تازہ ترین خبریںپاکستان

کِشوَرَک کے عاشق اور ناپاک منصوبے

استعماری طاقتیں، اقتصادی اور عسکری لحاظ سے دنیا پرغلبہ حاصل کرنے کےغرض سے مختلف منصوبوں پرکام کررہی ہیں ان میں سے ایک، اسلامی ملکوں کو تقسیم کرکے چھوٹے چھوٹےٹکڑے کرنا بھی ہے۔ ان ممالک میں پاکستان، ایران، عراق، یمن، اردن، افغانستان، شام، ترکیہ ۔۔۔ شامل ہیں۔

اس وقت ان استعماری طاقتوں کے اولین ترجیہاتی ممالک میں سرفہرست پاکستان اور ایران ہیں؛ جس کے لئے کوئی بھی لمحہ ہاتھ جانے نہیں دیتے!۔

تحریر: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سمیت دنیا کی تمام استعماری طاقتوں کی شروع سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کو کسی بھی صورت میں ایک ہونے نہ دیا جائے، مسلم ممالک کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے ان ممالک میں موجود قدرتی خزانوں تک رسائی حاصل کی جائے۔

کشورک[1]

یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا کا کوئی بھی دانشور یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ اگرملک چھوٹا ہو تو اس کے تمام صوبے، قصبے، دیہات اور گاؤں سب خوشحال ہوسکتے ہیں؛ خوشحالی، ملک چھوٹا ہونے سے نہیں آتی ہے، خوشحالی تب آتی ہے؛ جب ملک طاقتور ہو، خوشحالی تب آتی ہے جب ملک میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے، الہی قوانین کی پاسداری کی جائے۔ اپنے فیصلے خود کئےجائیں، ترقیاتی منصوبہ بندی کسی دوسرے ملک کے بجائے اپنے ملک میں ہی کی جائے۔ ہرمیلی آنکھ سے دیکھنے والے کو بروقت منہ توڑ جواب دیا جائے۔؛ تاکہ دشمن ملکی خزانوں تک پہنچنےکی طمع تک نہ کرسکے!۔ یہ سب تب ممکن ہے کہ آپ طاقتورہوں، آپ کےپاس توانائی ہو!۔ جرئت ہو!۔ طاقت، توانائی اور جرئت کےلئے ایک عظیم قوم اور ملک کا ہونا ضروری ہے۔ جو قومیں ٹکڑوں میں بٹ جاتیں ہیں ان کا شیرازہ بکھرجاتا ہے۔ اور اس کی طرف ہرکس و ناکس لالچ بھری نگاہوں سے دیکھنےلگتا ہے۔ استعماری طاقتیں بعض لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہیں کہ اگرترقی چاہتے ہوتو اپنے علاقے اور صوبے کو ایک الگ ریاست بناو!!!؛ اگر ترقی کا راز چھوٹے ہونے میں ہے، تو یہ استعماری طاقتیں اپنے ہی ملکوں کو تقسیم کیوں نہیں کرتی ہیں!؟ اسلامی ملکوں کی خیرخواہی کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے اپنے ملکوں کوچھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بدل کیوں نہیں دیتے!؟؟؟ یہ خود کشورک کے بجائے کشورگشائی کے تلاش میں کیوں ہوتےہیں؟؟؟!۔

کیا عدل و انصاف کے دعوے دار ممالک میں خوشحالی ہے؟؟؟ اگر خوشحالی ہےتو پھر سالانہ ان بدحال ممالک سے کئی گنا زیادہ ان ممالک میں خودکشیاں کیوں ہوتی ہیں؟؟؟؟!؛ لہذا دنیا کا کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کے تمام صوبے، تمام قصبے، شہر اور گاؤں  ایک جیسے خوشحال ہیں؛ لیکن اس عدم توازن کی وجہ سے وہ کبھی ملک توڑنے کی بات نہیں کررہے ہیں!۔ تو یہ ہمدردی صرف اسلامی ریاستوں کے ساتھ کیوں؟؟؟؟؟!!!!۔

 محب وطن اور ترقی پسند جوانوں سے گزارش ہے کہ اتحاد کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنےصوبے، شہر یا گاؤں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے رہیں اور دشمن قوتوں کے شیطانی چالوں میں آکر اپنے ملک اور اتحاد کو پارہ کرنے کی غلطی سے باز رہیں۔

