اسلامتازہ ترین خبریںپاکستان

ملک میں سیاسی عدم استحکام اور پسماندگی کے وجوہات

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ترقی میں اگرکوئی اہم رکاوٹ ہے تو وہ اس ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام ہے؛ خودغرض اور متکبر سیاستدان اس ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کے بجائے پسماندگی کی طرف لےجاتے رہے ہیں۔ اپنی اقتدار کی خاطرکل کے دشمن، آج کے دوست اور کل کے دوست، آج کے دشمن دکھائی دے رہے ہیں۔

تحریر: غلام مرتضی جعفری

وطن عزیزپاکستان پوری طول تاریخ میں سیاسی عدم استحکام کا شکار رہاہے جس کے  مختلف اسباب اور وجوہات ہیں:

عدالت اور انصاف کا فقدان!

ہمارے وطن عزیزکو مخلص، دلسوز اور دیندارسیاستدان کم ہی نصیب ہوئے ہیں؛ ملکی تاریخ میں اسلام اور شریعت کے نفاذ کا نعرہ لگانے والے سیاستدانوں کی تعداد کم نہیں ہے؛ لیکن نعروں کے ساتھ ساتھ عملی جامہ پہنانےوالوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہی رہی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ملک میں طبقاتی نظام کو فروغ ملا ہے۔ امیر، امیرتر اور غریب، غریب ترہوتا جارہاہے؛ جس کی اصل وجہ حکم الہی سے روگردانی ہے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: «۔۔۔ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعِ الْهَوى‏ فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبيلِ اللَّهِ إِنَّ الَّذينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ شَديدٌ بِما نَسُوا يَوْمَ الْحِسابِ[1]؛ ۔۔۔ لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرو، وہ آپ کو اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی، جو اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے یوم حساب فراموش کرنے پر یقینا سخت عذاب ہوگا»۔

زمین پر حکمرانی ملنے سے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ لوگوں کے درمیان حق اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے؛ لہذا اس آیہ شریفہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کے پسندیدہ حکمران وہ ہوتے ہیں جو زمین میں اللہ کی شریعت کا نفاذ کریں اور شریعت کے نفاذ میں سرفہرست، لوگوں میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے[2]۔

حکم الہی سے بے خبر، گمراہ اور خودغرض سیاستدان اپنے ملک اور شہریوں کے حقوق کی قدر نہیں کرتے، وہ عدل و انصاف کا نعرہ محض اپنی نفسانی خواہشات، من مانی اور جبر کے حصول کے لیے لگاتے ہیں؛ حتی کہ اپنے مذموم مقاصد تک پہنچنے کے لیے دین اور انسانیت کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت میں ایسے افراد کا قرآن و حدیث اور انسانیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے؛ یعنی انہوں نے خدا کے دین کو سمجھا ہے نہ انسانی حقوق کو، وہ دونوں کی روحوں سے اجنبی ہیں اور وہ صرف اپنے مادی مفادات اور چند دنوں کی کرسی اور شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں؛ خدا کے بجائے اپنے دل کی پیروی کرتے ہیں؛ یہی سیاستدان ہیں جو ملک میں انصاف فراہم کرنے والے اداروں کوبھی داغدار کرکے متنازعہ بناتے ہیں۔ جس ملک میں انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے ہی شہری خائف ہوجائیں تو وہ ملک زوال کا شکار نہ ہو تو اور کیا ہوگا۔

جب تک ملک میں قانون اور انصاف رائج نہ ہو تب تک سیاسی استحکام آئےگا نہ ملک ترقی کرے گا۔

فرعون صفت ذہنیت!

  فرعون صفت گمراہ،متکبر سیاستدان اور حکمران روئے زمین پر حق کا بول بالا نہیں چاہتے وہ اپنی مرضی کے خلاف کسی بھی حرکت کو ناقابل معافی جرم سمجھتے ہیں؛ لہذا ان کا واحد سہارا ان کی مادی طاقت ہے اور یہی دنیا پرستی کی طرف رجحان کی اصل بنیاد ہے اس مادیت نے نہ صرف خود سیاستدان کو گمراہ کیا ہے؛ بلکہ پورے معاشرے کو وحشت، مایوسی، افسردگی اور ذہنی تناو میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔

فرعون صفت سیاست دان مادی طاقت کے ذرئعے عام شہریوں کو گمراہ کرتے ہیں؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: .«وَ قالُوا رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا وَ كُبَراءَنا فَأَضَلُّونَا السَّبيلاَ[3]؛ اور وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی پس انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا»۔

