ایرانتازہ ترین خبریں

شہید سلیمانی۔۔۔ کچھ یادیں۔۔۔ کچھ باتیں!

شہید سلیمانی کی زندگی مختلف تلخ و شیرین خاطرات اور یادوں سے بھری پڑی ہے، ان سے متعلق کچھ اہم یادوں کی دوسری قسط قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

تحریر: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

 ابراہیم شہریاری، سپاہ پاسداران کی حضرت علی اکبربٹالین کےکمانڈر، شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قریبی دوست اور ساتھی ہیں اور1982 سے کرمان شہرمیں مقیم ہیں۔ شہریاری شہید جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھ مختلف دفاعی علاقوں میں خدمات انجام دیتے رہےہیں۔

شہریاری کہتے ہیں کہ شہید جنرل سلیمانی کے متعلق یادیں بےشمار ہیں؛ ان یادوں کی کچھ جھلکیاں پیش کی جارہی ہیں۔

حاج قاسم وہی قاسم سلیمانی تھے

شہریاری کا کہنا ہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں بالکل وہی ہے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؛ اگرچہ حاج قاسم بہت پرہیزگارشخصیت کے مالک تھے؛ لیکن وہ اپنےماضی کو کبھی نہیں بھولے۔ بچپن اور نوجوانی کی قبائلی اور سادہ زندگی کو کبھی نہیں بھولے، اپنے ہمسایوں اور احسان مندوں کو نہیں بھولے، ہمیشہ ان کو یاد کرتے تھے۔ جب قاسم سلیمانی نے دنیا بھرمیں شہرت کمالی اور دشمن ان کی شجاعانہ اور مردانہ ہیبت سے بہت خوفزدہ تھا اور بہت سارےسلیمانی کا نام سن کرگھبرا جاتےتھے؛ لیکن حاج قاسم جب بھی اپنے آبائی شہر اور گاوں آتے تھے تو وہی پرانے قاسم ہی ہوتے تھے، وہی سادگی، وہی مسکراہٹ، وہی صلہ رحمی، وہی بھائی چارگی۔ اللہ تعالی نے انہیں بہت بڑا اعلی مقام عطا فرمایا تھا، ایران سمیت پوری دنیا میں ان کی شہرت تھی، تمغے اور فوجی اعزاز تھے؛ لیکن انہوں نے کبھی کسی کو فراموش نہیں کیا اور صلہ رحمی کو کبھی نہیں چھوڑا۔ عام لوگوں اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات قائم و دائم رہے۔ کسی کو احساس تک نہیں ہوتا تھا کہ ان کے محلے میں کوئی عالمی شہرت یافتہ بڑا جنرل آگیا ہے۔ جب بھی کرمان آتے تھے مختصروقت کے لئے آرام کیا کرتے تھے، اس کےبعد علاقے کے نادار، فقیراور غریب خاندانوں سے ملنے جاتے تھے اورخاص کرمریضوں کی عیادت کرنا ان کا شیوہ تھا۔

عوام سے الگ نہ کرنا

  جب وہ کرمان آتے تھےتو ہمیں ان کی سیکیورٹی کی فکر ہوتی تھی کہ کہیں دشمن انہیں نقصان نہ پہنچائے اس لیے ہم ان کا زیادہ خیال رکھتے تھے تو وہ ناراض ہوتے تھے اور کہتے تھے کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے میری اور عوام کے درمیان جدائی ہو، میراعوام سے رابطہ منقطع ہو، آپ یقین رکھیں کہ عوام کے درمیان مجھے کچھ نہیں ہوگا۔

شہید سلیمانی ہرسال حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے ایام میں مجالس رکھتے تھے اور تاکید کرتے تھے کہ میری وجہ سے کسی عزادار کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے، تمام عزاداروں کا احترام کریں۔ ہم انہیں باربار یاد دلاتے تھے کہ ہمیں آپ کی سلامتی اور سیکیورٹی کی فکر ہے؛ اس لئے ہرآنے والے پرنظر رکھتے ہیں۔ حاج قاسم مجلس کے دوران عزاداروں کے استقبال کے لئے دروازے پرکھڑے رہتے تھے۔

عزاداروں کے ہاتھ چومنا

 مجھے یاد ہے کہ ایک عالم جو کہ سید تھا، مجلس میں آیا حاج قاسم نےبغیرجوتے اور ننگے پاؤں باہر جاکر سید کا استقبال کیا اور میں نے خود دیکھا کہ انہوں نے سید کے ہاتھ چومے۔