اگر کہیں ناانصافی کا جواز ہو بھی تو حب الوطنی کا تقاضا ملکی اتحاد کے اندر رہ کر سیاسی جدوجہد کرنا ہوتا ہے نہ کہ ملک کو توڑنا۔ جوملک توڑتے ہیں وہ دیر یا زود، درندہ صفت شیطانی قوتوں کا طعمہ بن جاتے ہیں۔

تاریخی پس منظر

انسانی تاریخ پر نظردوڑائی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ جس نے بھی ظلم کا بازار گرم کیا ہے، اس کا نعرہ خیر اور اچھائی کا ہی رہا ہے، ہم ظلم کے خلاف ہیں، ہم خواتین کے حقوق کے پاسدارہیں، ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ انسانیت کی ترقی کے لئے ہی کر رہے ہیں، ہم پسماندگی کے دشمن اور ترقی کے دوست ہیں!؛ لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو خود خواہی اور خود غرضی کے سوا کچھ بھی نہیں!؛ کیونکہ ہرانسان حب ذات کا شکار ہوتا ہے، ایک فرد دوسرے فرد کے لئے تب کچھ کرتا ہے؛ جب اس میں کچھ نہ کچھ فائدہ نظرآئے، مادی یا معنوی، کچھ روحی تسکین کے لئے کرتے ہیں اور کچھ مادی تسکین کے لئے؛ استعماری طاقتوں کا ہدف مادی تسکین ہے، یہ طاقتیں انسانیت کا نعرہ لگا کر پوری دنیا، خاص کراسلامی ممالک میں موجود قدرتی خزانوں پرقبضہ جمانا چاہتی ہیں۔ ان کا اصل ہدف تیل، گیس اور کھربوں ڈالر مالیت کے معدنیات ہیں، انسانیت سے ان کا کوئی سرکار نہیں!۔ اگر ان کے مادی منافع کے سامنے انسایت آجائے توکچل کراپنے منافع تک پہنچنے میں عار محسوس نہیں کرتےہیں!۔ جس کی زندہ مثالیں، عراق، شام، یمن، ایران، افغانستان اور پاکستان کی شکل میں موجود ہیں، یہ استعماری طاقتیں ان ممالک میں ہزاروں انسانی جانوں کے ساتھ اس لئے کھیل رہے ہیں؛ تاکہ وہ قدرت کے ناختم ہونے والے خزانوں تک پہنچ سکیں!۔

 روئے زمین پر ریاست مدینہ کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان پہلی ریاست ہے جودین محمدیص کے نام پرمعرض وجود میں آئی اور بیس سال تک دنیا کی ترقی کرتی تیز ترین ریاستوں میں شامل رہی، جب دشمن نے دیکھا کہ یہ ریاست، تیزی کے ساتھ ترقی اور پیشرفت کے منازل طے کر رہی ہے تو انہوں نے سرجوڑ کرپاکستان سمیت ہرترقی کرتی اسلامی ریاستوں کے خلاف نہ صرف منصوبہ بندی کی؛ بلکہ عملی طور پر میدان میں وارد ہوکر پورے خطےکو خاک وخوں میں غلطاں کرنا شروع کردیا؛ جس کے نتیجے میں پاکستان سمیت خطے کے متعدد مسلمان ملکوں میں ہررنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بےگناہ شہری جان سے گئے اور لاکھوں زخمی ہوئے جو آج بھی موت اور زندگی کے کشمکش میں ہیں۔

ریاست پاکستان کے بعد اسلام کے نام پر ایک اور اسلامی ریاست اسلامی جمہوریہ ایران کے نام سے قائم ہوئی، جس نے ترقی اور خوشحال کے منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو انسان دشمن استعماری طاقتوں کا اصل چہرہ سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا؛ یہی وجہ ہے کہ اس کے قیام سے لیکر آج تک اسلام دشمن اسکے پیچھے پڑے ہیں اور اس کو کمزرو کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

ناپاک منصوبے

بڑےاسلامی ممالک کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا امریکا اور یورپ کی دیرینہ خواہش رہی ہے؛ کیونکہ چھوٹی حکومتوں پر مسلط ہونا بہ نسبت بڑی حکومتوں کے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ چھوٹی حکومتوں سے ایک کال پراپنے تمام مطالبات منوائے جاسکتے ہیں۔ استعماری طاقتوں کے ناپاک منصوبوں میں مندرجہ ذیل چھوٹے چھوٹے ممالک کو معرض وجود میں لانا ہے:

۔ پاکستان اور افغانستان کو توڑ کر پشتونستان بنانا؛                 

۔ پاکستان اور ایران کو توڑ کرآزاد بلوچستان بنانا؛

۔ پاکستان اور بھارت کو توڑ ایک پنجابستان بنانا؛

۔ سندھ کو نئی ریاست بنانا؛

۔ گلگت بلتستان اور کشمیرکو دو الگ الگ ریاستیں بنانا؛

۔ایران، عراق، شام اور ترکی کو توڑ کر کردستان بنانا؛

۔ایران کو توڑ کر ایک اور آذری ملک بنانا؛

۔ یمن کو دو حصوں میں تقسیم کرنا؛

۔ اردن اور فلسطین کو توڑ کر ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھنا؛

۔ ترکیہ کو توڑ کراستنبول کو یورپ سے ملانا[2]؛

۔ عراق کو شیعہ اور سنی کرکے دو حصوں میں بانٹنا[3]

اسلام دشمن پالیسیاں

امریکی حکومت کے لئے پالیسیاں بنانے والے ادارے رینڈ کارپوریشن (RandCorporation) نے مسلمانوں پر مسلط ہونےکے لئے مختلف طریقے بیان کئے ہیں ان میں سے ایک مسلمانوں میں کچھ چیدہ افراد کو اپنی طرف مائل کرنا ہے، اس ادارے نے مسلمانوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا ہے:

بنیاد پرست[4]: وہ لوگ ہیں جو اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار کے نفاذ کے خواہاں ہیں، مغربی جمہوریت اور موجودہ مغربی اقدار اور تہذیب کو نہیں مانتے ہیں۔

قدامت پسند[5]: ان کی نظرمیں یہ وہ لوگ ہیں جو تبدیلی، تغیر، ترقی اور جدیدیت کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں۔

جدت پسند[6]: رینڈ کارپوریشن کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی ایک قسم وہ ہے جو بین الاقوامی ترقی اور جدیدیت[7] کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں اسلام کو بھی نئیا اور جدید بنانے کے لیے اصلاحات کے قائل ہیں۔

سیکولر[8]: اس ادارے کے مطابق یہ وہ مسلمان ہیں جو دین کو سیاست سے جدا سمجھتے ہیں اور اسلامی دنیا سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی مغرب کی طرح دین کو سیاست سے علیحدہ کر دیں۔

اس ادارے کا کہنا ہے کہ جدت پسند اور سیکولر نظریہ رکھنے والے مسلمانوں کی بھرپور حمایت کی ضرورت ہے یہ وہ لوگ ہیں جو امریکی اور یورپی پالیسی کے قریب ہیں؛ لہذا اشاعت اور دیگرتبلیغی شعبوں میں ان کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے؛ تاکہ وہ عوام الناس اور نوجوانوں کے لیے لکھ اور جدت پسند نظریات کو اسلامی تعلیمی نصاب میں شامل کرسکیں۔

استعماری طاقتوں کے حربوں کےواضح  آثار ہمارے ملک عزیز پاکستان میں نمودار ہیں؛ جیسے کہ گزشتہ سالوں میں تعلیمی نصاب میں خوفناک حد تک رد و بدل کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔

رینڈ کارپوریشن کا کہنا ہےکہ مسلم معاشرے میں جدت پسندوں کی مقبولیت کے لئے اسلامی معاملات پر، تفصیلات، تشریحات، رائے اور فیصلوں کو ذرائع ابلاغ، انٹرنیٹ، اسکولوں، کالجوں اور ہرقسم کے وسائل کو استعمال کرکے عام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ افراد سیکولرازم اور جدت پسندی کو مسلمان نوجوانوں کے سامنے متبادل کلچر کے طور پر پیش کرسکیں، مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تاریخ کے بجائے غیراسلامی اور قومی ثقافتی تاریخ پڑھائی جائے، سول سوسائٹی کو مضبوط کیا جائے[9]۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اسلامی ریاستوں میں اسلامی تاریخ کو ختم یا کم سے کم کمرنگ  کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قومی، علاقائی اور لسانی تاریخ پر زور دیا جارہا ہے؛ تاکہ نئی نسل اسلامی تاریخ سے مکمل طور پربیگانہ رہے اور اپنی ثقافت، قومیت اور نسل پرستی کو ہی سب کچھ سمجھ لے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور ایران سمیت دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں یہ کام تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ جدت پسند سوشلستان میں حیران کن حد تک فعال ہیں اور ایک دن میں ہزاروں پوسٹ فیس بک اور دیگرذرائع میں دیکھنے کو ملتےہیں؛ جن میں برملا اسلامی قوانین اور شرعی احکامات کے خلاف بھرپور تبلیغات کی جاتی ہیں۔ ان تبلیغات میں سرفہرست علمائے کرام کے خلاف ہرزہ سرائی ہے؛ یہ ایک منظم اور سوچا سمجھا منصوبہ ہے؛ جب لوگ علما اور دین پہنچانے والوں سے دور ہونگے تو خود بخود اسلامی قوانین کا بھی خاتمہ ہوگا!۔

