اسلامتازہ ترین خبریںدنیا
سیدحسن نصراللہ کی قائدانہ صلاحیتوں اور مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات پرایک نظر

حزب اللہ لبنان کے سابق سربراہ، شہید سید حسن نصراللہ، نے سفارت کاری اور بین الاقوامی تعلقات میں ایک منفرد اور مؤثر حکمت عملی اپنائی تھی، جو تنظیم کی سیاسی اور عسکری قوت کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوئی۔ حزب اللہ کے تعلقات دنیا کے مختلف ممالک اور تنظیموں کے ساتھ زیادہ تر اسرائیل اور مغربی اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت پر مبنی ہیں۔ یہ تعلقات خطے میں حزب اللہ کو ایک طاقتور اور بااثر کھلاڑی بناتے ہیں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں۔
تحریر: ڈاکٹر غلام مرتضی جعفری
اس مقالےمیں سید حسن نصراللہ کی عالمی سیاست اور دیگرممالک کے ساتھ روابط پر ایک مختصر تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
ایک قابل اور اچھے رہنما یا سیاستدان میں ایسی خصوصیات ہونی چاہئیں جو نہ صرف ان کی قیادت کو مؤثر بنائیں؛ بلکہ عوام کےلیے ان کی خدمات کو نمایاں کریں۔ ایک اچھے رہنماء کےلئے مندرجہ ذیل صفات کا حامل ہونا ضروری ہے:
1. دیانت داری[1]
ایک اچھا رہنما سچائی، اخلاقیات، اور دیانت داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ دیانت داری قیادت کی بنیاد ہے۔ اگر رہنما دیانتدار ہو تو وہ دوسروں کا اعتماد حاصل کرتا ہے، جو مؤثر قیادت کے لیے ضروری ہے[2]۔
دیانت داری اسلام کی بنیادی اخلاقی صفات میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید اور اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں دیانت داری کو ایمان کی علامت اور کامیابی کی کلید قرار دیا گیا ہے۔ یہ خوبی نہ صرف ایک شخص کی شخصیت کو نکھارتی ہے؛ بلکہ معاشرتی بھلائی اور اعتماد کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها وَ إِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كانَ سَميعاً بَصيراً[3]؛بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے»۔ ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے: «وَ الَّذينَ هُمْ لِأَماناتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ راعُونَ[4]؛ اور وہ جو اپنی امانتوں اور معاہدوں کا پاس رکھنے والے ہیں»۔ یہ آیت مومنین خاص کر ایک مومن رہنماء کی صفات میں دیانت داری اور عہد کی پاسداری کو نمایاں کرتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «الأمانة نظام الدين[5]؛ دیانت داری دین کا نظام ہے»۔ یہ فرمان اس بات کو واضح کرتا ہے کہ دیانت داری دین کی اساس اور بنیاد ہے۔ اسی طرح حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کا فرماتے ہیں: «ثلاثة هن فخر المؤمن وأساس الإيمان: الحلم، والعلم، والأمانة[6]؛ تین چیزیں مومن کا فخر اور ایمان کی بنیاد ہیں: بردباری، علم، اور دیانت داری»۔
قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ دیانت داری نہ صرف ایمان کا لازمی جزو ہے؛ بلکہ ایک مضبوط اور پُرامن معاشرے کی تشکیل کےلیے بھی ضروری ہے؛ لہذا ایک رہنما دیانت داری کے ذریعے ہی اعتماد، انصاف، اور محبت پر مبنی ایک مثالی معاشرہ تشکیل دےسکتا ہے۔
2۔
بصیرت [7]
ایک اچھا رہنما اور سیاستدان وہ ہوتا ہے جو مستقبل کے بارے میں ایک واضح اور حقیقی ژرف نگاہی رکھتا ہو۔ وہ اپنے وژن اور ژرف نگاہی کو دوسروں تک پہنچانے اور انہیں اپنے ساتھ شامل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو[8]۔