مولائےکائنات امام علیعلیہ‌السلام فرماتے ہیں: «··· و لكنَّني آسى أنْ يَليَ أمرَ هذهِ الاُمّةِ سُفَهاؤها و فُجّارُها، فَيتّخِذوا مالَ اللّه ِدُوَلاً، و عِبادَهُ خَوَلاً، و الصّالِحينَ حَرْبا، و الفاسِقينَ حِزْبا[4]؛  ۔۔۔ لیکن دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ احمق اور بدکار لوگ اس امت کے امر(حکومت) اپنے ہاتھ میں لیں گے، اللہ کے مال پر قبضہ کرکے اس کے بندوں کو غلام بنائیں گے، نیک لوگوں سے لڑیں گے، مجرموں اور فاسقوں کو اپنے گروہ میں شامل کریں گے۔

اس حدیث شریف سے واضح ہوتا ہے کہ فرعون صفت بدکردار اور گمراہ حکمران شہریوں کی عزت و آبرو کو پامال کرتے ہیں؛ تاکہ دیندار اور محب وطن شہری ان کے سامنے بات کرنے کی جرئت تک نہ کرسکیں؛ لہٰذا ایسا معاشرہ جس میں نادان، فاسق اورفرعون صفت افراد، امت کے معاملات پر قبضہ کرلیں تو وہ معاشرہ عدم استحکام اور پسماندگی کا شکار ہوتا ہے۔

البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی ملک کا نظام بغیرحکومت کے نہیں چل سکتا؛ جب حکومت نہیں ہوگی تو نظام نہیں ہوگا اور جب نظام نہیں ہوگا تو(ترقی تو دور کی بات) ملک خلفشار کا شکارہوکرمختلف حصوں میں تقسیم درتقسیم ہوگا؛ لہذا کسی بھی معاشرے کی ترقی کی اصل بنیاد اخلاقی اصولوں سے سرشار مقتدرحکومت ہی ہے؛ حکومت شہریوں کی نفسیات پر اس قدر اثرانداز ہوتی ہے کہ شہری حکومتی کردار کی وجہ سے ہی جہالت سے تہذیب اور تہذیب سے جہالت کی طرف جاتے ہیں۔

 انسانی تاریخ گواہ ہے کہ حکومتوں نے ہی صلاحیتوں اور خوشیوں کے پھلنے پھولنے کا میدان، اور انسانوں کے لیے بے اطمینانی اور مایوسی سے منہ موڑنے کا سب سے موزوں مواقع فراہم کیا ہے؛ اگرکوئی معاشرہ زوال اور بدبختی کا شکار ہوا ہے تو وہ بھی حکومتی ناقص اور خودغرض کردار کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔

بدعنوانی!

 بدعنوان حکمران نہ صرف انفرادی اور معاشرتی گمراہی، بدامنی اور بدحالی کا باعث بنتے ہیں؛ بلکہ وہ مختلف قسم کے آفات و بلیات کا سبب بھی بنتے ہیں؛ جیسے کہ پیغمبر اکرم(صلی الله علیه وآله و سلم) فرماتے ہیں: «إِذَا سَادَ اَلْقَوْمَ فَاسِقُهُمْ وَ كَانَ زَعِيمُ اَلْقَوْمِ أَذَلَّهُمْ وَ أُكْرِمَ اَلرَّجُلُ اَلْفَاسِقُ فَلْيُنْتَظَرِ اَلْبَلاَءُ[5]؛ جب بدعنوان اور فاسق عوام کا سرور و سردار بن جائے، ذلیل و حقیر قوم کا زعیم بن جائے اور فاسق انسان کو تکریم و عزت دی جائے تو کسی بڑی آفت اور بلا کے منتظررہنا چاہئے».

بدقسمتی سے ہمارے ملک کے ایوانوں پر بدعنوانوں کا ہی قبضہ ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن میں موجود تمام سیاستدان ایک دوسرے کو نہ صرف بدعنوان سمجھتے ہیں؛ بلکہ ثبوت کے طور پردلائل بھی پیش کرتےہیں۔

جب قوم کا نمائندہ ہی بدعنوان اور بدعہد ہوتو۔۔۔۔ دشمن عناصر کو راستہ مل جاتاہے اور قوم کو مختلف گروہوں میں بانٹ کراپنے ناپاک منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کی ایک وجہ بھی بدعنوانی بدعہدی ہی رہی، اگراس تنظیم کے کارکن بدعنوانی اور بدعہدی نہ کرتے، چند ٹکوں کے عوض خود فروشی نہ کرتے تو حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرلیتی اور دنیا بھرکےلئے ایک اچھا میسج جاتا ملک کا وقار بلند ہوتا اور یوں ملک کا تماشا نہ بنتا۔

غیرملکی مداخلت!

