تازہ ترین خبریں

بوکھلایا ہوا خاندان

سعودی عرب میں ملک سلمان کے برسر اقتدار آنے کو قبائلی نظام میں صرف ایک جانشین کی تبدیلی کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں پائے جانے والی بحرانی کیفیت میں ان کی جانب سے اپنائی گئی سیاست کی نوعیت یا اپنے مدمقابل کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلے گئے کھیل کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی حکومت کی سیاست نے ایک نیا موڑ اختیار کر لیا ہے جیسا کہ مغربی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے حالیہ سالوں جو بھاری رقومات خرچ کیں یا مختلف میدانوں میں جو غیر معمولی ریسک لیئے ان سے اس ملک کی سرنوشت مبہم اور غیر یقینی ہو گئی ہے۔
علاقائی تبدیلیوں میں آنکھیں بند کر کے صرف آگے کی طرف دوڑ اور تشدد پسندانہ اور آمرانہ سیاستوں پر اصرار اگر چہ بادشاہت اور ملوکیت کی کرسی کو بچانے کا بظاہر کارآمد طریقہ کار تھا لیکن حقیقت میں اس طریقہ کار کے اندر صرف کھل بلی، بھگدڑاور بے چینی پائی جاتی ہے۔
’’ترکی فیصل‘‘ نے کچھ عرصہ قبل اوبامہ کی اس بات جو اوبامہ نے سعودی عرب کو دھشتگردی کی ماں اور انسانی حقوق اور آزادی کا قاتل ملک قرار دیا تھا، پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ بھول گیا ہے کہ سعودی بادشاہوں نے پچاس سال امریکہ کے لیے خدمات انجام دی ہیں اوبامہ کا یہ بیان انصاف سے کوسوں دور ہے۔ ( ترکی فیصل نے اگر چہ اوبامہ کے بیان پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات کہی لیکن بات تو حقیقت پر مبنی ہے، حرمین شریفین کے خادمین کاش اگر پچاس سال بجائے امریکہ کی خدمت کے اللہ و رسول کی خدمت کرتے تو مشرق وسطیٰ منجملہ سعودی عرب کا نقشہ کچھ اور ہوتا: مترجم)۔ سعودی عرب کے اندرونی حالات میں آشفتگی اور خاندان سعود کے شہزادوں میں اقتدار کی رسہ کشی اگر چہ ملک سلمان کے نزدیک ان کے بیٹے محمد کے لیے اقتدار کے حصول کی راہ میں ایک منفی پوئنٹ ہے لیکن دوسری جانب سے ۴۳ سیاسی اور حکومتی عہدوں میں تبدیلیاں اور ۱۳ وزارتخانوں کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا جانا اور محمد بن نائف کی اس کے عہدے سے معزولی وہ امور ہیں جنہیں محمد بن سلمان کی ولایتعہدی کے لیے زمین ہموار کئے جانے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے کہ امریکیوں نے محمد بن نائف کی ولایتعہدی کی نسبت اپنی خواہش سے دست برداری کی ہے یا نہیں لیکن محمد بن سلمان کے لیے فضا سازی اور محمد بن نائف کو جوا باز اور چرسی کا لقب دیا جانا کچھ خاص معنی رکھتا ہے۔ محمد بن سلمان کے معیشتی منصوبوں جو صرف تسلط پسندانہ رویے کے حامل اور تحقیق سے عاری ہیں کو ملک سلمان کی جانب سے قومی، علاقائی اور بین الاقوامی منصوبوں کے طور پر پیش کیا جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہ واضح ہے کہ ملک سلمان کے قبیلے اور سعودی گھرانے کو وہابی چیلنجوں کا سامنا ہے اوروہ اس بات سے خائف ہیں کہ ثقافتی اصلاحات کے لیے وہابیوں کا غصہ سعودی عرب میں خانہ جنگی کا سبب بن سکتا ہے اس طریقہ سے کہ داعش اور القاعدہ سعودی حکومت کے خلاف صف آرائی کر سکتے ہیں۔
ملک سلمان کے دور حکومت میں سعودی عرب کی مشکلات اندرونی تباہ کن خطرات اور سماجی، معیشتی اور سکیورٹی چیلنجوں میں محدود نہیں بلکہ اس ملک کو علاقائی سطح پر بھی کئی چیلنجیز کا سامنا ہے۔
