اسلامتازہ ترین خبریںخبریںدنیا

فلسطین عصرحاضر کی کربلا!


فلسطین کو انبیاءعلیہم السلام کی سرزمین کہاجاتا ہے۔اس مقدس سرزمین پرایک نہیں؛ بلکہ متعدد انبیاءعلیہم السلام نے سکونت اختیار کی۔ فلسطین اللہ تعالی کی برگزیدہ سرزمین ہے؛ جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیاطین کو کچل دیا تھا۔

ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

 یہ وہ سرزمین ہے، جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آله سلم کو معراج پر بلا لیا اور انہیں پوری کائنات پر فضیلت عطا کی اور اب شیاطین اس سرزمین میں اللہ کے برگزیدہ لوگوں سے انتقام لینے کے لیے جمع ہو گئے ہیں۔ آج یہ مقدس سرزمین لہو لہو ہے،  فلسطینی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، ان پر انہی کی زمین تنگ کردی گئی ہے۔ فلسطین جل رہا ہے۔ نہتے فلسطینی اسرائیل کے بمبار طیاروں کے نشانے اور ممنوعہ بموں کی زد میں ہیں۔ صہیونی غاصب حکومت کے اہلکار اپنی ناجائز حکومت اور ناپاک وجود کو قائم رکھنے کیلئے نہایت وحشیانہ طریقےسے فلسطینیوں کا قتل عام کررہے ہیں؛ جبکہ نام نہاد آزادی بیان مغربی ذرائع ابلاغ کی کوشش ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جائے!۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار امریکا اور یورپ سمیت اکثر اسلامی ممالک نہ صرف تماشائی بنے بیٹھے ہیں؛ بلکہ مختلف طریقوں سے اسرائیل کا ساتھ بھی دے رہے ہیں، جس سے ان کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔

فلسطینی علماء کونسل کے رکن شیخ “شرید الشولی” کا کہنا ہے کہ فلسطین عصرحاضرکی کربلا بن چکا ہے، فلسطین اور کربلا میں مختلف جہات سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ عربوں نے جس طرح امام حسین علیہ السلام کو تنہا چھوڑا تھا اسی طرح آج فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

المیادین ٹی وی کے مطابق، شیخ شرید الشولی نے نداء القدس نامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی آزادی قریب ہے، فلسطین، فلسطینی مسلمانوں کے ہاتھوں ہی آزاد ہوگا۔انہوں نے کہا کہ صہیونی غاصبوں نے فلسطینی اور عرب زمینوں پرناجائزقبضہ کررکھا ہے، جانی، مالی اور عزت و آبرو کی حرمتوں کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے؛ لیکن عربوں سمیت پوری دنیا خاموش ہے۔

فلسطین کی آزادی کا واحد حل اتحاد امت

عراق کے «رباط محمدی» کونسل کے نائب صدر شیخ محمد النوری کا کہنا ہے کہ فلسطین کی آزادی کا واحد حل اتحاد امت میں مضمر ہے، اگرامت اسلامیہ متحد ہو جائے تو فتح ضرور ملے گی۔ انہوں نے عراقی عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ عراقیوں کو صہیونی غاصب حکومت کے خلاف متحد ہونا چاہئے، امت اسلامیہ جس طرح مسجد الحرام کی حفاظت کرتی ہے اسی طرح مسجد الاقصی کی بھی حفاظت اور دفاع کرنا چاہئے۔ شیخ النوری کا کہنا تھا کہ اگر ہم واقعی متحد ہوئے تو بغیر ہتھیارکے بھی دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ اتحاد امت ہی وہ پہلا راستہ ہے جو اسے عزت اور فتح نصیب کرے گا اورمقبوضہ فلسطین کی آزادی کا باعث بنے گا[1]۔

کربلا کا منظر

 سرزمین فلسطین آج 61ء ہجری کی کربلا کا منظر نامہ پیش کر رہی ہے، اس مقدس سرزمین پر وقت کے یزید اسرائیل قابض ہو چکا ہے اور فلسطین کے عوام پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ مسلم ممالک سمیت نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ جس طرح کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور آپؑ کے اصحاب کے لئے یزید نے پانی تک بند کر دیا تھا، اسی طرح غاصب اسرائیلی اہلکاروں نے معصوم فلسطینیوں کا محاصرہ کر رکھا ہے ان پر خوراک، ادویات، پانی اور زندگی سے متعلق تمام تر اشیاء کو بند کر دیا گیا ہے۔ وقت کا یزید اسرائیل، معصوم فلسطینی بچوں کا قتل عام کر رہا ہے، خواتین اور بزرگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، نوجوانوں کو جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے، اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں پر بمباری کرکے تباہ و برباد کر دیا گیا ہے[2]۔

