تازہ ترین خبریںدنیا

طالبان رہنما ملاعمرپاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی فوجی کیمپ کے قریب روپوش تھے، غیرملی مصنف کا انکشاف


طالبان کے بانی سمجھے جانے والے رہنما ملا محمد عمر کے بارے میں ایک نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب رہائش پذیر تھے۔
“سیکرٹ لائف آف ملا عمر” نامی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان کے بانی ملاعمر پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر مقیم تھے۔
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی بیٹے ڈیم کی نئی کتاب ‘دس سیکریٹ لائف آف ملا عمر’ میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکی حکام یہ سمجھتے رہے تھے کہ وہ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔
صحافی بیٹے ڈیم نے لکھا ہے کہ ملا عمر افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے ایک اہم فوجی اڈے سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے۔ وہ امریکی فوجی اڈے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے فوجی تعینات تھے۔
بیٹے ڈیم نے اپنی کتاب کی تحقیق میں پانچ سال صرف کیے، جس کے دوران انھوں نے متعدد طالبان رہنماؤں اور ممبران سے گفتگو کی، انھوں نے جبار عمری سے بھی گفتگو کی، جنھوں نے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملا عمر کے باڈی گارڈ کے طور پر خدمت انجام دی جب وہ زیر زمین چلے گئے۔
صحافی بیٹے ڈیم لکھتی ہیں کہ جبار عمری کے مطابق انھوں نے ملا عمر کو 2013 تک پناہ دی تھی، جب طالبان رہنما بیماری کے سبب انتقال کر گئے۔
کتاب کے مطابق امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے ملا عمر کو امریکی اڈے کے قریب خفیہ کمروں میں پناہ دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ ملا عمر کے سر کی قیمت امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔
صحافی نے اپنی کتاب میں دعوی کیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے۔
اس کے بعد انہوں ایک دوسرے مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں سے صرف تین میل کے فاصلے پر ایک اور امریکی اڈہ تھا جہاں 1000 فوجیوں کا قیام تھا۔
صحافی بیٹے ڈیم کہ مطابق انھیں بتایا گیا کہ ملا عمر خبروں کے حصول کے لیے بی بی سی کی پشتو سروس کا استعمال کیا کرتے تھے۔
اس کتاب میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان کی جانب سے کیے گئے متعدد دعووں کے برعکس، ملاعمر اپنی تنظیم کو اپنی جائے پناہ سے چلانے میں کامیاب نہ تھے، البتہ یہ کہا گیا کہ انھی کی منظوری سے قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے دفتر کا قیام ہوا۔
خیال رہے گذشتہ ماہ ڈچ زبان میں شائع ہونے والی کتاب بہت جلد اب انگریزی زبان میں بھی شائع ہونے والی ہے۔

Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close