والدہ کی آخری زیارت اور باپ کے قدموں کا بوسہ

  شہید سلیمانی جب بھی گھرآتے پہلی فرصت میں والدین سے ملتے، ان کا احترام کرتے، حتی کہ ان کے جوراب اتارتےاور ان کے پاؤں کا بوسہ لیتے۔ ایک دن انہوں نے اپنے والد محترم کے جوراب اتارے اور ان کے پاؤں چومے۔ مجھے یاد ہے کہ دعا اوراحیاء کی رات تھی اور حاج قاسم کی والدہ کرمان کے فاطمہ الزہرا اسپتال میں داخل تھیں۔ جب وہ اپنی ماں سے ملنے گئے تو انہوں نے سب کو کمرے سے باہر نکالا اور کہا کہ میں آج رات اپنی ماں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں؛ چونکہ ہم جانتے تھے کہ حاج قاسم تھکے ہوئے ہیں، ہم پریشان ہوگئے اور دروازے سے کمرے کے اندر جھانکے تو دیکھا کہ  حاج قاسم اپنی ماں کے قدموں کا بوسہ لے رہے ہیں اور گریہ کررہے ہیں۔ وہ رات والدہ سے ملاقات کی آخری رات تھی۔! حاج قاسم شام میں تھے کہ انہیں والدہ کے انتقال کی خبر دی گئی۔

ولایت کا سپاہی

  شہید سلیمانی دو چیزوں سے نہایت شدید محبت کرتے تھے، پہلی قیادت اور دوم اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام۔ حتیٰ کہ حاج قاسم نے اپنی وصیت میں کہا ہے کہ میرے انتقال کے بعد مجلس ترحیم میں ایسے ذاکر کو بلائیں جو ولایت اور انقلاب اسلامی کا طرفدارہو۔ اگر حاج قاسم نے کہا کہ میں ولایت کا سپاہی ہوں تو وہ واقعی ولایت کا سپاہی تھا۔ حاج قاسم کی ولایت مداری منفرد تھی۔ مجھے یاد ہے کہ رہبرانقلاب کی طرف سے انہیں ایک انگوٹھی تحفے کے طور پر ملی تھی۔ کرمان سے تعلق رکھنے والے مدافعین حرم کے پہلے شہید کو جب دفن کے لئے تیار کیا گیا توحاج قاسم نے جعفری پور سے کہا کہ فوری طورپررہبرانقلاب کے دفتر فون کرکے پتہ کریں کہ کیا میں اپنی انگوٹھی شہید کو ھدیہ کرسکتا ہوں؟ تقریبا ۴۵ منٹ کے بعد جعفری پورنے فون کیا اور کہا کہ انگوٹھی ساتھ دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، حاج قاسم شہید کے لحد میں اترے اور اپنی انگوٹھی اتارکرشہیدکےجنازے پررکھ دی۔

والد کے جنازے پر رہبرانقلاب کی یاد

 حاج قاسم رہبرانقلاب اسلامی کے عاشق تھے، مجھے یاد ہے کہ جب ان کے والد محترم انتقال کرگئے تو تدفین کے وقت میں بھی ان کے ساتھ تھا۔  شہید سلیمانی نے آہ بھری تو میں نے کہا کیا ہوا؟ آپ کس بات سے پریشان ہیں؟ انہوں نے کہا: چار دن ہوگئے کہ رہبرانقلاب کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور رہبرانقلاب کو بھی معلوم ہے جیسے کہ ان کے دفتر سے آپ کو تعزیتی پیغام بھی بھیجا گیا ہے۔ شہید سلیمانی نے کہا کہ میں حضرت آقا(رہبرمعظم) سے شرمندہ ہوں چار دن تک بے خبری کے بعد اب کیسے انہیں سلام کروں؟!

شہداء کے لواحقین سے ہمدردی

کرمان ہی سے تعلق رکھنے والے شہید حاج علی محمدی کی والدہ، بیت الزہرا سلام اللہ علیہا میں حاج قاسم سے ملاقات کے لیے آئیں۔ میں نے حاج قاسم سے کہا: شہید کی والدہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں، ان کو کہاں بلائیں؟ مردانہ ہال میں یا زنانہ؟ حاج قاسم نے کہا: “مجھ سے ملنے وہ کیوں آئے؟” میرا فرض ہے کہ میں خود ان سے ملنے جاؤں۔ فوری طور پر ننگے پاؤں داخلی دروازے پر پہنچے اور شہید کی والدہ کو عزت و احترام سے سلام کیا اور مجھ سے کہا کہ شہید کی والدہ کے لیے وہیل چیئر لاؤ اور اسے بیت الزہرہ کے اندر لے چلو۔