ہماری ذمہ داری: ان افکار اور تبلیغات کا مقابلہ کرنے کےلئے ہرفرد کو احساس ذمہ داری کرنی چاہئے؛ ہرسوال اور شبہے کا منظم اور معقول جواب دینے کے لئے پڑھے، لکھے غیرت مند جوانوں کو آگے آکر فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگر وقت پراس قسم کے منفی تبلیغات کا سد باب نہ کیا گیا توناقابل تلافی نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔

ان حربوں میں سے ایک، مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینا ہے،جیسے کہ فرقہ واریت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔         

    فرقہ واریت

   استعمار نے خطے کے ممالک کو کمزور کرکےچھوٹی چھوٹی ملک نما ریاستوں میں تبدیل کرنے کےلئے مختلف حربے استعمال کئے اور کررہے ہیں؛ جن میں سے ایک فرقہ واریت ہے، تکفیری دہشت گردوں کی تشکیل اور ان کی حمایت کرنا، جیسے کہ یہ خود اپنی تقریروں میں برملا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ 90 کی دہائی میں پاکستان کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور جب توڑنا ممکن نہ ہوا تو اس ملک کو کمزور کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے گئے اور فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا گیا، پاکستان کے گلی  کوچوں کو بےگناہ مسلمانوں کے خون سے رنگین کردیا گیا. اس طرح امریکا کے ورلڈ آرڈر اور مغربی تہذیب کو پاکستان میں لاگو کرنے کے لئے فرقہ واریت سے خوب استفادہ کیا گیا۔ ہمارے بعض ناداں اسلام پسند افراد انجانے میں امریکی سازش کا شکار ہوئے اور ہورہے ہیں۔

فرقہ واریت کے ذریعے دشمن نے ناپختہ جوانوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف زہربھردیاہے؛ جیسے کہ آج  بہت سے جوان علمائے کرام کو محض اسی فرقہ واریت کی وجہ سے انسانیت اور ترقی کے دشمن سمجھتے ہیں۔ جب ہماری آنے والی نسل اسلام کے مبلغین سے ہی نفرت کرے گی تو معاشرے میں اسلام کا کیسے بول بالا ہوگا؟!

علماء کوشدت پسندی سے جوڑنا

اسلام دشمن استعماری طاقتوں کے آلہ کار، پاکستان سمیت کہیں بھی احکام الہی بیان کرنے والے علمائے کرام کو فوری طور پرشدت پسند اور قدامت پسند قرار دے کر جوانوں کو ان سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح کی تبلیغات کا اصل مقصد جوان نسل کو اسلام کے قوانین سے دور رکھنا ہے، ظاہر ہے کہ معاشرے کا کوئی فرد جب اسلام پہنچانے والے سے ہی نفرت کرےگا تو وہ اسلامی اصولوں اور قوانین سے کیسے آشنا ہوگا!؛ لہذا شک کی گنجائش ہی نہیں ہے جو لوگ علما اور مبلغین کے روپ میں شدت پسندی اور تکفیرکا مرتکب ہورہے ہیں وہ دشمن کے آلہ کار ہیں وہ اسلام کے بجائے اسلام  اور ملک دشمن عناصرکو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اس قسم کے افراد مسلم معاشرے پربدنما داغ ہیں۔ ان گنے چنے خود غرض اور شہرت طلب مولویوں کو لیکرتمام علمائے اسلام کے خلاف منفی تبلیغات کی جاتی ہیں اور جوانوں کو باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دین کی بات کرنے والا ہرشخص شدت پسند ہے۔ ہمیں باریک بینی سے کام لیتے ہوئے اچھے اور برے کے درمیان تمیز کرنا ہوگا؛ لہذا غیرتمند جوانوں سے یہی گزارش ہے کہ ایسے افراد پرنظر رکھیں جوعلمائے حقہ اور مبلغین اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتےہیں۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ علمائے سوء کے خلاف بات نہ کی جائے؛ بلکہ ان کی نشاندہی ضروری ہے؛ لیکن کسی بھی مسئلے میں بغیرکسی تحقیق کے مطلقا علمائے کرام کو شدت پسند، قدامت پسند، عورت دشمن، سماج دشمن، کہنا آنے والی نسل کو اسلام سے دور کرنے کے مترادف ہے؛ لہذا اس قسم کی تبلیغات کرنے والے افراد کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔

دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا

استعماری حیلہ گر طاقتیں دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی دہشت گردانہ حادثہ ہوتا ہے تو فوری طور پر دین مبین اسلام سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہیں، چونکہ ذرائع ابلاغ ان کے ہاتھ میں ہے؛ لہذا ملک کے سادہ لوح جوان بھی بغیر کسی تحقیق کے متاثرہوجاتے ہیں۔ ان متاثرین میں سے ایک وہ طبقہ ہے جو مقامی ذرائع ابلاغ میں فعال ہے جو ہرقسم کی دہشت گردی کو دین سے جوڑنے پر کمربستہ دکھائی دیتا ہے اور یہ لادین اور مذہب بیزار طبقہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور حکام وقت پر اتنا حاوی ہوچکا ہے کہ جو چاہے ان سے منوالے۔ اس مذہب بیزار طبقے کو استعماری طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے؛ لہذا ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے جوبھی دین اور مذہب کا لبادہ اوڑھ کربےگناہ انسانوں کا قتل عام کرتا ہے در اصل  انہی شیطانی قوتوں کا آلہ کار ہے، دین سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ناپاک ارادوں کے حصول کے لئے مذہب کا کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ دین اسلام وہ دین ہے جو ایک بے گناہ انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے؛ جیسے کہ ارشاد باری تعالی ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسَا بِغَیرِ نَفْسٍ أوفَسادٍ فِی الأَرضِ فَکانَّما قَتَلَ النَّاسَ جمیعاً وَ مَنْ أَحْیاها فَکأَنَّما اَحیا النَّاسَ جمیعاً[10]؛ جس نے کسی ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔

علاقہ، نسل اور لسان پرستی کا فروغ

استعماری طاقتیں مسلم ممالک کو کمزور اور تقسیم کرنے کے لئے علاقہ، نسل اور لسان پرستی کو ہوا دے رہی ہیں، تاکہ ملکوں کو علاقائی، لسانی اور نسلی بنیاد پرتقسیم کیا جاسکے؛ جیسے کہ ہمارے ملک میں ہورہا ہے، کوئی پنجاب کا ہونے پر فخر کرتا ہے تو کوئی سندھی، کوئی اردو بولنے پرفخرکرتا ہے، کوئی پشتو،کوئی بلوچی، تو کوئی گلگتی، کوئی کشمیری کوئی سرائیکی ہونے پرفخر کرتا ہے۔۔۔۔ اس قسم کے تعصبات نے ملک کو عملی طورپرتقسیم کرکے رکھ دیا ہے، جبکہ دین اسلام لسان پرستی، نسل پرستی، علاقہ پرستی کو سرے سے رد کرتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى‏ وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ[11]؛ اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔

اللہ کے نزدیک سارے فرزندان آدم حقوق کے اعتبار سے برابر ہیں؛ کسی کو کسی پر نسل کی وجہ سے، رنگ کی وجہ سے، قد کی وجہ سے شکل کی وجہ سے، علاقے کی وجہ سے، زبان کی وجہ سے، ملک کی وجہ سے، کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے؛ لہذا ہرقسم کی نسل اور نژاد پرستی اسلام میں جائز نہیں ہے۔ اگرکوئی شخص ان تعصبات کا شکار ہے تو سمجھ لے کہ وہ شیطانی جال میں پھنس چکا ہے۔

اگراللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف قبائل کے شکل میں پیدا کیا ہے تو صرف پہچان کےلئے ہے، ایک دوسرے پر فخرفروشی کےلئے نہیں ہے۔  اللہ تعالی نے قرآن کریم کی کچھ دوسری آیتوں میں بھی نسل پرستی، نیشنلزم اور جاہلانہ نعروں کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ۔۔۔[12] اے لوگو! اللہ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک ہی نفس سے خلق کیا ہے۔