بصیرت، ایک رہنما کی بنیادی اور اہم خصوصیت ہے، جو اسے صحیح فیصلے کرنے، حق و باطل میں فرق کرنے، اور اپنی قوم کی رہنمائی کرنے کے قابل بناتی ہے۔ قرآن مجید کی آیات کریمہ اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات، بصیرت کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہیں اور ہرانسان کو اس صفت کو اپنانے کی تلقین کرتی ہیں۔ جیسے کہ ارشاد ہے: «قُلْ هذِهِ سَبيلي أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَني وَ سُبْحانَ اللَّهِ وَ ما أَنَا مِنَ الْمُشْرِكينَ[9]؛ کہدیجئے: یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاکیزہ ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ بصیرت اللہ کی طرف دعوت دینے کا بنیادی اصول ہے؛ لہذا اسلامی قیادت کےلیے وہ ہستی قابل قبول ہے جو علی بصیرۃ ہو۔ اس دعوت کا خاصہ یہ ہے کہ یہ دعوت علی بصیرۃ ہے۔ یقین و معرفت کی بنیاد پر ہے۔ کسی مصلحت و تقلید کی بنیاد پر نہیں ہے؛ کیونکہ یہ دین، فکر و عقل اور دلیل و برہان کا دین ہے اور پیروکاروں میں جو لوگ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ ہیں وہ بھی اس دعوت میں شریک ہیں[10]۔
اللہ تعالی ایک اور آیت میں ارشاد فرما رہا ہے: «أَ فَلَمْ يَسيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتي فِي الصُّدُورِ؛ کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو جاتے؟ حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں؛ بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں»۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «العالم بزمانه لا تهجم عليه اللوابس[11]؛ جو اپنے زمانے کو پہچانتا ہے، اس پر شبہات حملہ نہیں کرتے»۔ یہ حدیث رہنما کو موجودہ حالات اور زمانے کی بصیرت رکھنے کی ترغیب دیتی ہے؛ لہذا ہم ان آیات اور روایات کومدنظررکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک سمجھدار، متفکر، مدبر اور بابصیرت شخص ہی قوم کی صحیح رہنمائی کرسکتاہے۔
قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات میں بصیرت کو روحانی، فکری، اور عملی رہنمائی کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ایک رہنما کے لیے بصیرت کا ہونا ضروری ہے؛ تاکہ وہ لوگوں کی صحیح رہنمائی کر سکے، حق اور باطل میں فرق کر سکے، اور ہر حال میں اللہ کی رضا کو مدنظر رکھے۔ بصیرت کے بغیر قیادت محض اندھی تقلید بن جاتی ہے جو معاشرے کو بھٹکا سکتی ہے۔
3۔ عوام سے وابستگی[12]
ایک رہنماء اور قابل سیاستدان کا اولین مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ وہ اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کرعوام کے مسائل کے حل کےلیے کام کرے۔
ایک رہنما کےلیے عوام سے وابستگی ایک لازمی صفت ہے؛ کیونکہ یہ خصوصیت اسے اپنی قوم کی ضروریات کو سمجھنے، ان کی بھلائی کےلیے کام کرنے اور ان کے ساتھ ہمدردی کے جذبات قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ قرآن مجید اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات عوام سے وابستگی اور ان کی خدمت کو بہت اہمیت دیتی ہیں؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنينَ رَؤُفٌ رَحيمٌ[13]؛ بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کےلیے نہایت شفیق، مہربان ہے»۔ یہ آیت رہنما کی اپنے لوگوں سے گہری وابستگی اور ان کی بھلائی کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے۔
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «إن الله فرض على أئمة العدل أن يقدروا أنفسهم بضعفة الناس[14]؛ اللہ نے عادل رہنماؤں پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو لوگوں کے کمزور طبقے کے مطابق ڈھالیں۔» یہ فرمان رہنماء کو عوام کے حالات کو سمجھنے اور ان کے ساتھ وابستگی قائم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
