حج ابراہیمی جو کہ دین مبین اسلام کے بیان کردہ عبادتوں میں سے ایک ہے، امام خمینی حج کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حج ایک سیاسی عبادت ہے، یعنی اس میں سیاسی پہلو بھی پایا جاتا ہے۔
(امام خمینی، صحیفه حج، ج1، ص 107)۔
تحریر: داود حسینی[1]
ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری
امام خمینی کا یہ اصطلاح امریکی حمایت یافتہ اسلام کے عقائد و نظریات کےبالکل برعکس ہے، جو اسلام کے احکام اور واجبات کو سماجی اور سیاسی روح سےعاری، محض ایک انفرادی عبادات کے مجموعے کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(سابقہ حوالہ159)۔
امام خمینی کے نظریے کے مطابق، حج ابراہیمی وہی حج محمدی اور حج حسینی ہے، جس کے متن میں انفرادی عبادت اور بندگی خدا کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کے روزمرہ اجتماعی مسائل، دشمنان اسلام سے مبارزہ کرنا، مشرکین اور بت پرستوں سے اظہار بیزاری اور ہرقسم کے ظلم و جبرکے خلاف آواز اٹھانا شامل ہے۔
امام خمینی کے فرمان کے مطابق حج ابراہیمی؛ یعنی، شجاعت، جہاد، قربانی، ایثار، شہامت، وحدت، ذکر،توحید (اور اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکنے) کا نام ہے۔ ( امام خمینی، صحیفه امام، ج 21، ص 77)۔ اور حج غیرابراہیمی، ایک ایسی اجتماعی، سیاحتی، خود غرض، خود پسند اور منحرف عبادت ہے کہ جس میں تینوں شیاطین سے بیزاری کا نام و نشان تک نہیں!، یہ حج ہرقسم کے روحانی، عرفانی، سیاسی اور معاشرتی پہلووں سے خالی ہے۔ (مام خمینی، صحیفه امام، ج 20، ص 89)۔
اس مضمون میں حج ابراہیمی کی تعلیمات اور فلسفہ کا جائزہ لیا گیا ہے:
حج ابراہیمی کی بنیاد
ابراہیمی حج کی بنیاد خدا پرستی، الہی قیادت اور عوامی وحدت پر مرکوز ہے:
الف) خدا پرستی: حج ایک دینی فریضہ ہے اور وہ رب کعبہ کی بندگی کرنا ہے: (فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هذَا الْبَيْت) (قريش/3)؛«اس گھر کے رب کی عبادت کریں». «وَ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ لا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئا» (نساء/36) «اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو ۔۔۔۔۔»
ب) الہی قیادت:
حج، الٰہی قیادت اور حکم سے قائم ہوا ہے اور خدا نے اپنے رسول کے ذریعے لوگوں کو حج کی دعوت دی ہے؛جیسے کہ باری تعالی کا ارشاد ہے:«وَ أَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجالاً وَ عَلى كُلِّ ضامِرٍ يَأْتينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَميق» (الحج /27) «اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔»
اس راہ کے تسلسل کو خدائی قیادت کے ذریعے آگے بڑھانا چاہیے؛ چنانچہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درج ذیل چیزیں مانگیں: «رَبَّنا وَ ابْعَثْ فيهِمْ رَسُولاً مِنْهُم…» (بقرة/ 129) ؛ «اے ہمارے رب!ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرما….»
