تازہ ترین خبریں

امام علی (ع) کے زندگی “بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت” +تصاویر

دنیا میں یہ مقام اللہ نے صرف حضرت علیؑ کو عطا کیا ہے کہ 13 رجب کے دن آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی جبکہ 21 رمضان کو شہادت بھی خانہ خدا مسجد کوفہ میں ہوئی اور یوں ولادت سے شہادت تک علیؑ کا ہر لمحہ رضائے الٰہی اور خوشنودی پرودگار کے لئے بسر ہوا۔ حتی کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی نے بھی امام علیؑ کی طرز حمکرانی کو آئیڈیل قرار دے کر بارہ سال پہلے اپنی رپورٹ میں عرب ڈکٹیٹرز کو اپنا قبلہ درست کرنے کا کہا تھا۔ جس کا لنک مضمون کے نیچے دیا جا رہا ہے۔ کسی شاعر نے جشن مولود کعبہ کے بارے میں کیا خوب کہا ہے۔

میسر نہیں کسی کو یہ سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

نام مبارک:

پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کا نام علی رکھا۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

القاب:

آپ کے مشہور القاب امیر المومنین، مرتضی، اسداللہ، یداللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔

کنيت:

حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابوالحسن و ابو تراب ہیں۔

والدين:

حضرت علی (ع) ھاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والده دونوں ہاشمی ہیں۔ آپ کے والد ابوطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمه بنت اسد بن ہاشم ہیں۔ ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشھور و معروف تھا۔ جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔

ولادت:

جب حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس آئیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا، پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراہیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں۔ پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما۔ ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار، عباس بن عبدالمطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ہوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوباره مل گئی۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رہیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ہوئی۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاہا تو دیوار دوباره شگافتہ ہوئی، آپ کعبه سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا:” میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے که اس بچے کا نام “علی” رکھنا۔

بچپن اور تربيت:

حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آ گئے کیونکہ جب آپ تین سال کے تھے اس وقت مکہ میں بہت سخت قحط پڑا، جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کا بہت سخت سامنا کرنا پڑا۔ رسول الله (ص) نے اپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت اپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ہو جائے۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی (ع) کی کفالت اپنے ذمہ لے لی۔ حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آ گئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرنظر ہونے لگی۔ آپ نے انتہائی محبت اور توجہ سے اپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اور اخلاقی تربیت میں صرف کیا۔ کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھر اس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کا فیض تربیت، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی کیا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائی۔ آپ ہمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رہتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شہر سے باہر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے۔

پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور حضرت علی (ع):

جب حضرت محمد مصطفے (ص) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر اپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئی، اسی کو بعثت کہتے ہیں۔ حضرت محمد (ص) پر وحی الٰہی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعد کی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالآخر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور رسول الله (ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا۔ اس دوران پیغمبر اکرم (ص) کی الٰھی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے تنہا حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول الله (ص) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ہمدرد و ہمدم، تنھا حضرت علی (ع) تھے۔ اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہو؟

اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا: ” اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار اور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا، اے میرے خاندان والو! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمہارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے۔ علی (ع) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ (ع) رسول الله (ص) پر ایمان لانے والے سب سے پہلے شخص ہیں۔ اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں: ”بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ علی بن ابی طالب (ع) وه پہلے شخص ہیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ص) کی تصدیق کی”۔