بہترین نماز

  شہید سلیمانی واجبات کے سخت پابند تھے، نماز وقت پر ادا کرتے تھے، ایک دن ہم راستے میں تھے، ان کی شریک حیات بھی ساتھ تھی، گاڑی چل رہی تھی کہ نماز ظہرکا وقت ہوگیا اور اذان ہوگئی، انہوں نے کہا رک جائیں اور نماز ادا کریں۔ میں نے کہا یہ صحرا ہے، خطرہ ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ حاج قاسم نے کہا: کیا خطرہ ہے؟ رکیں نماز پڑھیں!۔ سڑک کے کنارے چٹائی بچھا کر وہیں نماز ادا کی، جب نماز سے فارغ ہوئے تومیں نے مصافحہ کیا، ہاتھ ملایا، انہوں نے کہا: یہ نمازمیری زندگی کی بہترین دو نمازوں میں سے ایک تھی ایک وہ نماز ہے جومیں نے کریملن پیلس میں پڑھی تھی۔

پیوٹن کاانتظار

  حاج قاسم اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں: میں کریملن محل میں پیوٹن سے ملاقات کررہا تھا، اذان کا وقت ہوگیا، میں وہیں اٹھا جانماز بچھائی اور نماز پڑھی، پیوٹن نمازختم ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ یہ نمازمیری زندگی کی بہترین نمازوں میں سے ایک تھی۔

روسی فوجی افسران کی موبائل سکرین پرحاج قاسم کی تصویر

شہریاری کا کہنا ہے کہ روسی صحافی کرمان میں شہید سلیمانی کے بارے میں ایک دستاویزی فلم ریکارڈ کر رہے تھے اور اس سلسلے میں، میں نے روسی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئےفخرسے کہا: ہمارے کمانڈر، ہمارے جنرل، حاج قاسم سلیمانی اتنے مہربان اور بہادر تھے کہ جب روسی طیارے کو ترکوں نے مار گرایا اور داعش نے روسی پائلٹ کو گرفتار کر لیا تو شہید سلیمانی نے اپنی بہادری اور فوجی ذہانت سے روسی پائلٹ کو داعشی دہشت گردوں سے بچایا۔ یہ واقعہ اور پائلٹ کی رہائی روسی فوجی اور سیاسی ساکھ کے لیے نہایت اہم مسئلہ تھا۔ شہید نے پائلٹ بچا کرروسی فوج کا سرفخرسے بلند کردیا تھا؛ یہی وجہ تھی کہ روسی فوج کے بعض اعلی افسران نے کچھ عرصے تک اپنے مبائل فون کی سکرین پر شہید سلیمانی کی تصویر لگا رکھی تھی۔

پھانسی کے پھندے سے بچانے والا جنرل

یہ واقعہ جنرل سلیمانی کی شہادت سے دوماہ قبل کا ہے۔انقلاب اور اسلام دشمن عناصر، حاج قاسم کے گھرکو پانچ سوکلو بارودی مواد سے تباہ کرنے کا منصوبہ تیار کرچکے تھے، سیکیورٹی اداروں نے منصوبہ ساز دہشت گرد کوگرفتار کرکے عدالت کے حوالے کردیا اور عدالت میں پھانسی کی سزا کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کاحاج قاسم کو علم ہوا تو قاضی کو فون کرکے کہا کہ میں اپنے حق سے دستبردار ہوتا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ عدالت اسے پھانسی دیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی، بچے اور رشتہ داروں کو پتہ چلے کہ پھانسی ہونے والی ہے۔ قاضی نے کہا: اس کا جرم بہت بڑا ہے، یہ پھانسی کا حقدار ہے، حاج قاسم نے کہا کہ آپ اس کے جرم کی پیروی کریں؛ لیکن جو چیزمجھ سے مربوط ہے اور جو میرا حق ہے،  میں اس سے دستبردار ہوتا ہوں۔

جنوب مشرقی علاقوں میں امن

 ایران کے جنوب مشرقی علاقوں میں امن صرف حاج قاسم کی کمانڈ اور راہنمائی سے ہی ممکن تھا۔ فسادیوں، بدکرداروں اور دہشت گردوں کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کا اہم کردار تھا۔ انہوں نے بیرونی مالی امداد سے چلنے والے بہت سے فسادی گروہوں کا خاتمہ کردیا۔ کرمان، سیستان و بلوچستان اور ہرمزگان جیسے علاقوں میں بحران کا خاتمہ کرکے پورے خطے کو پرامن بنادیا۔