قرآن مجید متعدد آیات اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات عوام سے وابستگی اور ان کی خدمت کو ایک رہنما کی بنیادی ذمہ داری قرار دیتی ہیں؛ لہذا ایک رہنماء کو اپنی رعایا کے حالات، مسائل، اور ضروریات کو سمجھنے کےلیے ان کے قریب رہنا چاہیے، ان کے ساتھ انصاف اور شفقت سے پیش آنا چاہیے، اور اپنی ذات کو عوام کی خدمت کےلیے وقف کرنا چاہیے۔ ایسا رہنما نہ صرف دنیاوی معاملات میں کامیاب ہوتا ہے؛ بلکہ اللہ کی بارگاہ میں بھی مقبول ٹھہرتا ہے۔
4. فیصلہ سازی کی صلاحیت[15]
ایک قابل رہنماء بروقت فیصلہ کرنے میں دقت اور درستگی کا مظاہرہ کرتا ہے، خاص طور پر مشکل حالات میں؛ لہذا فیصلہ سازی ایک قابل رہنماء کی بنیادی صفت ہے؛ کیونکہ اس کے ذریعے وہ قوم کے لیے صحیح راستہ چن سکتا ہے اور مشکلات کو حل کر سکتا ہے۔ قرآن مجید اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات میں فیصلہ سازی کو حکمت، عدل، اور اللہ پر اعتماد کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کے مطابق، ایک رہنماء کو فیصلہ سازی میں انصاف، علم، مشاورت اور اللہ پر توکل کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ خواہشات نفس اور جلد بازی سے بچنا اور عوام کے مفاد کو ترجیح دینا بھی ایک کامیاب رہنماء کی صفات میں شامل ہیں۔ فیصلہ سازی کے یہ اصول نہ صرف انفرادی؛ بلکہ معاشرتی سطح پر بھی کامیابی کا سبب بنتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے: «…فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلينَ؛ پھر جب تم فیصلہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے»۔ یہ آیت فیصلہ کرنے کے بعد اللہ پر اعتماد رکھنے کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔ ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے: «إِنَّا أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الْكِتابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِما أَراكَ اللَّهُ وَ لا تَكُنْ لِلْخائِنينَ خَصيماً[16]؛ (اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے؛ تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں»۔ یہ آیت اللہ کی رہنمائی پر مبنی فیصلہ سازی کو لازم قرار دیتی ہے۔ سید حسن نصراللہ قرآنی اور اہل بیت اطہارعلیہم السلام کی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے بروقت فیصلہ کرنے میں دقت اور درستگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان کا اللہ پر بہروسہ دیدنی ہوتا تھا۔
5. عوام سے رابطہ[17]
ایک قابل رہنماء اور سیاستدان بہترین ابلاغ کا ماہر ہوتا ہے؛ وہ اپنی بات کو مؤثر انداز میں عوام تک پہنچانے میں ماہرانہ انداز رکھتا ہے۔ عوام سے رابطہ یا لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بارے میں اسلام نے مضبوط رہنمائی فراہم کی ہے۔ قرآن مجید اور اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات عوام کے ساتھ اچھے تعلقات، شفقت، اور انصاف پر مبنی رویے کو اہم قرار دیتی ہیں؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «۔۔۔ وَ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى وَ لا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَ الْعُدْوانِ [18]۔۔۔۔؛ (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو»۔ امام علی علیہ السلام فرماتےہیں: «الطوا الناس مخالطةً إن متم معها بكوا عليكم، وإن عشتم حنوا إليكم[19]؛ لوگوں کے ساتھ ایسے میل جول رکھو کہ اگر تم مر جاؤ تو وہ تم پر روئیں اور اگر زندہ رہو تو وہ تم سے محبت کریں»۔ یہ فرمان تعلقات میں محبت اور حسن سلوک کو اجاگر کرتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «المؤمن أخ المؤمن، عينه و دليله، لا يخونه ولا يظلمه ولا يغشه ولا يعده عِدَةً فيخلفه[20]؛ مومن، مومن کا بھائی ہے، اس کی آنکھ اور رہنماء ہے، وہ اسے دھوکہ نہیں دیتا، ظلم نہیں کرتا، فریب نہیں دیتا اور وعدہ خلافی نہیں کرتا»۔ یہ حدیث مومن کے تعلقات میں دیانتداری اور شفقت کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: «وَأَمَّا حَقُّ جِيرَانِكَ فَحِفْظُهُمْ غَائِبِينَ، وَإِكْرَامُهُمْ شَاهِدِينَ، وَنُصْرَتُهُمْ وَإِعَانَتُهُمْ فِي ٱلْحَقِّ[21]؛ تمہارے پڑوسیوں کا حق یہ ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کا خیال رکھو، ان کی موجودگی میں ان کی عزت کرو، اور حق میں ان کی مدد کرو»۔ یہ فرمان ایک رہنما کا عوام کے ساتھ تعلقات میں ذمہ داری اور احترام کو ظاہر کرتا ہے۔
قرآن مجید اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات عوام کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے، ہمدردی، تعاون، اور نرم رویہ اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ان تعلیمات پر عمل کر کے معاشرے میں امن، محبت، اور ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ سید حسن نصراللہ ان تمام تعلیمات پرعمل پیرا تھے وہ امن، محبت اور ہم آہنگی کے داعی تھے۔
6. بردباری اور برداشت[22]
ایک قابل اور اچھے رہنماء میں تنقید برداشت کرنے اور مختلف نظریات کو قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ بردباری اور برداشت ایک مومن خاص کرایک رہنماء کی اہم صفات میں سے ہے، جن کی قرآن مجید اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں بار بار تاکید کی گئی ہے۔ یہ خصوصیات انسان کو نہ صرف دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے میں مدد دیتی ہیں؛ بلکہ اسے اللہ کے قریب بھی کرتی ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشادہے: «وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُور[23]؛ البتہ جس نے صبر کیا اور درگزر کیا تو یہ معاملات میں عزم راسخ (کی علامت) ہے»۔ یہ آیت صبر اور معافی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، جو بردباری کا عملی مظہر ہیں۔ شیخ محسن نجفی اس آیت کی تفسیرمیں فرماتےہیں: اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ: جذبۂ انتقام پر قابو پا لینا ایک ہمت طلب کام ہے جو عام لوگوں کی بس میں نہیں ہوتا؛ اس لیے اس جذبے سے ہاتھ اٹھانے کےلیے ایک طاقتور عزم کی ضرورت ہے[24]۔ حدیث میں آیا ہے: «مَرَارَۃُ الْحِلْمِ اَعْذَبُ مِنْ مَرَارَۃِ الاْنْتِقَامِ[25]؛ برد باری کی تلخی، انتقام کی تلخی سے زیادہ شیریں ہے۔» اللہ تعالی ایک دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «الَّذينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ وَ الْكاظِمينَ الْغَيْظَ وَ الْعافينَ عَنِ النَّاسِ وَ اللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنينَ[26]؛ (ان متقین کےلیے)جو خواہ آسودگی میں ہوں یا تنگی میں ہر حال میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے»۔ شیخ محسن نجفی اس آیت کی تفسیرمیں فرماتےہیں: وہ غصے سے مغلوب نہیں ہوتے۔ ان کا نفس ان کی عقل کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اہل تقویٰ وہ ہیں جنہیں غصہ نہیں آتا؛ بلکہ فرمایا کہ غصے کی حالت میں ضبط و تحمل سے کام لیتے ہیں؛ لہٰذا انسانی طبیعت کے پیش نظر غم و غصے کا نہ ہونا کمال نہیں ہے؛ بلکہ اسے قابو میں رکھنا کمال ہے لوگوں کی غلطیوں سے عفو و درگزر کرتے ہیں؛ یعنی غصہ پی لینے کے بعد دل سے بھی معاف کر دیتے ہیں[27]۔ رہبر و رہنماء مقام احسان پر بھی فائز ہوتے ہیں۔ معاف ہی نہیں کرتے؛ بلکہ اس پر مستزاد احسان بھی کرتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک اخلاقی اقدار اور اسلامی رہنماء کا مقام و معیار یہ ہے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «إن لم تكن حليماً فتحلّم فإنه قلّ من تشبّه بقوم إلا أوشك أن يكون منهم[28]؛ اگر تم بردبار نہیں ہو تو بردبار بننے کی کوشش کرو؛ کیونکہ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، جلد وہ انہی میں سے ہو جاتا ہے»۔ یہ فرمان تربیتی انداز میں انسان کو بردبار بننے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن پاک اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ بردباری اور برداشت وہ اعلیٰ اخلاقی صفات ہیں جو انسان کو نہ صرف دوسروں کے قریب کرتی ہیں؛ بلکہ اسے اللہ کے نزدیک بھی معزز بناتی ہیں۔ ان صفات کو اپنانے سے انسان زندگی کے مختلف چیلنجز کا سامنا بہتر طریقے سے کر سکتا ہے اور دوسروں کےلیے مثالی رہنماء اوررہبر بھی بن سکتا ہے۔ سید حسن نصراللہ ان تمام صفات کے مالک تھے، ان کی بردباری اور برداشت کے دوست دشمن سبھی متعرف ہیں۔
7. تخلیقی صلاحیت اور مسائل حل کرنے کی مہارت[29]
ایک اچھا رہنماء اور سیاستدان ہمیشہ روایتی طریقوں پر انحصار نہیں کرتا؛ بلکہ نئے اور تخلیقی حل پیش کرتا ہے۔ تخلیقی صلاحیت اور مسائل حل کرنے کی مہارت وہ خوبیاں ہیں جنہیں قرآن مجید اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ یہ صفات انسان کی صلاحیتوں کو نکھارتی ہیں اور اسے مشکل حالات میں راہِ حل تلاش کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
«وَ لَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْناهُ حُكْماً وَ عِلْماً وَ كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنينَ[30]؛ اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کی اور ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں»۔ یہ آیت حضرت یوسف (ع) کی حکمت اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کی مثال ہے، جو ان کے اعلیٰ کردار اور تخلیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرتی ہے؛ لہذا اللہ کی طرف سے حکمت اور علم اندھی بانٹ نہیں ہے؛ بلکہ یہ اصول و قانون کے تحت ملتے ہیں اور ہر نیکی کرنے والے کو اپنی نیکی کے مطابق اجر مل جاتا ہے[31]۔ سید حسن نصراللہ کو اللہ کی طرف سے حکمت اور اگاہی عطاہوچکی تھی۔ وہ روایتی طور طریقوں پر انحصارنہیں کرتے تھے، وہ تخلیقی صلاحیت سے سرشار تھے۔
8. عوام کے ساتھ ہمدردی[32]
ایک رہنماء میں عوام کے جذبات اور مسائل کو سمجھنے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے؛ کیونکہ عوام کے ساتھ ہمدردی اور محبت ایک ایسا اخلاقی اصول ہے جس پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ قرآن پاک اور اہل بیت اطہارعلیہم السلام کی احادیث میں ہمدردی، رحم دلی، اور انصاف کی تاکید بار بار کی گئی ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذاعَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلينَ؛(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کےلیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کےلیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بےشک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے[33]»۔ اللہ تعالی ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمارہاہے: «وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكيناً وَ يَتيماً وَ أَسيراً () إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُريدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُوراً[34]؛ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں/ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری»۔