اسرائیل  دورِ حاضر کا شمر

  علامہ شہید مرتضی مطہری، اسرائیل کو عصر حاضر کا شمر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: علمائے کرام اور خطباء کو چاہئے کہ محراب اور منبر سے فلسطین کے مسائل سے عوام کو آگاہ کریں۔ یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں عوام کو آگاہی دیں، جیسے کہ امام رضا علیہ السلام فرماتےہیں: «وَ یخْبِرُهمْ بِما یرِدُ عَلَیهمْ مِنَ الْآفاقِ مِنَ الْاحْوالِ الَّتی فیها الْمَضَرَّةُ وَ الْمَنْفَعَةُ[3]»۔ لوگوں کو بتائیں کہ دور دراز  علاقوں میں کیا ہو رہا ہے، پردے کے پیچھےکیا ہو رہا ہے۔ امام رضا کا کلام سنجیدہ ہے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ مادیت پرستوں کی کیا سرگرمیاں ہیں؟، صیہونیت کی کیا سرگرمیاں ہیں؟ ان کے کیا منصوبے ہیں؟۔ ان کے ناپاک منصوبوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے، یہ چیزیں عوام کو بتانا واجب ہے۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر میں مسلمانوں کا کیا حال ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا حال ہے اور عالم اسلام کے لیے اسرائیل کتنا بڑا خطرہ ہے[4]۔

امام علیؑ اور امام حسینؑ فلسطین کا دفاع کرتے!

علامہ شہید مرتضیٰ مطہری رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ”اگر آج کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام موجود ہوتے تو وہ فلسطین کے لئے قیام کرتے”؛ شہید مطہری لکتھے ہیں: «اگر آج مولائے کائنات امیرالمومنین علی ابن ابیطالبؑ ہوتے تو کیا کرتے؟مسئلہ فلسطین پر خاموش رہتے؟! فلسطین کے مظلوموں کی حمایت نہ کرتے؟! کیا مولا علی علیہ السلام، امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام کو مظلوموں کی مدد کے لئے فلسطین روانہ نہ کرتے؟! وہ علی جو کوفے کی گلیوں میں غریبوں اور مسکینوں کو اپنے ہاتھ سے غذا فراہم کرتے تھے، کیا ان عالمی ظالموں کے خلاف اعلان جہاد نہ کرتے؟! یقیناً امیرالمومنین علی علیہ السلام ہر ظالم کے ظلم کے خلاف میدان میں آتے اور مظلوم کی حمایت میں اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے۔ جس طرح امام علیہ السلام نے فرمایا ہے”كُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً۔” امام علی علیہ السلام کے اس نورانی جملے سے واضح ہوتا ہے کہ ہم بے طرف نہیں رہ سکتے ہیں۔ مظلوم کی حمایت کرنی ہوگی۔