رسول اسلام کی بعثت، زمانہ، ماحول، شہر اور اپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ بس ایک علی علیہ السّلام تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کا اقرار کیا۔ دوسری ذات جناب خدیجۃ الکبریٰ کی تھی، جنہوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام کا شرف حاصل کیا۔ پیغمبر کا دعوائے رسالت کرنا تھا کہ مکہ کا ہر آدمی رسول کا دشمن نظر آنے لگا۔ وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اور امانتداری کا دم بھرتے تھے آج آپ کو (معاذ الله (دیوانہ، جادوگر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔ اللہ کے رسول کے راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے، انہیں پتھر مارے جاتے اور ان کے سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا۔ اس مصیبت کے وقت میں رسول کے شریک صرف حضرت علی علیہ السّلام تھے، جو بھائی کا ساتھ دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہارتے تھے۔ وہ ہمیشہ محبت و وفاداری کا دم بھرتے رہے اور ہر موقع پر رسول کے سینہ سپر رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب مخالف گروہ نے انتہائی سختی کے ساتھ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر اور ان کے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے۔ حضرت ابو طالب علیہ السّلام نے اپنے تمام ساتھیوں کو حضرت محمد مصطفےٰ سمیت ایک پہاڑ کے دامن میں محفوظ قلعہ میں بند کر دیا۔ وہاں پر تین برس تک قید و بند کی زندگی بسر کرنی پڑی کیوںکہ اس دوران ہر رات یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے۔ اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے، بلکہ کبھی رسول کے بستر پر جعفر کو اور جعفر کے بستر پر رسول کو کبھی عقیل کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر عقیل کو کبھی علی کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر علی علیہ السّلام کو لٹاتے رہتے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کا پتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئی بیٹا قتل ہو جائے مگر رسول کا بال بیکا نہ ہونے پائے۔ اس طرح علی علیہ السّلام بچپن سے ہی فداکاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے۔

رسول کی ہجرت اور حضرت علی (ع):

حضرت علی (ع) کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ ھے کہ جب شب ھجرت مشرک دشمنوں نے رسول الله (ص) کے قتل کی سازش رچی تو آپ (ع) نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول الله (ص) کے بستر پر سو کر انکی سازش کو ناکام کر دیا۔ حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کرلیا۔ دشمنوں نے یہ سازش سوچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کر ڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے جاں نثار بھائی علی علیہ السّلام کو بلا کر اس سازش کے بارے میں اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان اس طرح بچ سکتی ہے اگر آج رات آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہو جاؤں۔ کوئی دوسرا ہوتا تو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا، مگر علی علیہ السّلام نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ سے رسول کی جان کی حفاظت ہو گی، خدا کا شکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کا فدیہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہی ہوا کہ رسالت مآب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے اور علی بن ابی طالب علیہ السّلام رسول کے بستر پر سوئے۔ چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کو گھیرے ہوئے تھے۔ بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہوئی اور سب کے سب گھر میں داخل ہو کر رسالت مآب کو شہید کر ڈالیں۔ علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتھ بستر پر آرام کرتے رہے اور اپنی جان کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ جب دشمنوں کو صبح کے وقت یہ معلوم ہوا کہ محمد نہیں ہیں تو انہوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کہاں گئے ہیں مگر علی علیہ السّلام نے بڑے بہادرانہ انداز میں یہ بتانے سے قطعی طور پر انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسول الله (ص) مکہ سے کافی دور تک بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے گئے۔ علی علیہ السّلام تین روز تک مکہ میں رہے۔ جن لوگوں کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کےخواتین بیت رسالت کو اپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ کئی روز تک رات دن پیدل چلے، اس حالت میں رسول کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہہ رہا تھا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھا اور جس وفاداری، ہمت اور دلیری سے علی علیہ السّلام نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

شادی:

جب رسول اکرم (ص) ہجرت کرکے مدینے گئے تو پیغمبر (ص) اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا السّلام اللہ علیہا کی شادی کی فکر میں تھے کیوں کہ رسول (ص) اپنی بیٹی سے بہت محبت کر تے تھے اور انہیں اتنی عزت دیتے تھے کہ جب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان کے پاس تشریف لاتی تھیں تو رسول للہ (ص) ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس لئے ہر شخص رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتھ منسوب ہونے کا شرف حاصل کرنے کی تمنا میں تھا۔ کچھ لوگوں نے ہمت کر کے رسول کو پیغام بھی دیا مگر حضرت نے سب کی خواہشوں کو رد کردیا اور فرمایا کہ فاطمہ کی شادی اللہ کے حکمِ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ صحابہ کرام (رض) خود بھی اس نتیجے پر پہونچ چکے تھے کہ علی (ع) کے سوا کوئی بھی زہرا (س) کے ساتھ ازدواج کی لیاقت نہیں رکھتا۔ ایک دن جب حضرت علی (ع) انصار رسول (ص) میں سے کسی کے باغ میں آبیاری کر رہے تھےتو انہوں نے اس موضوع کو آپ (ع) کے سامنے چھیڑا اور آپ نے فرمایا،” میں بھی دختر رسول (ص) سے شادی کا خواہاں ہوں، یہ کہہ کر آپ رسول الله (ص) کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب رسول الله (ص) کی خدمت میں پہونچے تو رسول الله (ص) کی عظمت اس بات میں مانع ہوئی که آپ (ع) کچھ عرض کریں۔ جب رسول الله (ص) نے آنے کی وجہ دریافت کی تو حضرت علی (ع) نے اپنے فضائل، تقویٰ اور اسلام کے لئے اپنے سابقہ کارناموں کی بنیاد پر عرض کیا، ” آیا آپ فاطمه کو میرے عقد میں دینا بہتر سمجھتے ہیں؟“ حضرت زہرا (س) کی رضامندی کے بعد رسول الله (ص) نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔

ہجرت کا پہلا سال تھا کہ رسول نے علی علیہ السّلام کو اس عزت کے لئے منتخب کیا۔ یہ شادی نہایت سادگی کے ساتھ انجام دی گئی۔ حضرت فاطمہ (س) کا مہر حضرت علی علیہ السّلام سے لے کر اسی سے کچھ گھر کا سامان خریدا گیا جسے جہیز کے طور پر دیا گیا۔ وہ سامان بھی کیا تھا ؟ کچھ مٹی کے برتن، خرمے کی چھال کے تکیے، چمڑے کا بستر، چرخہ، چکی اور پانی بھرنے کی مشک۔ حضرت زہرا (س) کا مہر ایک سو سترہ تولے چاندی قرار پایا، جسے حضرت علی علیہ السّلام نے اپنی زرہ فروخت کر کے ادا کیا ۔

کتابت وحی:

وحی الٰھی کی کتابت اور بہت سی تاریخی و سیاسی اسناد کی تنظیم اور دعوت الٰھی کے تبلیغی خطوط لکھنا، حضرت علی (ع) کے بہت اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ آپ (ع) قرآنی آیات کو لکھتے اور منظم کرتے تھے اسی لئے آپ کو کاتبان وحی اور حافظان قرآن میں شمار کیا جاتا ہے۔

حضرت علیہ ااسلام ، پیغمبراسلام (ص) کے بھائی:

پیغمبراسلام (ص) نے مدینے پہنچ کر مسلمانوں کے درمیان بھائی کا رشتہ قائم کیا۔ اور حضرت علی (ع)کو رسول الله (ص) نے اپنا بھائی بنایا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا، ” تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو، اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔۔۔ میں تمھیں اپنی اخوت کے لئے انتخاب کرتا ہوں، ایک ایسی اخوت جو دونوں جھان میں برقرار رہے “۔

حضرت علی علیہ السلام اور اسلامی جہاد:

اسلام کے دشمنوں نے پیغمبراسلام (ص) کو مدینہ میں چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ جو مسلمان مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں کچھ کو قتل کر دیا گیا، کچھ کو قیدی بنا لیا گیا اور کچھ کو مارا پیٹا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اسلحہ اور فوج جمع کرکے خود رسول کے خلاف مدینہ پر حملہ کردیا۔ اس موقع پر رسول اللہ (ص) کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کریں، کیوں کہ انہوں نے آپ کو پریشانی کے عالم میں پناہ دی تھی اور آپ کی نصرت و مدد کا وعدہ کیا تھا، لہذا آپ نے یہ کسی طرح پسند نہیں کیا کہ آپ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کو مدینہ کی پرامن آبادی میں داخل ہونے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنے کا موقع دیں. آپ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ آپ کے پاس کل تین سو تیرہ آدمی تھے اور آپ کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے، مگر آپ نے یہ طے کیا کہ ہم مدینے سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ چنانچہ یہ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی جو آگے چل کر جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس جنگ میں رسول اللہ (ص) نے اپنے عزیزوں کو زیادہ آگے رکھا، جس کی وجہ سے آپ کے چچا زاد بھائی عبید ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی علیہ السّلام کے سر ہی بندھا۔ جتنے مشرکین قتل ہوئے ان میں سے آدھےحضرت علی علیہ السّلام کے ہاتھ سے اور آدھے، باقی مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد اُحد، خندق، خیبر اور آخر میں حنین۔ یہ وہ بڑی جنگیں تھیں جن میں حضرت علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ تقریباً ان تمام جنگوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔ اس کے علاوہ بہت سی جنگیں ایسی تھیں جن میں رسول نےحضرت علی علیہ السّلام کو تنہا بھیجا اور انہوں نے اکیلے ہی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ فتح حاصل کی اور استقلال، تحمّل اور شرافت نفس کا وہ مظاہرہ کیا کہ اس کا اقرار خود ان کے دشمن کو بھی کرنا پڑا۔ جب خندق کی جنگ میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمرو بن عبدود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کا سر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر سوار ہوئے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعاب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ آ گیا اور آپ اس کے سینے سے اتر آٓئے۔ صرف اس خیال سے کہ اگر اس غصّےکی حالت میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خواہش نفس کے مطابق ہو گا، خدا کی راہ میں نہ ہو گا۔ اسی لئے آپ نے اس کو کچھ دیر کے بعد قتل کیا۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش کو برہنہ کردیتے تھے، مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری جبکہ وہ بہت قیمتی تھی۔ چناچہ جب عمرو کی بہن اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا اگر علی کے علاوہ کسی اور نے میرے بھائی کو قتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی، مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر آ گیا کہ اس کا قاتل شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ کیا۔

غدیر خم:

پیغمبر اکرم (ص) اپنی پربرکت زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سے مدینے کی طرف پلٹ رہے تھے، جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین آیہ بلغ لیکر نازل ہوئے، پیغمبر اسلام (ص) نے قافلے کو ٹہرنے کا حکم دیا۔ نماز ظہر کے بعد پیغمبر اکرم (ص) اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا،” ایھا الناس! وہ وقت قریب ہے که میں دعوت حق پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے چلا جاؤں، لہذٰا بتاو کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ “

سب نے کہا، ” ھم گواھی دیتے ھیں آپ نے الٰھی آئین و قوانین کی بہترین طریقے سے تبلیغ کی ہے۔ رسول الله (ص) نے فرمایا، کیا تم گواھی دیتے ہو کہ خدائے واحد کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے “۔

پھر فرمایا: ” ایھا الناس ! مومنوں کے نزدیک خود ان سے بھتر اور سزا وار تر کون ھے ؟“۔

لوگوں نے جواب دیا :” خدا اور اس کا رسول بھتر جانتے ھیں “۔

پھر رسول الله (ص) نے حضرت علی (ع) کے ہاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا،” ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں“ ۔

رسول الله (ص) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی، اس کے بعد لوگوں نے حضرت علی (ع) کو اس منصب ولایت کے لئے مبارک باد دی اور آپ (ع) کے ہاتھوں پر بیعت کی۔

حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں:

علی علیہ السّلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے، کبھی یہ کہتے تھے کہ “علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں”۔ کبھی یہ کہا کہ “میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے”۔ کبھی یہ کہا “آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے”۔ کبھی یہ کہا “علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی”۔ کبھی یہ کہا “علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے”۔ کبھی یہ کہ “وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں” یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا۔ عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ جب مہاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست اور حاکم ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کا اعلان کردیا ہے۔

رسول اللہ (ص) کی وفات اور حضرت علی علیہ السلام:

ہجرت کا دسواں سال تھا کہ پیغمبر خدا (ص) ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوئے، جو ان کے لئے مرض الموت ثابت ہوا۔ یہ خاندان رسول کے لئے بڑی مصیبت کا وقت تھا۔ حضرت علی علیہ السّلام رسول کی بیماری میں آپ کے پاس موجود رہ کر تیمارداری کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ اور رسول اللہ (ص) بھی اپنے پاس سے ایک لمحہ کے لئے بھی حضرت علی علیہ السّلام کا جدا ہونا گوارا نہیں کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام (ص) نے علی علیہ السّلام کو اپنے پاس بلایا اور سینے سے لگا کر بہت دیر تک باتیں کرتے رہے اور ضروری وصیتیں فرمائیں۔ اس گفتگو کے بعد بھی حضرت علی علیہ السّلام کو اپنے سے جدا نہ ہونے دیا اور ان کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا۔ جس وقت رسول اللہ (ص) کی روح جسم سے جدا ہوئی، اس وقت بھی حضرت علی علیہ السّلام کا ہاتھ رسول کے سینے پر رکھا ہوا تھا۔ جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا ہو، وہ بعدِ رسول ان کی لاش کو کس طرح چھوڑ سکتا تھا، لہذا رسول کی تجہیز و تکفین اور غسل کا تمام کام علی علیہ السّلام نے اپنے ہاتھوں سے انجام دیا اور رسول اللہ (ص) کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں دفن کر دیا۔

حضرت علی علیہ السلام کی ظاہری خلافت:

جب سن ۳۵ ھجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا تو پہلے تو آپ نے انکار کر دیا، لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط سے منظور کرلیا کہ میں قرآن اور سنت پیغمبر (ص) کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رعایت سے کام نہ لوں گا۔ جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کر لیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی، مگر زمانہ آپ کی خالص دینی حکومت کو برداشت نہ کرسکا، لہذا بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ، جنہیں آپ کی دینی حکومت کی وجہ سے اپنے اقتدار کے ختم ہو جانے کا خطرہ محسوس ہو گیا تھا، وہ آپ کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا، جس کے نتیجے میں جمل، صفین، اور نہروان کی جنگیں ہوئیں۔ ان جنگوں میں حضرت علی بن ابی طالب علیہما السّلام نے اس شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر، احد، خندق، و خیبر میں کسی وقت دیکھی جا چکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی۔ ان جنگوں کی وجہ سے آپ کو اتنا موقع نہ مل سکا کہ آپ اس طرح اصلاح فرماتے جیسا کہ آپ کا دل چاہتا تھا۔ پھر بھی آپ نے اس مختصر سی مدّت میں، سادہ اسلامی زندگی، مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت و مزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کر دیئے۔ آپ شہنشاہ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے۔ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے۔ جو مال بیت المال میں آتا تھا اسے تمام حقداروں کے درمیان برابر تقسیم کردیتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نےجب یہ چاہا کہ انہیں، دوسرے مسلمانوں سے کچھ زیادہ مل جائے، تو آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو یہ ممکن تھا، مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے، لہذٰا مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے اپنے کسی عزیز کو دوسروں سے زیادہ حصہ دوں۔ انتہا یہ ہے کہ اگر آپ کبھی رات کے وقت بیت المال میں حساب و کتاب میں مصروف ہوتے اور کوئی ملاقات کے لیے آ جاتا اور غیر متعلق باتیں کرنے لگتا تو آپ چراغ کو بھجا دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہیں ہونا چاہیئے۔ آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد سے جلد حق داروں تک پہنچ جائے۔ آپ اسلامی خزانے میں مال کو جمع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت:

ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عہد کیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مہمان تھے اور صبح کو واقع ہونے والے حادثہ سے باخبر تھے۔ لہذٰا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ کسی اور کو مسجد میں بھیج دیجئے۔ حضرت علی (ع) نے فرمایا، قضائے الٰھی سے فرار نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اپنی کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور مسجد کی طرف روانہ ہو گئے۔ حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہوا آپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئی۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا، ” فزت و رب الکعبه “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی،”ھم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ہے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمہیں دوباره اٹھائیں گے “۔

حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی، ” میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور وصیت کرتا ہوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ہمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رہو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو، نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمہارے دین کا ستون ھے“۔ آپ کے رحم و کرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لایا گیا، اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام و امام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کر دوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہرگز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بیچینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئی حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیز و تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف میں دفن کر دیا۔

shiainislam.com

تصایر:

img-العتبة العلوية المقدسة-1489240169.jpg

img-سفن للنجاة تبحر الى ارض الجنان

img-عندما يُسر الناظر ويُسحر لُبّه

img-يا حليف النبوة ويا مكمّل مكارم الاخلاق

img-معرض الصور الذي اقيم في العتبة العلوية المقدسة

Tags
Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close