یہ آیات رسول اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) کی ہمدردی اور سخاوت کا عملی مظہر بیان کرتی ہیں۔ رسول اکرم(ص) اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کا پیروکار رہنماء ہمدرد اور رحم دل ہوتا ہے؛جیسے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «الناس صنفان، إما أخ لك في الدين أو نظيرلك في الخلق؛لوگ دو طرح کے ہیں: یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں، یا تمہارے جیسا مخلوق ہونے میں تمہارے برابر ہیں[35]۔» یہ فرمان ہمدردی اور تمام انسانوں کے ساتھ احترام کا درس دیتا ہے۔ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: «من لم یرحم الناس لم یرحمه الله؛ جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر رحم نہیں کرے گا[36]»۔ حضرت علی (ع) نے فرماتے ہیں: «ارحموا الضعفاء وعونوا المظلومین[37]؛ کمزوروں پر رحم کرو اور مظلوموں کی مدد کرو۔»؛ لہذا قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات ہمیں ہمدردی، رحم دلی، اور عوام کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی تاکید کرتی ہیں۔ ان آیات اور احادیث کی روشنی میں ایک مثالی معاشرہ وہی ہے؛ جہاں ہمدردی اور انسانیت کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔ سید حسن نصراللہ ہمدردی اور انسانیت کا عملی نمونہ تھے، انہوں نے فلسطینی اور لبنانی مظلوموں کا جس طرح دفاع کیا اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے۔ وہ نہایت دلسوز اور ہمدرد رہنما تھے۔
9. اعتماد اور حوصلہ[38]
رہنماء کو اپنے فیصلوں اور اقدامات پر اعتماد ہونا چاہیے اور چیلنجز کا سامنا بہادری سے کرنا چاہیے۔ خود پر اعتماد اور حوصلے کی اسلامی تعلیمات قرآن مجید اور اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ یہ تعلیمات انسان کو مشکل حالات کا سامنا کرنے اور اپنی ذات پر اعتماد رکھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرمارہا ہے: «لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَها لَها ما كَسَبَتْ وَ عَلَيْها مَا اكْتَسَبَتْ[39]۔۔۔۔؛اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا، ہر شخص جو نیک عمل کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بدی کرتا ہے اس کا انجام بھی اسی کو بھگتنا ہے»۔ یہ آیت انسان کو اپنے اندر اعتماد اور حوصلہ پیدا کرنے کا درس دیتی ہے کہ اللہ نے کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالا جو وہ برداشت نہ کر سکے۔ اللہ پاک دوسری آیت میں ارشاد فرمارہا ہے: «قُلْ لَنْ يُصيبَنا إِلاَّ ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا هُوَ مَوْلانا وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ[40]؛کہدیجئے:اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ ہرگز پیش نہیں آتا وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں۔ «ان آیتوں میں فتح و شکست اور دکھ سکھ کی حالت میں مومن اور منافق کے نقطۂ نظر اور عملی کیفیت کا موازنہ ہوا ہے۔ وہ یوں کہ منافق کی نگاہ محسوسات تک محدود ہوتی ہے۔ وہ مسلمانوں کے دکھ، شکست و ناکامی پر خوش ہوتا ہے۔ خود ان کے ان حالات سے دو چار نہ ہونے کو وہ اپنی حسن تدبیر اور احتیاطی پیش بندی کا نتیجہ قرار دیتا ہے؛ جبکہ مومن کی نگاہ اپنے مولا و سرپرست پر ہوتی ہے، وہ وقتی فتح و شکست اور وقتی دکھ سکھ پر بھروسہ نہیں رکھتا؛ بلکہ وہ ان تمام محسوسات سے بالاتر ہو کر اللہ کی حکمت و سرپرستی پر یقین رکھتا ہے؛ یوں وہ ہر حال میں راضی بہ رضائے الٰہی رہتا ہے اور ہر حالت کو اپنے لیے عطیہ الٰہی سمجھتا ہے[41]»۔ سید حسن نصراللہ حوصلے اور اعتماد کے پہاڑ تھے، انہوں نے خود سے کہیں گنا زیادہ طاقتور دشمن کو اسی حوصلے اور اللہ پر اعتماد کی وجہ سے شکست دی اور رسوا کردیا۔
10. ٹیم ورک اور تعاون کی صلاحیت[42]
ایک قابل اور اچھا سیاستدان دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تنظیمی افراد کو مؤثر انداز میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