ج) حج کا مرکز؛ “ناس” یعنی لوگ ہیں اور کعبہ پہلا گھر ہے جو اجتماعی شکل میں اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے۔ «إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذي بِبَكَّةَ مُبارَكاً وَ هُدىً لِلْعالَمين» (آلعمران/ 96) «سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لیے بابرکت اور راہنما ہے».جب ہم حج کی بنیاد کی طرف توجہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہرعمل اور عبادت کے کچھ اسرار، رموز اور ایک خاص فلسفہ ہوتا ہے:
حج ابراہیمی کا عرفانی فلسفہ:
حج، عرفانی اور صوفیانہ جہت سےاہم اسرار رکھتا ہے، جن کا خلاصہ دو ابعاد میں کیا جا سکتا ہے
بعد انخلا اور بعد تجلی: پہلے مرحلے میں حج کے وجوب کا فلسفہ یہ ہے کہ حج انسان کے باطن اور دل کو ہرقسم کی برائیوں اور آلودگیوں سے پاک کرتا ہے؛ جسے “انخلا” سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اگلے مرحلے میں حج،انسان کے باطن اور دل کو فضائل اور خوبیوں سے آراستہ کرتا ہے؛ جسے”تجلی” کہا جاتا ہے۔
الف) برائیوں کو دور کرنا:
احرام کے محرمات کا فلسفہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان جیسے ہی محرم ہوتا ہے،باطنی آلودگی سے پاک ہوجاتا ہے؛ چنانچہ قرآن کریم احرام کی بعض ممانعتوں کے بارے میں کہتا ہے: («…فَمَنْ فَرَضَ فيهِنَّ الْحَجَّ فَلا رَفَثَ وَ لا فُسُوقَ وَ لا جِدالَ فِي الْحَجِّ …»( بقرة /197)؛ «پس جو ان میں حج بجا لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر حج کے دوران ہم بستری نہ ہو اور نہ فسق و فجور اور نہ لڑائی جھگڑا ہو….»۔ احرام کی ان ممانعتوں میں سے ہر ایک، انسان کو اندرونی اور باطنی طور پرمختلف قسم کی آلودگیوں سے پاک کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ جیسے«لارفث» شہوانی تفکرات کا خاتمہ، «ولافسوق» فسق و فجور اور ظلم کا خاتمہ، «ولاجدال» ہرقسم کے جھگڑا فساد کا خاتمہ.(معاونت امور روحانیون، فرهنگ نامه اسرار و معارف حج، ص 41)
حج کے اسرار اور رموز میں سے ایک اندرونی پیلیدیوں کا انخلا ہے؛ ذیل میں چند ایک نمونے ملاحظہ کیجئے:
1۔ محرمات سے بچنا:
مناسک حج کا پہلا مرحلہ احرام ہے؛ احرام کے ذرئعے انسان نفسانی خواہشات کو ترک کرتا ہے، جیسے احرام کے محرمات سے اجتناب کرنا وغیرہ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:«اذا أرَدْتَ الحَجَّ فَجَرِّد قَلْبَكَ لِلهِ عَزَّوَجَلَّ مِن قَبلِ عَزمِكَ مِنْ كُلِّ شاغِلٍ وَ حَجْبِ كُلِّ حاجِبٍ» (منسوب به امام صادق، مصباح الشريعة، ص 47)؛«جب بھی حج کا ارادہ کرو تو اپنے دل کو خدا کی خاطر ہر طرح کی رکاوٹوں اور پردوں سے پاک کر لو»۔«وَ أَحْرِمْ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ يَمْنَعُكَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ يَحْجُبُكَ عَنْ طَاعَتِهِ»(منسوب به امام جعفر صادق، مصباح الشريعة ، ص 48 )؛ «ہر اس چیز سے دور رہو جو آپ کو خدا کو یاد کرنے اور اس کی اطاعت سے روکتی ہے».