قرآن کریم نے نسل پرستی اور نیشنیلزم کو ایک افسانہ قرار دیتے ہوئے ہرقسم کی لسانی اختلافات، نسلی اختلافات، علاقائی اختلافات کو محکوم کیا ہے، انسان اپنی زبان، رنگ، نسل اور علاقےپرفخر نہیں کرسکتا ہے!، زبان، رنگ، نسل، یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں۔ وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ[13]؛ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں۔ یہ نشانیاں خود کو دوسرے پرافضل سمجھنے کےلئے نہیں؛ بلکہ پہچان کے لئے ہیں۔

ایک دوسرے کی زبان، نسل اورعلاقے کا احترام کے ساتھ مل جل کرجینے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ امریکا سمیت تمام استعماری طاقتیں اسلامی اور خود مختار ریاستوں کو کس شکل میں ڈھالنے کا خواہاں ہیں اور کن کن ذرائع، پالیسیوں اور سوچ کے ذریعے اپنی من پسند حکومتیں قائم کرکے کس طرح ملکوں کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف ہیں وہ ہرصاحب بصیرت پرواضح و آشکار ہےکہ کس طرح ایک  منظم پالیسی کے تحت مسلم امہ کے درمیان الجھنیں پیدا کرکے ان  کو آپس میں لڑایا جارہا ہے۔

استعماری نظرمیں امریکا کے ورلڈ آرڈر اور مغربی تہذیب کو کہیں بھی لاگو کرنے کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ سب سے پہلے ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرو، مختلف حربوں کے ذریعے ان کو آپ میں دست گریباں کردو؛تاکہ ان کو اصل دشمن نظرہی نہ آئے، ایک دوسرے کو ابدی اور ازلی دشمن تصور کرنے لگیں اور کسی بھی طرح مسلکی، نسلی، نژادی اور لسانی اختلاف کو بنیاد بنا کرایک دوسرے سے الگ ہونے کا نعرہ لگائیں اور ان کو ترقی بھی جدائی میں ہی نظرآئے۔

سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا

کشورک کے عاشقوں کے حربوں میں سے اہم ترین حربہ کسی بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے اس ملک کے جوانوں کو مادر وطن اور قومی رہنماوں سے بیزار کرانا بھی ہے۔ جیسے کہ  مادر وطن اس مسئلے کا شکار رہا ہے اور اسی وجہ سے دولخت ہوا، اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس سیاسی عدم استحکام کے پیچھے بھی یہی استعماری قوتیں کارفرما نظر آتی ہیں، جیسے کہ ملک عزیز میں اکثرسیاسی پارٹیاں اور حکمراں طبقہ اس بات کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کی پسماندگی اور سیاسی عدم استحکام کے اسباب میں سے ایک، غیرملکی مداخلت ہے۔ موجودہ سیاستدان بھی ایک دوسرے پر غیرملکی نوکر ہونےکا الزامات لگاتے رہے ہیں؛ جیسے کہ حالیہ سیاسی کشمکش میں سابق وزیراعظم اورتحریک انصاف کے رہنما نے جو شعار اپنایا ہے یہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیرملکی خاص کر امریکا جیسی شیطانی قوتوں کو ملک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کرنے کا راستہ کون مہیا کررہاہے؟؟؟؟ یہی بدعنوان اور بدعہد سیاستدان ہی ہیں جو دشمن کو مداخلت کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔!! کسی بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو وہ ملک دیر یا زود زوال کا شکارہو ہی جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ملک اگر ٹوٹے ہیں تو عدم برداشت؛ یعنی سیاسی عدم استحکام اور بیرونی مداخلت کی وجہ سے ہی ٹوٹے ہیں۔