 ملک عزیز میں اکثرسیاسی پارٹیاں اور حکمراں طبقہ اس بات کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کی پسماندگی اور سیاسی عدم استحکام کے اسباب میں سے ایک، غیرملکی مداخلت ہے۔ موجودہ سیاستدان بھی ایک دوسرے پر غیرملکی نوکر ہونےکا الزامات لگاتے رہے ہیں؛ جیسے کہ حالیہ سیاسی کشمکش میں سابق وزیراعظم اورتحریک انصاف کے رہنما نے جو شعار اپنایا ہے یہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیرملکی خاص کر امریکا جیسی شیطانی قوتوں کو ملک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کرنے کا راستہ کون مہیا کررہاہے؟؟؟؟ یہی بدعنوان اور بدعہد سیاستدان ہی ہیں جو دشمن کو مداخلت کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔!!!

غیبت، تہمت اور الزام تراشیاں!

جیسے کہ آج کل وطن عزیزپاکستان میں تمام حکومتی و اپوزیشن سیاستدان اپنے اپنے مفادات کے لیے اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں اور ایک دوسرے پرقسم قسم کی الزام تراشیاں کررہے ہیں اس سے ہرمحب وطن اور غیرتمند شہری خون کے آنسو رو رہا ہے۔ دنیا بھرمیں پاکستانی روشن چہرہ مسخ ہورہا ہے۔

ہمارے سیاستدان کوئی ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا نعرہ لگاتا ہے تو کوئی نظام مصطفی (ص) رائج کرنے کا کہہ رہا ہے؛ جبکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب کے سب اسلام کے ابتدائی اصول سے بھی بے خبر ہیں؛ اسلام غیبت اور تہمت کی اجازت نہیں دیتا جیسے کہ ارشاد باری تعالی ہے: «وَلَا یغْتَب بَّعْضُکم بَعْضًا أَیحِبُّ أَحَدُکمْ أَن یأْکلَ لَحْمَ أَخِیهِ مَیتًا۔۔۔اور ایک دوسرے کی غیبت مت کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔۔۔»۔

غیبت انسان کے روح و روان کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی ماحول کو بھی آلودہ کرتی ہے اور آپس میں نفرت اور دشمنی کا باعث بنتی ہے، ذہنی سکون ختم کر دیتی ہے اور گناہ پھیل جاتا ہے.

عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سیاست میں اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ جو کل ایک دوسرے کو چور، ڈاکو کہہ رہے تھے اور ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے، عمران خان کواقتدار سے ہٹانے کےلئے شیر و شکر ہوگئے اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ سرے سےان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں!!!۔

اس شیطانی چال کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو سرنگوں تو کردیا؛ لیکن وہ وقت دور نہیں جو ایک بارپھرایک دوسرے پرلعن طعن کرتے ہوئے سڑکوں پرآئیں گے؛ کیوںکہ یہ سب غیر فطری سیاسی اتحادی پارٹیاں ہیں جو نفسانی خواہشات اور مادی مفادات کے لیے اکٹھے ہوئی ہیں۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما اور اراکین ایک دوسرے پر ایسے ہی الزام تراشیاں اور ملک لوٹنے کے الزام لگاتے رہے ہیں اور آج بھی یہی کھیل پھر سے ایک نئے انداز میں جاری ہے۔

چور، ڈاکو کے نعرے!

چورکوچور نہیں کہہ سکتے!

عمران خان صاحب کی حکومت سرنگوں ہونے کی علتوں میں سے ایک علت دشمن سازی اور اسلامی اصولوں سے عدم واقفیت ہے۔ عمران خان اور ان کی پوری ٹیم نے ہرجلسے اور ہرمحفل میں اخلاقیات کی دھجیاں اڑائیں۔ حزب اختلاف کے اکابرین کو کھل کرچور اورڈاکو کہتے رہے جو کہ آج بھی جاری ہے؛جس سے ملک میں ایک بے چینی کی فضا قائم ہوئی اور مخالف پارٹیوں کو ہمدرد ملتے گئے۔ دین مبین اسلام ایک ضابطہ حیات کا نام ہے،اسلام نے زندگی کے ہرپہلو کےلئے قوانین وضع کئے ہیں اور قیامت تک کارساز ہیں۔ اسلامی قوانین کے مطابق چور کی سزا، سرعام چور کہنا نہیں ہے!؛ بلکہ اسلام نے چور کو چور کہنے سے منع کیا ہے اور غیبت قرار دیکر اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے[6]۔ اسلام نے چور کی سزا معین کی ہے جیسے کہ ارشاد باری تعالی ہے: «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللهِ ۗ وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ[7]؛ چوری کرنے والا مرد اور عورت پس دونوں ہی کے ہاتھ کاٹے جائیں گے جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے اس کے بدلہ میں، یہ سزا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی ہے اور خداوند عالم مقتدر اور صاحب حکمت ہے»۔