2- نفسانی خواہشات:
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «مَنْ احَبَّ نَيْلَ الدَّرَجاتِ الْعُلى، فَلْيَغْلِبِ الهَوى»( آمدی،غرر الحكم، ص 428)؛«جو بھی شخص انسانی اعلیٰ منزلوں تک پہنچنا چاہتا ہے اسے نفسانی خواہشات پرقابوپانا چاہئے»؛ لہذا حج کے اسرار اور رموز میں سے ایک راز، نفس پر قابو پانا ہے۔ امام جعفرصادقعلیہ السلام فرماتے ہیں:«وَ اذْبَحْ حَنْجَرَةَ الْهَوَى وَ الطَّمَعِ عِنْدَ الذَّبِيحَةِ وَ ارْمِ الشَّهَوَاتِ وَ الخَسَاسَةَ وَ الدَّنَاءَةَ وَ الْأَفْعَالَ الذَّمِيمَةَ عِنْدَ رَمْيِ الْجَمَرَاتِ وَ احْلِقِ الْعُيُوبَ الظَّاهِرَةَ وَ الْبَاطِنَةَ بِحَلْقِ شَعْرِكَ »( جعفر بن محمد صادق علیہ السلام، مصباح الشریعه، ص 48)؛ قربانی کا جانور ذبح کر کے طمع اور خواہشوں کا گلا کاٹ دو اور رمی جمرات کرکے شہوتوں، بے حیائیوں، بداخلاقیوں اور برے کاموں کو دور کر دو اور اپنے بالوں کو کاٹ کرظاہری اور باطنی عیوب کو دور کرو»۔
انسان حج کے ذریعے اپنی زندگی کو جہت دے سکتا ہے؛کیونکہ حج سے زندگی میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں انسان ہرقسم کی رذیلتوں اور پستیوں سے پاک ہوکر خدائی بن جاتا ہے۔
ب) فضائل کا حصول:
1- ذکر الٰہی کو تقویت دینا: حج کے اہم رازوں میں سے ایک راز، انسانی جان اور روح میں یادِ الٰہی کو تقویت دینا ہے؛ چنانچہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:«وَ أُمِرَ بِالْحَجِّ وَ الطَّوَافِ وَ أُشْعِرَت الْمَنَاسِكُ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ »( ابن ابی جمهور،عوالي اللئالي،1؛ ص323)؛«اللہ کو یاد کرنے کےلئےحج و طواف اور مناسک کا حکم دیا گیا». ایک اور روایت میں ارشاد ہے:«انَّما جُعِلَ الطَّوافُ بِالبَيتِ وَبَينَ الصَّفا وَالمَروةِ وَرَمى الجِمارِ لِاقامَةِ ذِكِر اللهِ»( ری شهری، الحج و العمرة فى الكتاب و السنة، ص 133)؛ «اللہ کے ذکر کوزندہ رکھنے کے لئے بیت اللہ کا طواف، صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمرات (شیاطین پرکنکریاں مارنا) لازم قرار دیاگیاہے»۔
2- قیامت کی یاد:
احرام کا لباس، کفن دفن؛ یعنی موت اور قیامت کے دن سب جمع ہونے کی یاد دلاتا ہے؛ چنانچہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «مَا شَرَعَهُ إِلَّا لِلِاسْتِعْدَادِ وَ الْإِشَارَةِ إِلَى الْمَوْتِ وَ الْقَبْرِ وَ الْبَعْثِ وَ الْقِيَامَةِ»( منسوب به جعفر بن محمد، مصباح الشريعة، ص50- 49)؛«حج واجب نہیں ہوا؛ مگر موت، قبر اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کی تیاری کے لئے».
3- الہی اخلاق سے سرشار ہونا:
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «تَخَلَّقُوا بِأخْلاقِ اللَّهِ» (مجلسی،بحار الأنوار، ج 58، ص 129)؛«خود کو خدائی اخلاق اور خصلتوں سے آراستہ کرو»۔ الہی خصلتیں؛ پاکیزگی، باطنی اور ظاہری خوبصورتی، دیانت داری، احساسِ فرض، احساسِ ذمہ داری، نورانیت قلب اور انسانی و روحانی سربلندی ہیں۔
4- مقام توکل کا حصول:
حج کے اسرار میں سے ایک توکل کا حصول ہے؛ یعنی انسان کا بھروسہ خدا پر ہو، نہ کہ مادی ذرائع پر: «وَفَوِّضْ امُورَكَ كُلَّها الى خَالِقِكَ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ فِى جَمِيعِ مَا يَظْهَرُ مِنْ حَرَكاتِكَ وَ سُكُونِكَ … وَلا تَعْتَمِدْ عَلى زَادِكَ وَرَاحِلَتِكَ وَاصْحَابِكَ وَقُوَّتِكَ وَشَبابِكَ وَمَالِكَ مَخافَةَ أنْ تَصِيرَ ذَلِكَ أَعداءًا وَوَبَالًا»۔ (منسوب به امام صادق، مصباح الشريعة، ص 47)؛«اور اپنے تمام معاملات اپنے خالق پر چھوڑ دیں؛ آرام، سکون اور نقل و حرکت کے متعلق صرف اللہ پر بھروسہ کریں… اور اپنے سامان، سواری، ساتھیوں، طاقت، جوانی اور دولت پر بھروسہ نہ کریں! انہیں اپنے دشمن نہ بننے دیں»۔
حج ابراہیمی کا اجتماعی فلسفہ
الف) برتری کا خاتمہ: حج میں تمام لوگ برابر ہوتے ہیں اور خود ساختہ امتیازات کسی فرد یا گروہ کی برتری کا سبب نہیں ہوتے؛ چنانچہ قرآن کریم تمام امتیازات اور اختلافات کو بےتاثیرقرار دیتا ہے: «وَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ الَّذي جَعَلْناهُ لِلنَّاسِ سَواءً الْعاكِفُ فيهِ وَ الْباد»(حج/ 25)؛ «اور اس مسجد الحرام کی راہ میں بھی جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے اور جس میں مقامی لوگ اور باہر سے آنے والے سب برابر ہیں»؛ لہذا حج میں شریک تمام افراد امت مسلمہ ہیں، امت واحدہ ہیں؛ اس میں اندر یا باہر کے لوگوں کا تصور نہیں ہوتا!؛ «إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً» (انبیاء/ 92)؛ «یہ تمہاری امت یقینا امت واحدہ ہے» اگرکوئی برتری ہے تو وہ صرف اور صرف تقوی کی وجہ سے ہے: «إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُم» ( حجرات/ 13)؛« تم میں سب سے زیادہ معزز، اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے».
ب) ایک دوسرے کی معرفت:
حج مسلمانوں کو ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو پہچاننے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے:«فَجَعَلَ فِيهِ الاجْتِماعَ مِنَ المَشْرِقِ وَ المَغْرِبِ لِيَتَعارَفُوا … فَذلِكَ عِلَّة الحَجِّ.» (شیخ صدوق، علل الشرائع، ص 405)؛ «اللہ تعالی نے حج کے ذرئعے مشرق و مغرب کے لوگوں کےلیے ایک دوسرے کو جاننے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا راستہ فراہم کیا ہے»۔
ج) رسول خدا کے مقدس اہداف کا تعارف:
حج کے مقاصد میں سےایک، مقدس اہداف کی پہچان ہے:«وَ لِتُعْرَفَ آثارُ رَسُولِ اللَّهِ وَتُعْرفَ اخْبارُهُ وَيُذْكَرَ وَلا يُنسى. … فَذلِكَ عِلَّة الحَجِّ.»( شیخ صدوق، علل الشرائع، ص 405) ؛«رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار، اخبار کی پہچان ہوتی ہے اور یوں ان کی یاد تازہ رہتی ہے. یہ ہےحج کا فلسفہ».
حج کا سیاسی پہلو
الف) اسلامی اقتدار اور طاقت کا مظاہرہ:حج امت اسلامیہ کی طاقت کا مظاہرہ ہے، جہاں نسلی، لسانی، جغرافیائی اور تاریخی اختلافات مٹ جاتے ہیں اور ساری انسانیت ایک ’’کل‘‘ بن کر ابھرتی ہے۔ ( خامنه ای ، پيام 25/ 2/ 1373)؛ لہذا حج مسلمانوں میں اتحاد، عظمت اورطاقت کا احساس پیدا کرتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے حج کو لوگوں کے لئےقیام قرار دیا ہے: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرامَ وَ الْهَدْيَ وَ الْقَلائِدَ»(مائده/97)؛ «اللہ نے حرمت کے گھر، کعبہ کو لوگوں کے لیے(امور معاش اور معاد کی) کی استواری (کا ذریعہ) بنایا اور حرمت کے مہینوں کو بھی اور قربانی کے جانور کو بھی اور ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں پٹے باندھے گئے ہوں».