فوج کو متنازعہ بنانا

 کسی بھی ملک کی بقا اور ترقی میں فوج کا اہم کردار ہوتا ہے، جس ملک میں فوج پرقوم کا اعتماد نہ ہو، وہ فوج اپنی طاقت کھو بیٹھتی ہے اورملک کا صحیح معنوں میں دفاع نہیں کرسکتی؛لہذا جس ملک کی سرحدیں محفوظ نہ ہوں اس ملک میں امن امان، ایک خواب بن جاتا ہے، اس ملک کی گلیاں بےگناہ شہریوں کے خون سے رنگین ہوتی ہیں، جس ملک کی فوج کمزور ہو، اس ملک کی سرحدوں کے بجائے شہرکے سڑکوں پرناکے لگانے پڑتے ہیں۔ شہری اپنی جان، مال اور ناموس کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں اور یوں خواستہ یا ناخواستہ طورپرملک سے نفرت کرنا شروع کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کو توڑنے کےلئےاستعماری طاقتوں کے حربوں میں سے ایک حربہ یہی ہے کہ کسی بھی طریقے سے فوج کو قوم کی نظروں میں گرا دیا جائے، فوج سےقوم کا ہرجوان نفرت کرنے لگے۔ اس کے لئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں؛ فرعون صفت فوجی افسران کی بے دریغ حمایت اور جیسے ہی اپنے مقاصد پورے ہوئے فوری طور پر ان کے خلاف ہوجانا، یہ ان کا موثرترین حربہ رہا ہے؛ جیسے کہ پاکستان سمیت دنیا میں اس قسم کے دسیوں نمونے موجود ہیں۔ عراق کی ہی مثال لے لیں، صدام نے ہزاروں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا، تیس سال تک ظلم و جبر کا بازار گرم رکھا، اور استعماری قوتوں کی ہرخواہش پوری کرتے رہے، جب صدام کو تھوڑی سے عقل آئی اور ان استعماری طاقتوں کے ہرحکم کو ماننے سے جیسے ہی انکار کیا، صدام کو راستے سے ہٹانے کے لئے وقت ضائع کئے بغیر،عراق پرہرطرف سے گولہ باری کی گئی اور عراقی قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ہم تمہیں صدام سے نجات دلانے کےلئے آئیں ہیں۔ انہوں نے اس ملک میں صدام سے کئی گنا بدتر ظلم کیا اور لاکھوں بےگناہ شہریوں کو تہہ تیغ کرنے کے بعد ملک کو داعش جیسی درندہ صفت تنظیم کے حوالے کرکے عراقیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اگر داعش سے نجات چاہتے ہوتو ہماری مدد کرو، ہمیں اپنے ملک میں قبول کرو! یوں عراق کو تقسیم درتقسیم کرنے کے دھانے پرپہنچادیا؛ لیکن آیت اللہ خامنہ‌ای اور آیت اللہ سستانی کی بصیرت نے اس ملک کو ٹکڑے ہونے سے بچایا اور داعش کے ساتھ ساتھ استعماری طاقتوں کا بھی ملک سے صفایا کردیا۔

اس وقت ملک عزیزمیں ہماری سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے لئے فوجی ادارے کو بدنام کررہی ہیں، کوئی اپنے مخالف کوسیلکٹیڈ کہہ رہا ہے تو کوئی امپورٹڈ آخراپنی ناکامی کا ملبہ فوج پر ہی ڈال رہے ہیں۔ اس سے پورے ملک میں بے چینی کی فضا ہے۔ اگرکوئی ایک فوجی افسرکہیں اختیارات کا ناجائزاستعمال کرتا ہے تو اس کا ہرگزمطلب یہ نہیں ہے کہ پورا ادارہ غلط ہے۔ پورے ادارے کا نام بدنام کرنے کے بجائے اس فرد کا نام لینا چاہئے۔ افراد آتے جاتے ہیں، ادارے ہمیشہ کے لئے ہوتے ہیں، زندہ قومیں ادارے کمزور نہیں کرتیں؛ بلکہ طاقتور بناتیں ہیں۔

سودی قرضوں میں ڈبو دینا

کشورک کے عاشقوں کے شیطانی حربوں میں سے ایک حربہ کسی بھی کمزورملک کو امداد کے نام پرسودی قرضوں میں ڈبو دینا ہے۔ یہ استعماری طاقتیں بظاہرکمزورممالک کی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں؛ لیکن حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو ان ممالک کو ہمیشہ کے لئےمفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ شہری بھی مفلوج ہوجاتے ہیں؛ سودی قرض لے کر سرمایہ لگایا جاتا ہے، حقیقی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ حکومتیں اس کے سود کا بارعام شہریوں پر ڈال دیتی ہیں۔ ٹیکس سمیت مختلف طریقوں سے ہر شخص کی جیب سے بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ سود نکالا جاتا ہے اور شہری کی حالت سال بہ سال بدتر ہوتی جارہی ہے، یوں مفلسی اورغربت کا مارا شہری کے پاس ملک سے نفرت کرنے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