فلسطین کی حمایت میں ایرانی خواتین کا اجتماع

 شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے مرکزی دروازے کے سامنے فلسطینی خواتین کی حمایت میں ایرانی خواتین کا ایک اعظیم الشان اجتماع منعقد ہوا۔ جس میں فلسطین پر اسرائیلی غاصب فوج کی وحشیانہ بمباری کی پرزور مذمت کی گئی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھاکہ اپنے بچوں سمیت ماؤں، بہنوں کا یہ عظیم اجتماع، فلسطین میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو یہ بتانے کے لیے جمع ہوا ہے کہ ہمیں آپ کے اس بہادرانہ موقف پر فخر ہے اور ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم صیہونی غاصب حکومت کے مظالم پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہماری مائیں، بہنیں غزہ کے بے گھر اور شیر خوار بچوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی ہیں۔ فلسطینی بچوں کے درد سے ہماری روحیں تڑپ اٹھتی ہیں۔ ہماری مائیں اور بہنیں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو اپنا فرض سمجھتیں ہیں۔ ہم فلسطینیوں کو اللہ کا یہ وعدہ یاد دلانا چاہتے ہیں: وَ لا تَهِنُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنينَ[5]؛ ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو کہ تم ہی غالب رہوگے؛ بشرطیکہ تم مومن ہو۔ اللہ تعالی نے اس آیت میں ہرمظلوم سے وعدہ کیا ہے کہ شکست کا زیادہ احساس کرکے اپنے آپ کو حزن و ملال اور غم و اندوہ میں مبتلا نہ رکھو؛ اگر تم نے اپنے ایمان میں پختگی ثابت رکھی اور اس کے نتیجے میں صبر و تقویٰ کا دامن تھامے رکھا تو تم ہی غالب رہو گے۔ اللہ تعالی دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ[6]؛ اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا»۔ واضح رہے کہ مقام تکلیف میں اللہ پہل نہیں کرتا؛ بلکہ بندے کا پہل کرنا لازمی ہوتا ہے؛ چنانچہ اس آیت میں فرمایا: پہلے تم اللہ کی مدد کرو اور اپنے اندر اللہ کی نصرت کی قابلیت و اہلیت پیدا کرو تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور مدد کی نوعیت بھی یہ نہ ہو گی کہ اللہ خود دشمنوں کو نابود کر دے گا؛ بلکہ نصرت کی نوعیت یہ ہو گی کہ یہ کام بھی خود بندوں سے لیا جائے گا؛ یعنی ان کو ثابت قدمی دے کر۔ اللہ چاہے تو خود ہی دشمنوں کو نابود کر سکتا ہے؛ مگر اللہ اپنے بندوں کو آزمائش کے ذریعہ مرتبہ دینا چاہتا ہے۔

فلسطینی ماؤں کی مشکلات

شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے شعبہ مینجمنٹ اینڈ اکنامکس کی پروفیسر مرضیہ ثقفیان نے کہا: اللہ تعالی نے والدین کے بارے میں نصیحت کی ہے جیسے سورہ لقمان آیہ14 میں ارشاد ہے:« وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْناً عَلى‏ وَهْنٍ وَ فِصالُهُ في‏ عامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لي‏ وَ لِوالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصيرُ؛اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھایا اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے (نصیحت یہ کہ)میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو آخر میں) بازگشت میری طرف ہے»۔ اس آیت میں اللہ نے یہ بتایا ہے کہ ایک ماں کتنی تکلیفیں برداشت کرتی ہے۔ پروفیسر مرضیہ نے غزہ کی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا: صہیونی غاصب فوج کی وحشیانہ بمباری کے دوران کتنی مائیں اپنے بچوں سے محروم ہوئیں۔ غزہ شہر کے ہسپتالوں پر حملے کئے جارہے ہیں، فلسطینی خواتین وقت سے پہلے بچے جنم دیتی ہیں۔ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کےلئے مشینیں نہیں ہیں؛ اگرکہیں کوئی مشین ہے بھی تو چلانے کے لئے بجلی نہیں ہے۔ فلسطینی مائیں کن مشکلات میں زندگی گزار رہی ہیں اللہ ہی بہترجانتا ہے۔

فلسطینی ماؤں کے حوصلے بلند ہیں!

 آج فلسطین کربلا کا منظرپیش کررہا ہے۔ غزہ میں خوراک کی قلت کی وجہ سے مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے سے بھی معذور ہیں، ان کا دودھ خشک ہوچکا ہے، بازار تباہ ہوچکے ہیں، تمام راستے بند ہیں، بچوں کو پاوڈر تک نہیں مل رہا ہے۔ بہت سی مائیں یہ نہیں جانتیں کہ وہ اپنے لخت جگر کو سینے سے لگانے کا دوبارہ وقت بھی ملے گا یا نہیں!۔ بہت سی خواتین اب مائیں نہیں رہیں؛ کیونکہ ان کے بچے ہزاروں ٹن ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں، وہ اپنے بچوں کی لاشوں کا انتظار کررہی ہیں۔ انہوں نے  مزید کہا کہ غزہ کی ماؤں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے؛ اگرچہ وہ دل شکستہ ہیں اور ماتم کناں ہیں؛ لیکن ان کے حوصلے بلند ہیں۔