ایک رہنما کےلیے ٹیم ورک اور تعاون کی صلاحیت بے حد اہم ہے؛ کیونکہ یہ خصوصیت اسے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر کام کرنے، مشترکہ مقاصد کے حصول، اور ایک متوازن اور خوشحال معاشرے کی تعمیر میں مدد دیتی ہے۔ قرآن مجید اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات میں ٹیم ورک اور تعاون کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذينَ يُقاتِلُونَ في سَبيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ[43]؛ اللہ یقینا ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر اس طرح لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں»۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: «المؤمن للمؤمن كالبنيان يشدّ بعضه بعضاً[44]؛ مومن مومن کےلیے عمارت کی مانند ہے، جو ایک دوسرے کو مضبوطی سے سہارا دیتا ہے»۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ ٹیم ورک گروہی فعالیت مومنوں کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ سید حسن نصراللہ دنیا بھرکے مظلومین خاص کرفلسطین، شام، عراق اور لبنان کے مظلوم عوام کےلئے ایک مستحکم عمارت کی طرح تھے، دنیاکے مظلومین اس عمارت کے زیرسایہ خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «اليد الواحدة لا تصفق[45]؛ ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی»۔ یہ فرمان اجتماعی کام کی ضرورت کو واضح کرتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ سید حسن نصراللہ نے مظلوم کی آواز بننے کی صلاحیت رکھنے والے ہرملک اور تنظیم سے رابطے اور تعلقات بڑھانے کی کوشش کی، انہی اصولوں کی بنیاد پرحزب اللہ کے چند اہم ممالک کے ساتھ مضبوط اور اچھے تعلقات ہیں، جو اس کی سیاسی، عسکری اور مالی طاقت کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ تعلقات خطے میں حزب اللہ کے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ذیل میں چند ایک ملاحظہ کریں:
1. اسلامی جمہوریہ ایران
اسلامی جمہوریہ ایران حزب اللہ کا سب سے اہم اور قریبی اتحادی ہے اور رہے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے حزب اللہ کے قیام میں مدد فراہم کی اور آج بھی اسے مالی، عسکری اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب (IRGC) بالخصوص قدس فورس، حزب اللہ کو تربیت اور اسلحہ کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ کا اتحاد اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور خطے میں امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے پر مبنی ہے۔ سید حسن نصراللہ ایران کے ساتھ تعلقات کو بڑی اہمیت دے رہے تھے۔
2۔ شام میں صدر اسد کی حکومت
شام، حزب اللہ کا دوسرا بڑا اتحادی تھا۔ شام میں صدر اسد کی حکومت نے کئی دہائیوں سے حزب اللہ کو اپنی سرزمین کے ذریعے اسلحہ اور دیگر وسائل منتقل کرنے میں مدد فراہم کی۔ یہی وجہ ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے دوران، حزب اللہ نے بشار الاسد کی حکومت کا عسکری طور پر دفاع کیا، جس نے دونوں کے تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔ حزب اللہ شام میں اپنی موجودگی کے ذریعے اسرائیل کے خلاف محاذ کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔
3. عراق
عراق کی شیعہ تنظیمیں، جیسے حزب اللہ عراق اور الحشد الشعبی حزب اللہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح عراق کی شیعہ تنظیمیں بھی اسرائیل اور امریکا کے خلاف حزب اللہ کے مؤقف کی حمایت کرتی ہیں۔ عراق کی شیعہ تنظیمیں سید حسن نصراللہ کو اپنا رہنما اور لیڈر سمجھتی ہیں۔
4. فلسطین
