تازہ ترین خبریںدنیا

کل کا شمراورآج کا عزادار!

 

عشرہ محرم الحرام کے دوران بھارتی وزیراعظم ایک مجلس عزا میں شریک ہوئے جس کا دنیا بھر میں چرچا ہوا اور بہت سے عزاداروں نے ان کی خوب ستائش بھی کی اسی دوران اس ملک میں ایک ایسا خطہ بھی تھا جہاں عزاداران امام حسین علیہ السلام کو وحشیانہ طریقے سے زد کوب کیا گیا۔

بھارتی وزیراعظم مودی کی ایک مجلس عزا میں شرکت پر بعض لوگ خوش ہوکر انہیں خراج تحسین پیش کررہے تھے تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں عزاداران امام حسین علیہ السلام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے۔

کشمیر نیوز نے مودی سرکار کی اس دوگلی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ”کل کا شمر آج کی عزاداری میں شامل”

ہوگیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں عزاداران امام حسین علیہ السلام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم مودی اپنے پیروکاروں کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن عاشقان امام حسین ع کو نہیں۔

واضح رہے کہ عشرہ محرم الحرام کے دوران مقبوضہ کشمیرمیں تعینیات بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستوں نے گرمائی صدر مقام سرینگر کے کئی علاقوں میں کرفیو جیسی حفاظتی پابندیاں عائد کیں اورعزاداران امام حسین علیہ السلام  کو یومِ عاشورا کے موقعے پر شہر کے روایتی راستوں سے ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی۔

عزاداروں کی بڑی تعداد نے جب سرینگر کے ان علاقوں میں نمودار ہو کر تعزیتی جلوس نکالنے کی کوشش کی تو پولیس نے ان کے خلاف طاقت استعمال کی اور درجنوں عزاداروں کو حراست میں لے لیا اور زد کوب کیا۔

سرکاری  فوجی دستوں نے سرینگر میں نکالے جانے والے روایتی ماتمی جلوس پر انتظامیہ کی طرف سے ایک مرتبہ پھر پابندی لگائے جانے کے بعد سرینگر کے کئی علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کیں۔

یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 30 سال پہلے مسلح تحریک آزادی کے آغاز پر حکومت نے محرم الحرام کے دوران سرینگر میں روایتی راستوں سے ماتمی جلوس نکالنے پر پابندی عائد کی تھی جو ہنوز جاری ہے۔

کشمیریوں کا کہنا ہے کہ مودی نے مجلس عزا میں شریک ہوکر رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کی،عزاداروں کا کہنا ہے بھارت میں بسنے والے تمام مسلمان مودی کے کالے کرتوتوں سے بخوبی واقف ہیں، ۲۰۰۲ میں گجرات میں جو کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں ہونے والے یہ فرقہ وارانہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب گودھرا ریل آتشزدگی سے 59 انتہاپسند ہندو ہلاک ہو گئے۔ اس کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا اور گجرات میں مسلمانوں کے خلاف یہ فسادات گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت پر کیے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ مسلمانوں کی نسل کشی تھی۔ اس میں تقریباً 2500 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی اورہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔

ان فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی کردار ادا نہ کی؛ بلکہ گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلی مودی نے اس قتل و غارت کی سرپرستی کی۔

اس وقت کی بھارت کی وفاقی حکومت، جو بی۔ جے۔ پی۔ پارٹی کی تھی، اس نے بھی گجرات میں فسادات روکنے کی کوشش نہیں کی۔

واضح رہے کہ کئی سال گزرنے کے باجود اب تک کسی ہندو کے خلاف عدالتی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔

 

 

 

 

Tags
Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close