تازہ ترین خبریں
نیشابور؛ بی بی شطیطہ کی زیارت
پاکستان، ہندوستان اور افریقا سے آئے ہوئے زائرین نے بی بی شطیطہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔
تسکین نیوز کی رپورٹ کے مطابق، کاروان الزہرا کے زیراہتمام تشریف لانے والے زائرین نے صوبہ خراسان رضوی کے شہرنیشابور میں واقع بی بی شطیطہ کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔
جناب حجت الاسلام ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری نے زائرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی بی شطیطہ خراسان کی ایک مومنہ اور صالحہ خاتون تھیں۔ وہ اہل بیت اطہارعلیہم السلام کی عاشق تھیں۔
حجت الاسلام غلام مرتضی جعفری نے کہا کہ جب خراسان سے ابوجعفرمحمدبن علی نامی شخص نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا فیصلہ کیا تو خراسان کے مومنین نے امام کی خدمت میں کچھ ھدایا اور واجبات؛ جیسے خمس، زکات وغیرہ بھیج دیا، ان میں سے ایک بی بی شطیطہ تھیں، انہوں نے نہایت مختصرہدیہ امام کی خدمت میں بھیجا تھا۔
بعض روایات میں ملتا ہے کہ خراسان کے لوگوں نے اپنی جانب سے محمد بن علی کو امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں تحائف و ہدایہ بھیجنے اور کچھ مسائل کے حل کے لئے نمائندہ کے طور پر منتخب کیا۔ لوگوں نے تیس ہزار دینار، پچاس ہزار درہم اور کپڑا وغیرہ اکھٹا کیا۔ جب محمد بن علی عازمِ سفر ہونے لگے تو بی بی شطیطہ ایک درہمِ اور ایک کپڑے کا ٹکڑا لے کرحاضر ہوئیں جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے تیار کیا تھا۔ کہنے لگیں “ان اللہ لا یستحیی عن الحق”؛ یعنی “اگرچہ میرا تحفہ قیمت میں انتہائی قلیل ہے، مگر بے شک خدا حق سے حیا نہیں کرتا”۔ محمد بن علی نے اس ایک درہم کو موڑ کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔
پھر خراسان کے اکابرین آگے بڑھے اور کاغذات کا ایک دستہ اپنے نمائندے کو تھمایا۔ دستے میں ستر (70) اوراق تھے۔ ہر ورق پر ایک سوال تحریر تھا اور باقی کا صفحہ جواب لکھنے کی غرض سے خالی چھوڑا گیا تھا۔ ان اوراق کو ایک لفافے میں بند کر کے تین تہوں میں کس کرمہربھی کیا ہوا تھا۔
محمد بن علی کہتے ہیں جب میں نے امام کی خدمت میں حاضرہوکرامانت پیش کی تو امام نے خراسان کے بھیجے ہوئے تمام ہدایا یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اس میں حرام مال مخلوط ہے۔ جب میں باہرنکلنے لگا تو امام نے فرمایا محمد، شطیطہ کا بھیجا ہوا ایک درہم اور کپڑا دے کر جاو؛ حالانکہ میں نے امام کی خدمت میں اس کا ذکر تک نہیں کیا تھا، مجھے لگا تھا کہ جب تمام مومنین کا ہدیہ قبول نہیں ہوا ہے تو شطیطہ کا ایک درہم بھی قبول نہیں ہوگا، یہ سوچ کر میں نکل رہا تھا، لیکن امام نے روک کر مجھ سے تحفہ لیا۔
امام نے فرمایا میں حجت خدا اور ولی اللہ ہوں، تمھارے تمام سوالات کے مفصل جوابات میں نے دے دئے ہیں جو تم کاغذوں کے پلندے میں لائے ہواور ہاں وہ سامان بھی لے آؤ اور وہ درہم بھی لاؤ جو شطیطہ نے بھجوایا ہے۔ محمد بن علی بیان کرتے ہیں کہ مولا نے میری اس جیب تک کی نشاندہی فرمائی، جس میں وہ درہم رکھا ہوا تھا۔ امام نے فرمایا کہ شطیطہ کا بھیجا ہوا وہ پارچہ بھی لاؤ جو تم نے بلخ کے دو بھائیوں کی جانب سے دئے گئے کپڑے کے تھان کے درمیان میں رکھا ہوا ہے۔
محمد بن علی کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام کی یہ گفتگو سن کر میری عقل دنگ رہ گئی اور میں انگشت بدندان کھڑا ہو گیا۔ امام علیہ السلام نے چالیس درہم اور ایک کپڑا دیا اور کہا یہ میری طرف سے بی بی شطیطہ کو دے دینا اور ان سے کہنا یہ ھدیہ ملنے کے انیس دن بعد تمہارا انتقال ہوگا۔ شطیطہ سے کہنا سولہ (16) اپنی ذات پر خرچ کرلے اور باقی چوبیس (24) کو صدقہ کردے۔ شطیطہ کو یہ خبر بھی پہنچا دینا کہ اسکا جنازہ ہم خود آکر پڑھائیں گے۔