اللہ تعالی نے  قرآن مجید میں سود کو صدقے کے مقابلے میں ذکرکیا ہے؛ کیونکہ صدقے کے پیچھے ایثار پسند، انسانی قدروں کو جاننے والے اور پاکیزہ نفس انسان ہوتے ہیں؛ جبکہ سود خوری کے پیچھے مفاد پرست، درندہ صفت انسان ہوتے ہیں۔ صدقہ دینے والے اپنے خون پسینے کی کمائی سے دوسروں کا دکھ درد بانٹتے ہیں؛ جبکہ سود خور دوسروں کے خون پسینے میں اپنا لقمہ تر کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے؛ کیونکہ سود اور تجارت میں اخلاقی اور معاشی فرق موجود ہے؛یہی وجہ ہے کہ قرآن نے سود کو اللہ اور اس کے رسولص سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے:«یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ[14]۔اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو اور جو سود (لوگوں کے ذمے) باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ دوسری آیت میں ارشاد ہے: فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَکُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِکُمۡ ۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَ لَا تُظۡلَمُوۡنَ[15]؛ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر تم نے توبہ کر لی تو تم اپنے اصل سرمائے کے حقدار ہو، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا»۔

ظالمانہ پابندیاں

استعماری طاقتیں جب بھی ان کی نہیں چلتی ہے، ان کو لگتا ہے کہ فلاں ملک یا ادارہ ان کے مفادات کے خلاف جارہا ہے تو فوری طورپرپابندیاں لگا دیتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ان پابندیوں سے اس ملک کے شہریوں پرکیا اثرات پڑتے ہیں۔ ایران کے سیاستدانوں اورعلمی شخصیات سے لیکر عام کمپنیوں تک پابندیوں کی زد میں ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ایران ان کی بات نہیں مانتا ہے، اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی متعدد کمپنیاں پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں، پاکستانی کمپنیاں دفاعی آلات فروخت نہیں کرسکتیں! جبکہ یہ خود جس قسم کا اسلحہ جس ملک کو چاہے فروخت کرسکتے ہیں!!۔ کیوں؟!

خلاصہ کلام: امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سمیت دنیا کی تمام استعماری طاقتوں کی شروع سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کو کسی بھی صورت میں ایک ہونے نہ دیا جائے، مسلم ممالک کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے ان ممالک میں موجود قدرتی خزانوں تک رسائی حاصل کی جائے؛ مسلمانوں کا کوئی بڑا خطہ متحد و مستحکم نہ چھوڑا جائے۔ کوئی ملک مسلمانوں کا ایسا نہ ہو جس میں مسلمان ’کروڑوں‘ کی تعداد میں اپنی قوت اور وسائل مجتمع کرسکیں اور اپنی قسمت کے آپ مالک ہوں؛ لہذا محب وطن پاکستانی جوانوں کو چاہئے کہ ان شیاطینی چالوں میں آنے کے بجائے اتفاق اور اتحاد کے ساتھ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ‏[16] اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

وماعلینا الاالبلاغ۔


[1]۔ چھوٹا ملک۔

[2]۔ موسی قربانوف، ترکی اور عرب ممالک کو تقسیم کرنا امریکی سازش ہے، ارنا نیوز،۲۰ اگست2017۔

[3]۔ آیت اللہ شاہرودی، عراق کو تقسیم کرنے کی سازش خطے اور عالم اسلام سے بڑی غداری ہے، ارنا نیوز. 7 اکتوبر، 2017.

[4]۔ Fundamentalists۔

[5]۔ Traditionalists۔

[6]۔Modernists۔

[7] ۔ global modernity۔

[8]۔Secularists ۔

[9]۔ دیکھئے: انصارعباسی، امریکی پالیسی پیپرنے لبرل ازم کے اصل ایجنڈے کو بے نقاب کر دیا، روزنامہ جنگ، ۲۸مارچ،۲۰۱۶۔

[10]۔ مائدہ،۳۲۔

[11]۔ حجرات، ۱۳۔

[12] ۔ نساء،۱۔

[13]۔ روم،۲۲۔

[14].بقرہ، 278۔

[15] ۔ بقرہ،279۔

[16]۔ آلعمران،۱۰۳۔


Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close