میدان جنگ کےصف اول میں رہنا

 دنیا کی تمام روایتی جنگوں میں یہ رواج ہے کہ کمانڈر فرنٹ لائن سے بیس سے تیس کلومیٹر دور ہوتے ہیں، صف اول میں فوجی جوان ہوتے ہیں؛ لیکن حاج قاسم تمام آپریشنزمیں فوجی جوانوں کے شانہ بشانہ ہوتے تھے۔ یورپ، امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب جیسے ملکوں کی مالی امداد سے خطے میں تکفیری دہشت گرد جماعتوں، بشمول داعش اور جبھۃ النصرۃ کا قیام عمل میں آیا۔ جنرل سلیمانی کو عراق اور شام میں تکفیری دہشت گردوں کے خطرات سے نمٹنے کا نیا مشن سونپا گیا، شہید ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان نبرد میں حاضر ہوئے،عراق میں حشد الشعبی اور شام میں عوامی رضاکارانہ فورس (قوات دفاع وطنی) کی بنیاد رکھی اور القدس فورس کی مشاورت اور کمانڈ کے ذریعے چھ سالوں کے اندر ان دونوں ملکوں سے دہشت گردی کا تقریبا قلع قمع کر دیا۔ شہید سلیمانی مجاہدین کی صرف راہنمائی ہی نہیں؛ بلکہ مجاہدین کے ساتھ ساتھ میدان جنگ میں بھی حاضر رہتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جنگ جاری ہو اور حاج قاسم فرنٹ لائن پرفورسز کے ساتھ نہ ہو۔ جب جنرل سلیمانی ساتھ ہوتے تھے تو جوانوں کو حوصلہ ملتا تھا اور دشمن سے لڑنے کا انداز ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ جنرل سلیمانی نہایت ذہین بھی تھے ان کا حافظہ بھی بہت تیز تھا، یہی وجہ تھی کہ بٹالین میں موجود تمام پندرہ سو افراد کو نام سے جانتے تھے۔ جب کوئی جوان کسی بھی جلسے میں حاضرنہ ہوتا تو فوری طور پرپوچھ لیتے تھے کہ فلاں جوان کیوں نہیں آیا ہے۔ غیرحاضری کی کیا وجہ ہے؟!۔

اکیلے میدان جہاد کی طرف جانا

  شہید کا ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ حاج قاسم نے مجھ سے کہا ہمیں ہر حال میں حرم کے دفاع کےلئے جانا ہے۔ اس وقت تقریباً ۷۰ فیصد عراق داعش کے کنٹرول میں جاچکا تھا اور دشمن چاہتا تھا کہ بغداد کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ میں اور حاج قاسم بغداد پہنچے تو انہوں نے کہا ہمیں اس جگہ کو مکمل طور پر جنگ کےلئے آمادہ کرنا ہے؛ لہذا اہم علاقوں میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنا پڑے گا۔ عراق کے مقدس شہرسامرہ سے بغداد کا پورا راستہ دشمن کے کنٹرول میں تھا؛ اس علاقے کو کسی بھی صورت میں آزاد کروانا ہے۔ ہم نے جواب میں کہا: حاجی یہ پورا علاقہ داعش کے قبضے میں ہے اور ہمارے پاس جوانوں کی مناسب تعداد بھی نہیں ہے؛ شہید قاسم سلیمانی بغیرکسی جواب کے خود ہی گاڑی میں سوار ہوئے اور دشمن کی جانب چل دیئے۔ میں نے دوستوں سے کہا کہ حاج قاسم دشمن کی جانب بڑھ رہے ہیں اگر وہ شہید ہوگئے تو دشمن کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور سمجھیں گے کہ کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔ کچھ دیر بعد ہم بھی قاسم سلیمانی کے پیچھے نکلے۔ جب ہم شہید قاسم سلیمانی تک پہنچے تو دس کلومیٹر کا علاقہ آزاد کروا چکا تھا۔ میں نے حاج قاسم سے کہا: تمہیں تمہاری ماں کی قسم پیچھے آجائیں۔ آپ کو کچھ  کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ آپ زندہ رہیں ہم اپنی جان دینے کے لیے تیارہیں۔ میں نے دوستوں سے کہا حاج قاسم کا خیال رکھو، یہ نڈر اور بے خوف انسان ہیں ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ سامنے دشمن ہے۔