سید حسن نصراللہ یعنی حزب اللہ نے فلسطین کی حمایت کےلئے ہی سب کچھ کیا ہے۔ حزب اللہ کے حماس، اسلامی جہاد، اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہیں اور یہ تعلقات اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی بنیاد پر استوار ہیں۔ حزب اللہ نے فلسطینی تنظیموں کو اسلحہ، تربیت اور مالی مدد فراہم کی ہے۔
5. یمن
حزب اللہ اور انصاراللہ کے درمیان تعلقات قائم ہیں۔ حوثیوں کو عسکری تربیت اور مشورہ فراہم کرنے میں حزب اللہ کا کردار رہا ہے، جو اسرائیل، امریکا اور بعض علاقائی امریکا نواز ممالک کے خلاف ان کی مزاحمت میں مددگار ثابت ہوا ہے۔
6. روس
حزب اللہ کے روس کے ساتھ جزوی روابط ہیں۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران، روس اور حزب اللہ نے بعض اوقات مشترکہ طور پر بشار الاسد کی حکومت کا دفاع کیا؛ اگرچہ یہ تعلقات اسٹریٹجک نوعیت کے ہیں؛ لیکن روس اور حزب اللہ کے درمیان براہ راست گہرے تعلقات نہیں ہیں۔
7. قطر
قطر نے بعض مواقع پر حزب اللہ کے ساتھ تعاون کیا ہے، خاص طور پر فلسطینی تنظیموں اور شام کے حوالے سے۔
8. لبنان کی داخلی حمایت
حزب اللہ کو لبنان میں شیعہ،سنی حتی عیسائی کمیونٹی کی بڑی حمایت حاصل ہے، جو اسے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط بناتی ہے۔
خلاصہ: قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کے مطابق، ٹیم ورک اور تعاون ایک رہنما کے لیے ناگزیر صفات ہیں۔ ایک رہنما کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹیم کے افراد کی صلاحیتوں کو پہچانے، ان کے ساتھ مل کر کام کرے، اور ان کی صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر استعمال میں لائے۔ ٹیم ورک اور تعاون صرف ایک کامیاب قیادت کی علامت ہی نہیں؛ بلکہ ایک مضبوط اور ہم آہنگ معاشرے کی بنیاد بھی ہے۔ سید حسن نصراللہ مذکورہ بالا تمام صفات کے حامل تھے، اللہ تعالی نے انہیں اچھی صفات اور قائدانہ صلاحیتیں عنایت فرمایا تھا۔ سید حسن نصراللہ کی شہادت آنے والی نسلوں کے لیے ایک تحریک کا باعث ہوگی اور سید اسلامی مزاحمت کے ایک نمایاں چہرے کے طور پر ہمیشہ اپنے حامیوں کے اذہان اور قلوب میں زندہ رہیں گے۔
بشکریه: تسکین
میگزین
[1]۔ Integrity
[2]۔ جان میکسویل (John Maxwell) “The 21 Irrefutable Laws of Leadership”
[3]۔ نساء/58۔
[4]۔ مومنون/8۔
[5]۔ نہج البلاغہ، حکمت 376۔
[6]۔ الکافی، جلد 2، صفحہ 106
[7]۔ Vision
[8]۔ وارن بینی (Warren Bennis) “On Becoming a Leader”
[9]۔ یوسف/108۔
[10]۔ شیخ محسن نجفی، الکوثرفی تفسیرالقرآن،ج4،ص258۔
[11]۔ الکافی، ج، 1، ص، 27 ۔
[12]۔ Commitment to Public Service
[13]. توبه/128.
[14]. نہج البلاغہ، خطبہ 209.
[15]۔ Decision-Making Skills
[16]۔نساء/105۔
[17]۔ Communication Skills
[18]۔ مائدہ/2۔
[19]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر 10۔
[20]۔ الکافی، جلد 2، صفحہ 166۔
[21]۔ رسالۃ الحقوق، حق الجار۔
[22]۔ Patience and Tolerance
[23]۔ شوری/42۔
[24]. شیخ محسن نجفی، الکوثر فی تفسیر القران ج، 8 ص، 98.
[25]۔ مستدرک الوسائل ج ۱۱، ص،۲۹۰۔
[26]۔ آلعمران/134۔
[27]۔ شیخ محسن نجفی، الکوثر فی تفسیر القران ج، 2 ص، 166۔
[28]۔ نہج البلاغہ، حکمت 207۔
[29]۔ Creativity and Problem-Solving
[30]۔ یوسف/22۔
[31]۔ شیخ محسن نجفی، الکوثر فی تفسیر القران ج، 4 ص، 200
[32]۔ Empathy
[33]۔ ترجمہ، شیخ محسن نجفی۔
[34]۔ انسان،8/9۔
[35]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 53
[36]۔ الکافی، ج 2، ص، 160۔
[37]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر 368۔
[38]۔ Confidence and Courage
[39]۔ بقرہ/286۔
[40]۔ توبہ/51۔
[41]. شیخ محسن علی نجفی، الکوثر فی تفسیرالقرآن،ج3، ص،491۔
[42]۔ Teamwork and Collaboration
[43]۔ صف/04۔
[44]۔ صحیح بخاری، کتاب المظالم، ح، 2446۔
[45]. غرر الحکم، ح، 3342۔