چور کو سزا دینے کے بجائے سرعام چورکہتے رہیں گے تو فائدے کے بجائے نقصان ہوگا، شہریوں کے ذہنوں میں چوری کے متعلق جو نفرت اور کراہت ہے وہ ختم ہوجائے گی اور ہربچہ یہی سوچے گا کہ چوری کرنا کوئی بری بات نہیں ہے؛ اگرہمارے اتنے بڑے بزرگ، سیاستدان لوٹ مار کررہے ہیں تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔۔۔ !؛ لہذا عمران خان سمیت ہرسیاستدان کو چاہئے کہ اگرکسی نے ملک اور بیت المال کے ساتھ خیانت کی ہے تو اس کی سزا دلوائی جائے۔ عدالتوں کو مستحکم بنایا جائے اور عدالت کے ذریعےسے ہی قرآنی اصولوں کے مطابق ایسے خیانتکاروں کو کیفرکردارتک پہنچایا جائے۔

سیاستدانوں کا خرید و فروش!

 ملکی سیاست کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ سیاست دان ایسے خرید و فروش ہوتےرہے ہیں جیسے منڈی میں بھاؤ تاؤ ہو رہا ہو۔ جو شخص مادی مفادات کے حصول کے لئے حلف برداری کی دھجیاں اڑاتا ہے ایسے شخص سے ملک وقوم کے مفادات کی پاسداری کا توقع رکھنا فضول ہے! ایسے سیاستدان جو محض چند مہینوں کی کرسی کے لئے ضمیرفروشی کرسکتے ہیں تو وہ ملک وقوم کے خلاف کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ایسے ضمیرفروش سیاستدانوں کا سدباب کرنا ضروری ہے۔

عوامی ذمہ داری!

  عوام ہیں کہ وہ مفاد پرست سیاستدانوں کے اس گندے کھیل میں خوامخواہ رنگیدے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہہ ہی نہیں کہ موجودہ سیاستدانوں نے قوم کو بری طرح مایوس کیا ہے؛ جس کی وجہ سے دنیا بھرمیں پاکستان کا روشن چہرہ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی اورمعاشی عدم استحکام عروج پر ہے؛ لہذا اس وقت عوام پر یہ فرض ہے کہ اپنے آپ کو ان برے حالات سے نکالنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں: تَعاوَنُوا عَلَي البِرِّ و التَّقوي و ولا تَعاوَنُوا عَلَي الإثمِ و العُدوانِ[8] اور نیک ہدایت اور نصیحت کرتے رہیں؛ جیسے کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”فعلیکمُ بالتّناصحِ فی ذالک و حسنِ التعاون علیہ۔۔۔۔۔ مِن واجِبِ حُقُوقِ اللَّهِ عَلَي العِبادِ النَّصيحَةُ بِمَبلَغِ جُهدِهِم وَ التَّعاوُنُ عَلي إقامَةِ الحَقِّ بَينَهُم [9]۔ تواس وقت تم پرلازم ہے کہ تم اس حق کی ادائیگی میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور ایک دوسرے کی بہترمدد کرتے رہو؛ اللہ نے اپنے بندوں پر یہ حق واجب قرار دیا ہے کہ وہ مقدور بھرایک دوسرے کو نصیحت اور ہدایت کریں، اپنے درمیان حق کو قائم کرنے کےلیے ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں۔

 ارشاد باری تعالی ہے: وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا[10]؛ (اے رسول(ص)!) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا کے طلبگار ہیں آپ ان کی معیت پر صبر کریں۔ اور دنیا کی زینت کے طلبگار ہوتے ہوئے ان کی طرف سے آپ کی آنکھیں نہ پھر جائیں۔ اور جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل چھوڑ رکھا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے اس کی اطاعت نہ کریں۔

خلاصہ کلام؛ صرف ایسے سیاستدانوں کا ساتھ دیں جو خواہشات نفسانی کی پیروی نہیں کرتے ہیں اورصبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا کے طلبگار ہیں۔

جاری ہے۔


[1]. ص،26.

[2] شیخ محسن نجفی، الکوثر فی تفسیرالقران جلد 7 صفحہ 365۔

[3]. احزاب،67.

[4]. نهج البلاغة، نامه 62.

[5]. حسن بن علی حرانی ابن شعبه، تحف العقول، پیشین، ج،۱ ص۳۶ . ‌محمد باقر مجلسی، بحار الأنوار،  ج،۷۴ ،ص،۱۳۹.

[6]۔ وَلَا یغْتَب بَّعْضُکم بَعْضًا أَیحِبُّ أَحَدُکمْ أَن یأْکلَ لَحْمَ أَخِیهِ مَیتًا۔۔۔

[7]۔ مائدہ:۳۸۔

[8]۔ مائده ، آيه ۲ .

[9] نهج البلاغه ، خطبه ۲۱۶ .

[10]۔ کہف،۲۸۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close