ب) امام عادل کی امامت کا احیاء: جو چیز ابراہیمی اور محمدی حج کو جاہلی حج سے ممتاز کرتی ہے وہ اللہ کے ولی کا ساتھ دینا اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: «وَ اتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهيمَ مُصَلًّى….» (بقرة / 125)« اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ہم نے خانہ (کعبہ) کو مرجع خلائق اور مقام امن قرار دیا اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم کو مصلیٰ بناؤ…».جب امام باقرعلیہ السلام کی نگاہ مبارک خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنے والوں پرپڑی توفرمایا:«هكَذا كانوا يَطُوفونَ فى الجاهِليةِ». لوگ جاہلیت کے دور میں بھی اس طرح طواف کیا کرتے تھے؛ پھر فرمایا:« إنّما أُمِروا أَنْ يَطُوفوا ثُمَّ يَنْفِرُوا إلينا فيعْلمونا ولايتَهم وَيَعْرِضُونَ عَلَينا نَصْرَهم»(مجلسی، بحار، ج 65، ص 87)؛«لوگوں پر فرض ہے کہ وہ ان پتھروں کے گرد چکر لگائیں اور اس کے بعد ہمارے پاس آئیں اور ہمارے ساتھ تعاون کے لئے اپنی تیاری کا اعلان کریں»۔ امام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول کو شاہد کے طور پرپیش کیا: «فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ»؛ «لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے»( ابراهيم، 37) ». اس آیہ شریفہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی سے یہ درخواست نہیں کرتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کو خانہ کعبہ کی طرف مائل کردے، ان کو خانہ کعبہ کا مشتاق بنا دے؛ بلکہ اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کوہماری نسل اور فرزندوں کی طرف مائل کردے ان کو ہماری ذریت کا مشتاق بنا دے؛ یہی وجہ ہے کہ امام باقرعلیہ السلام نے فرمایا: «تَمامُ الحَجِّ لِقاءُ الإمامِ» (حر عاملی ، وسائلالشيعه، ج 10، ص 254)۔
ج) مشرکین سےبرائت:
حج توحید کا مظہر ہے اور کعبہ، جوکہ”خانۂ توحید” ہے، کسی بھی زمانے اور جگہ سے زیادہ اہم ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اس میں سب جمع ہوکر شرک اور مشرکین سے بیزاری کا اعلان کا حکم دیا گیاہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:«وَ أَذانٌ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَريءٌ مِنَ الْمُشْرِكينَ وَ رَسُولُه» (توبة/3)؛ «اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہیں».
بشکریہ: ایران نوین میگزین
فهرست منابع
قرآن کریم، ترجمہ شیخ
محسن نجفی
ابن أبي
جمهور، محمد بن زين الدين، عوالي اللئالي العزيزية في الأحاديث
الدينية، مصحح: عراقى، مجتبى، دار سيد
الشهداء للنشر، قم: 1405ق.
امام
خمینی، روح الله، صحیفه امام،
موسسه تنظيم و نشر آثار امام خمينى(
س)، تهران، 1378ش.
تميمى
آمدى، عبد الواحد بن محمد، غرر الحكم و درر الكلم، مصحح: رجائى،
سيد مهدى، دار الكتاب الإسلامي، قم: 1410
ق.
حرعاملى،
محمد بن حسن، وسائل الشيعة، مصحح: مؤسسة
آل البيت عليهم السلام، مؤسسة آل البيت عليهم السلام، قم: 1409ق.
خامنه
ای، سید علی، پایگاه اطلاع رسانی دفتر حفظ و نشرآثار حضرت آیتالله العظمی سیدعلی
خامنهای.
ری شهری، محمد، الحج والعمره في الکتاب
والسنة، تهران، مشعر، 1385ش.
شیخ
صدوق، علل الشرائع، محمد بن على،كتاب
فروشى داورى، قم: 1385ش.
مجلسى،
محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار( ط- بيروت)، مصحح: جمعى از
محققان، دار إحياء التراث العربي، بيروت: 1403ق.
معاونت
امور روحانیون حوزه نمایندگی ولی فقیه در امور حج و زیارت، فرهنگنامه اسرار و
معارف حج، قم، دارالحدیث، 1386ش.
منسوب به
جعفر بن محمد، مصباح الشريعة، امام ششم عليه السلام، اعلمى، بيروت: 1400ق.
[1] . ادارہ حج و زیارت کے
تحقیقاتی اوراخلاقی امور کے ڈائریکٹر