 رودبار سے قاسم آباد

صوبہ کرمان کے جنوب میں ایک گاوں ہے جس پر فسادیوں کا قبضہ تھا، شہری خاص کر کسی تاجرمیں اس علاقے سے گزرنے کی ہمت نہیں تھی، لوٹتے تھے، مارنے کی دھمکی دیتے تھے، شہید سلیمانی یہاں آتے ہی گاوں کو ان فسادیوں سے پاک کردیا۔ تقریبا ۹ دن تک فسادیوں سے جھڑپیں ہوتی رہیں، فسادی آخرکار ہتھیار ڈالنے پرمجبور ہوگئے۔ جب اس فسادی ٹولے کے سرغنے کی نظر حاج قاسم پر پڑی تو شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ آج کے بعد ہربرائی سے باز رہوں گا، میرا یہ آپ سے وعدہ ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اگر میں قتل ہونے والا ہوں تو میں حاج قاسم کے ہاتھوں ہی قتل ہونا پسند کروں گا۔ حاج قاسم نے کہا کہ توبہ کرو اور آج کے بعدایسی کوئی غلطی نہیں کروگے۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد، حاج قاسم نے سہولیات سفر فرام کرکےاسے امام “علی ابن موسی الرضا”  کی زیارت کے لیے بھیجا۔ زیارت سے واپسی پرنوکری بھی دلوا دی۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ جو افراد دھوکہ دہی کا شکار تھے اور مجرم نہیں تھے حاج قاسم نے ان کے لیے زرعی اراضی، اسکول اور مکان بھی بناکردیے، اہل علاقہ حاج قاسم کے کردارسے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے گاؤں کا نام ہی قاسم آباد رکھ لیا۔ اس کے بعد سے اب تک اس علاقے میں کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔

سقوط شام

 ہم دفاع مقدس کے تقریباً چار سو جوانوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی زیارت کےلیے گئے تھے۔ اس سفر میں حاج قاسم بھی ہمارے ساتھ تھے۔ شہید حسب معمول جوانوں کے اجتماع سے خطاب کررہے تھے کہ اچانک انہیں اطلاع ملی کہ تکفیری دہشت گرد دمشق پہنچ گئے ہیں اور شام سقوط کرنے والا ہے۔ انہوں نے اسی لمحے تقریر ختم کی اور کہا: میرے لیے دعا کریں، میں شام جارہا ہوں، دمشق سقوط کرنے والا ہے، شاید میں واپس نہ آسکوں۔ یہ لمحہ ناقابل بیان ہے کہ سارے جوان ایک دم حیران و پریشان ہوگئے۔ اس وقت شہید فولادی کی والدہ بہت روئیں اور حاج قاسم کی سلامتی کےلئے دعا کی۔

شہری یار کا کہنا ہے کہ کافی عرصے کے بعد حسین پورجعفری کرمان آئے تو میں نے ان سے پوچھا، “داعشی دہشت گرد ایئرپورٹ کے بالکل قریب تھے، حاج قاسم کی فلائٹ کیسے اتری؟”جعفری نے کہا: “جب طیارہ قریب پہنچا تو پائلٹ نے کہا کہ طیارے کو خطرہ ہے گولی لگ سکتی ہے؛ لہذا ہم نہیں اترسکتے ہیں، حاج قاسم نے کہا کسی بھی صورت میں اترنا ہی ہوگا۔ حاج قاسم کے کہنے پرپائلٹ نے جہاز دمشق ائرپورٹ پر لینڈ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حاج قاسم کی شجاعت اور بہادری بے مثال تھی۔

مطالعہ کی اہمیت

حاج قاسم تلاوت قرآن کریم کے ساتھ ساتھ مطالعہ کے بڑے شوقین تھے، ان کے ساتھ ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب ضرور ہوتی تھی، خاص کر وہ کتابیں جو رہبرمعظم مطالعہ کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ ان کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ عینک ساتھ رکھتے تھے۔ حاج قاسم جب بھی کرمان تشریف لاتے تو مطالعہ سے غافل نہیں ہوتے تھے؛ یہاں تک کہ ہوائی اڈے سے گھرتک کے راستے میں بھی مطالعہ کیا کرتے تھے۔

امام حسین سےعقیدت

یہ جاننا دلچسپ ہے کہ شہید سلیمانی  نوحہ خوانی اور ذاکری بھی کیا کرتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا عقیدت رکھتے تھے، امام علیہ السلام کے سچے عاشق تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی بٹالین کا نام ہی لشکرثاراللہ رکھا تھا[1]۔


[1]۔  خاطرات رفیق 30 سالهِ سردار دل‌ها/ وقتی اشرار نام روستا را «قاسم‎ آباد» گذاشتند۔ فارس نیوز۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close