شام و عراق میں تکفیریت پر مبنی جنگی جنون نہ صرف بے نتیجہ ثابت ہوا ہے بلکہ الٹا اب اس کا رخ سعودی عرب کی طرف ہے جس کی وجہ سے اس بادشاہ کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ یمن میں جنگ نے ایک خونی، گراں قیمت اور ناکام کارنامہ تاریخ میں ثبت کیا ہے جس سے سعودی عرب کا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔
ریاض کے حکمران یہ سوچتے ہیں کہ اگر وائٹ ہاوس شام، عراق اور یمن کی جنگ میں ان کی زیادہ سے زیادہ حمایت کرے گا تو وہ جنگ میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گے لیکن وائٹ ہاوس کے پیش نظر جنگ میں سعودیہ کی کامیابی نہیں ہے۔ وہ نومبر ۲۰۱۶ سے پہلے پہلے اپنی سیاسی کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ انتخابی مہم میں اپنا سکہ جما سکیں۔
لیکن سعودی عرب امریکہ کی حمایت کو اپنے لیے زہر کی گھونٹ سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے شام، یمن اور عراق کے مذاکراتی کھیل میں اپنا منفی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی بادشاہ علاقائی طاقت کی اسٹریٹیجک میں اپنا خلاء محسوس کر کے اس کو پورا کرنے کے لیے کبھی اسرائیلی حکام کے آگے ماتھا ٹیکتا ہے اور کبھی امریکہ کے اندر صہیونی لابی کے آگے دست نیاز دراز کرتا ہے تاکہ امریکی حکومت کے لیے یہ ثابت کر سکے کہ سعودی عرب بھی امریکہ کے مفادات کو پورا کرنے میں مختلف طرح کا کردار نبھا سکتا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ سعودیہ کی رفاقت کوئی نئی بات نہیں۔ سعودی عرب صہیونیت کے ساتھ اپنے مخفی تعلقات کو آشکار کر کے اس امید میں ہے کہ علاقائی بحران کے دلدل سے نکلنے میں یا ایران کے مقابلے میں اپنی اسٹراٹیجی بروئے کار لانے اور فوجی کمیوں کو پورا کرنے میں اسرائیل کا سہارا لے۔ لیکن اسرائیل سعودیہ کو صرف اپنا آلہ کار ہونے کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کبھی تیار نہیں ہوتا کہ سعودیہ کے واسطے اپنا سرمایہ لٹائے اور ایران اور اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں سعودیہ کی سپر بنے۔
اسرائیل اس وجہ سے کہ اسلامی مزاحمت اور ایران کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹجی سے خود کو محفوظ رکھ سکے آل سعود اور تکفیریوں کو جہاں تک ممکن ہوا اپنی سلامتی فراہم کرنے کے لیے استعمال کرے گا تاکہ عربی اور اسلامی دنیا نیز علاقائی ممالک کے عمومی اذہان اسرائیل کی دشمنی بھول کر ایک فرضی اور ساختگی دشمن کی طرف اپنی ساری توجہ مبذول کر لیں اور اسرائیل امن و چین کے چند دن بسر کر لے۔
بہرحال جیسا سعودیہ سوچتا ہے ویسا اس نام نہاد اتحاد سے کوئی فوق العادہ کارنامہ سامنے نہیں آئے گا۔ صرف یہ کہ اسرئیلیوں کی رسوائی اور اپنے سرمائے کا ضیاع برداشت کرنا ہو گا۔ آل سعود کی روٹیوں پر پلنے والے ممالک جیسے مصر، سوڈان، جبوتی، اردن، ملیشیا، پاکستان اور ترکی کی ڈپلومیسی بھی کوئی موثر اور اسٹراٹیجی رول ادا نہیں کر سکی۔
ترکی اگر چہ بظاہر علاقے میں سعودیہ کے کردار کا گن گاتا ہے اور شام اور دیگر ممالک میں کروڑوں ڈالروں کا خرچہ اٹھانے کو اپنی مجبوری سمجھتا ہے لیکن اس بات کے لیے کبھی تیار نہیں ہے کہ سعودی عرب کا آلہ کار اور کھلونا بن جائے۔
مصر میں اگر چہ جنرل السیسی کا اصلی چیلنج اخوان المسلمین ہیں لیکن مصر میں داعش اور تکفیری تحریکوں کا بڑھتا پھیلاؤ جس کی اصلی جڑ سعودیہ ہے قاہرہ کے حکمرانوں کو محتاط بنائے دے رہا ہے لیکن چونکہ وہ سعودیہ کے ریالوں کے شدید عاشق ہیں سعودی بادشاہ کے سامنے ایک مسکراہٹ سے زیادہ اس کے لیے کچھ کر نہیں سکتے۔
