں خواتین کی متوقع عمر کا انڈیکس 57.6 فیصد تک پہنچ گیا تھا جو اب بڑھ کر 77.1 فیصد ہو گیا ہے۔  

علمی میدان

اسلامی انقلاب سے پہلے یونیورسٹیوں کی پروفیسر شپ میں خواتین کا حصہ تقریباً 1% تھا جو اب بڑھ کر 21% ہو گیا ہے۔

زیچہ و بچہ کے شعبے میں خواتین اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی تعداد 16 فیصد سے بڑھ کر 98 فیصد ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں بچے کی پیدائش کے دوران زچگی کی شرح اموات میں بھی 90 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ انقلاب سے پہلے خواتین ڈاکٹروں کی ایک قلیل تعداد(597) تھی اب50  گنا بڑھ گئی ہے۔

نشر واشاعت اور تحریر کے میدان میں بھی خواتین نے حیران کن ترقی کی ہے جیسے کہ انقلاب سے پہلے خواتین لکھاریوں کی تعداد 10 سے بھی کم تھی؛ لیکن اب یہ تعداد ۴ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ پہلوی دور حکومت میں ملک میں خواتین پبلشرز نہیں تھیں؛ لیکن اب ملک میں تقریباً 800 خواتین پبلشرز ہیں۔ اب ملک میں ۹۹ فیصد سے زیادہ خواتین بڑھی لکھی ہیں۔ ملک بھرمیں خواتین کے اپنے نشر و اشاعت کے ادارے ہیں۔ انقلاب سے پہلے ۱۹۷۱ میں صرف 35 فیصد لڑکیاں اسکول جاتی تھیں؛ جبکہ اب تعداد لڑکوں کے برابر ہوچکی ہے۔

 خواتین کی تنظمیں اور ادارے

 اسلامی انقلاب کے بعد ملک بھرمیں خواتین سے متعلق ہزاروں ادارے فعال ہیں، خواتین ثقافتی، تعلیمی، کاروباری، رفاہی اور حتیٰ کہ تحقیقی نقطہ نظر کے حامل بہت سے ادارے اور مراکز چلا رہی ہیں، ان میں سرکاری اور سرکاری مراکز شامل ہیں۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق ملک بھرمیں 2ہزار 700 خواتین کی مستقل تنظیمیں کام کررہی ہیں؛ جبکہ شہنشاہی دور حکومت میں صرف 5 غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم تھیں اور یہ تعداد بھی بنیادی طور پر شاہی خاندان سے منسلک تھی۔ ملک بھرکے سرکاری اور غیرسرکاروں اداروں میں خواتین نمایاں کردار ادا کررہی ہیں، ایک اندازے کے مطابق انقلاب سے پہلے صرف 6 فیصد خواتین ملکی اداروں میں کام کرتی تھیں اب یہ تعداد بڑھ کر40 فیصد ہوچکی ہے۔

 عسکری میدان میں خواتین کا کردار!

اس وقت خواتین نہ صرف عام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اداروں میں خدمات انجام دے رہی ہیں؛ بلکہ ملک کے عسکری دفاعی میدان میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ فوج اور پولیس کے اداروں میں بھی خواتین کا کردار قابل فخر ہے۔

کرونا وائرس کے خلاف جنگ

ملک بھرمیں کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں ایرانی خواتین ڈاکٹروں نے نہایت اہم خدمات اور کردار ادا کیا، ہزاروں بیماروں کے علاج معالجے میں دن رات محنت کی اور ملک کو اس مشکل سے نکالنے میں قابل فخر خدمات سرانجام دیں۔

ایران میں خواتین کا مقام

اسلامی جمہوریہ کے نظام میں خواتین کا مقام اتنا بلند ہے کہ رہبر معظم فرماتے ہیں: “عورت پھول ہے، قہرمان نہیں”؛ “عورت کی سب سے اہم ذمہ داری مربی ہونا ہے۔ ضابطہ نسواں کا معنی خدمت گزار ہونا نہیں ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ خاندان اور شریک حیات کےلیے محفوظ، پرسکون اور مہربان ماحول فراہم کرنا ہے۔ خاتون دل سوز اور مہربان ہوتی ہے، وہ اپنی دلسوزی اور محبت سے خاندان کے وقار کو بلند کرتی ہے۔

رہبرانقلاب نے ملک بھرکے مداحوں اور نوحہ خوانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: مسلمان اور غیرمسلمان مغربی خواتین میں بہت فرق ہے۔ مغربی غیرمسلم خاتون مردوں کی جنسی تسکین کا ذریعہ ہے۔ مغربی خاتون میک اپ کرکے غیرمردوں کے سامنے جاکران کی جنسی خواہشات کو ابھارتی ہے۔ آپ نے متعدد بار سنا ہوگا کہ مغربی خواتین مختلف اداروں میں نامحرم مردوں کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں، ان کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ ظلم کیا جاتا ہے۔ یہ عام مغربی خواتین کی بات نہیں ہے؛ بلکہ ان خواتین کی بات ہے جو ان ممالک میں بڑے عہدوں پرفائز ہیں۔ بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود ان کی عزت محفوظ نہیں ہے۔

 اسلام نے خواتین کو حجاب کے ذریعے عزت بخشی ہے، اسلام خواتین کو ہرقسم کے تجاوز اور آبروریزی سے بچاتا ہے۔ یہ خاتون کے لئے محدویت نہیں؛ بلکہ عین آزادی ہے۔

بشکریہ: امت واحدہ میگزین

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close