حق اور باطل کی پہچان

فلسطین اب حق و باطل کی پہچان کا مرکز بن چکا ہے، فلسطین پر ظلم کرنے والے سمجھ رہے کہ وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں؛ لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت تکوینی کے تحت کسی ایک قوم یا گروہ کو اتنی طاقت نہیں دیتا کہ وہ دوسری تمام قوموں سے جینے کا حق سلب کرلے۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی کی عبادت گاہ تک محفوظ نہ رہتی؛ بلکہ اللہ نے سب کو کسی نہ کسی طاقت کے ذریعے لگام دے رکھی ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: الَّذينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَ لَوْ لا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ وَ بِيَعٌ وَ صَلَواتٌ وَ مَساجِدُ يُذْكَرُ فيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثيراً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزيزٌ؛ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے ہیں، محض اس جرم میں کہ وہ یہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے روکے نہ رکھتا تو راہبوں کی کوٹھڑیوں اور گرجوں اور عبادت گاہوں اور مساجد کو جن میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم کر دیا جاتا اور اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کی مدد کرے گا، اللہ یقینا بڑا طاقتور اور بڑا غالب آنے والا ہے[7]۔

اسرائیلی جرائم پر خاموشی

 اسلامی ممالک اور خاص طور پر عرب حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم پر خاموشی، ان حکومتوں کے ستونوں کو ہلا کر رکھ دے گی کہ یہ خاموشی، ہر آزاد اور غیرت مند انسان کی چیخ و پکار کا باعث بنے گی۔ اب قومیں بیدار ہوچکی ہیں، خاموش حکمرانو! یہ جان لو! اللہ تعالی مومنوں سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ «وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ[8]؛ اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے»۔ انسانیت کو ایک ایسا نظام ملنے والا ہے جس میں اللہ کے نیک بندے ہی زمین کے وارث ہوں گے اور زمین عدل و انصاف سے اس طرح پر ہو جائے گی جس طرح یہ ظلم و جور سے پر ہو گئی تھی۔

اے ظالم کے خاموش ساتھیو! تم کل قیامت کے دن رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کس منہ سے جاوگے: رسول اکرم فرماتے ہیں: «مَنْ سَمِعَ رَجُلاً يُنادى يا لَلْمُسْلِمينْ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِم[9]؛ کوئی شخص کسی مظلوم کی آواز سنے کہ وہ مسلمانوں سے مدد طلب کر رہا ہے اور اس کی مدد نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے»۔ اس روایت کے مطابق مسلمان وہ ہے جو مظلوم کا مددگارہو۔ ایک روایت میں ہے: »مَنْ اَخَذَ لِلْمَظْلُومِ مِنَ الظَّالِمِ كانَ مَعى فى الجنّة مُصاحِباً[10]؛ جو ظالم سے مظلوم کا حق چھین لے گا وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: »يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِذا لَقيتُمُ الَّذينَ كَفَرُوا زَحْفاً فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ۔ وَ مَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِقِتالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلى‏ فِئَةٍ فَقَدْ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ مَأْواهُ جَهَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصيرُ؛ اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا اور جس نے اس روز اپنی پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو (کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ میدان جنگ سے جان بچانے کے لیے بھاگنا تمام دنیا کے حربی قوانین میں بڑا جرم ہے۔ اسلامی جنگوں (جہاد) میں تو دو کامیابیوں احدی الحسنیین میں سے ایک کامیابی ملتی ہے: فتح یا شہادت۔ جس سے فرار کا مطلب یہ ہے کہ بھاگنے والوں کا ان چیزوں پر ایمان نہیں ہے، اس لیے یہ جرم زیادہ سخت ہے[11]۔


[1]۔ عضو شورای علمای فلسطین: فلسطین، کربلای زمانه است/ خبرگذاری صدا و سیما. https://www.iribnews.ir/

[2]۔ سابقہ حوالہ۔

[3]۔ وسائل الشيعه / ج5، ص 40۔

[4]۔مرتضی مطهری/ 10 گفتار، صص279-277. منطق شهید مطهری در ماجرای فلسطین، روزنامه فرهیختگان.

[5]۔ آلعمران/139۔

[6]۔ محمد/7۔ ترجمہ/ شیخ محسن نجفی۔

[7]۔ حج/40۔ ترجمہ/شیخ محسن نجفی۔

[8]۔ انبیاء/105۔

[9]. وسائل الشیعة، ج۲۸ ص۳۸۵۔

[10]۔ محمدباقرمجلسی/ بحارالانوار، ج75۔ ص359۔

[11]۔ شیخ محسن نجفی/ تفسیر الکوثر.

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close