شام اور عراق میں اگر چہ تکفیری دھشتگردی نے علاقے کے نقشے کو بدلنے میں کافی زمین ہموار کی اور امریکیوں، یہودیوں اور مغربیوں کو خوش کیا لیکن ان کا زوال بھی بہت جلد شروع ہو گیا اور اسلامی مزاحمت اور ایرانی اسٹریٹجی کے مقابلے میں اپنی چند روز کی زندگی کو بھی ممکن نہ دیکھا۔ عراق و شام میں تکفیری دھشتگردی کی زندگی کا خاتمہ امریکہ، اسرائیل اور آل سعود کے لیے ناقابل برداشت امر ہے۔ چونکہ اس شکست کے جغرافیائی نتائج یہ ہوں گے کہ سعودیہ کو جہنم کے گڑھے میں گرنا ہو گا اور امریکہ کی علاقے سے چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔
لہذا امریکہ، سعودیہ اور صہیونی ریاست کی ساری توانائی شام و عراق میں ہر روز نئے دھشتگرد تیار کرنے اور انہیں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے اور دھشتگردوں کی عمر بڑھانے پر خرچ ہو رہی ہے۔ وہ صرف اس امید میں ہیں کہ انہیں کچھ دیر سے شکست ملے چونکہ دھشتگردوں کی شکست تو ان کے نزدیک یقینی ہے۔ لیکن چند روز یہ کھیل اور جاری رکھ کر اپنے کچھ فرضی امتیازات اکھٹا کر لیں۔
عراق میں موجودہ اقتدار کی مضبوطی امریکہ اور سعودیہ کے لیے زہر قاتل ہے لہذا وہ عراق میں دھشتگردی کے ذریعے کھیلے جانے والے کھیل کے ساتھ ساتھ عراقی حکومت میں بھی ارتعاش پیدا کر کے ملکی اقتدار کو بھی بکھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ قدرتمند، سیاستمدار اور منسجم عراق علاقے میں سعودیہ کی بقا کے لیے بھاری خطرہ ہے۔
ایران تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے روز اول سے ہی سعودیہ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب اور امریکہ کے لیے ناقابل یقین کہانی بن گیا لہذا ان کی آشکارا اور پوشیدہ سیاست ایران کی نابودی، یا اس پر کنٹرول اور اس کے دائرہ وسعت کو محدود کرنے میں جھٹ گئی۔ سعودی عرب جانتا ہے کہ وہ ایران کو اندرونی طور پر کمزور بنانے کے لیے کردوں اور بلوچیوں کا استعمال نہیں کر سکتا اس وجہ سے اس نے ایران میں موجود اہل سنت کی طرفداری کا ڈرامہ رچایا اور تیل کے ڈالروں کو ان پر خرچ کر کے انہیں ایران کے اندر شیعی حکومت کے خلاف قدعلم کرنے پر اکسانے کی کوشش کی۔
سعودیہ اس بات کو چھپا ہی نہیں سکتا کہ اس نے اربوں ڈالر ایران کے خلاف جنگ کے لیے صدام کو ہدیہ کے طور پیش کئے اور کئی ملکوں میں ایرانی سفارتخانوں پر دھشتگردانہ حملے کروانے کی زحمت گوارا کی، علاقے میں قتل و غارت کا بازار گرم کرایا اور ایران کے جنوب مشرقی علاقوں میں ناجائز منشیات داخل کروا کر ملک میں بدامنی ایجاد کر نے کی سعی ناکام کی۔
سعودی عرب یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ امریکہ کا سگا حامی ہے اور امریکہ کہیں ایٹمی انرجی کے معاہدے کے بہانے سے ایران سے قریب نہ ہو جائے، معیشتی خودکشی کرنے کے لیے تیار ہو گیا انتہائی گراوٹ کے ساتھ اپنا تیل دنیا کو بیچ دیا اور ایران سے تیل خریدنے والوں کو اپنی طرف جذب کر کے ایران کے تیل کی منڈی کو گرانے کے لیے اپنا تیل سستے دام دے دیا۔
کلی طور پر علاقائی اور عالمی سطح پر سیاسی میدان میں سعودی عرب نے جو اپنی تصویر پیش کی ہے وہ ایک شرپسند، ناقابل اعتماد، بدامنی پیدا کرنے والے خون خوار اور دھشتگرد کھلاڑی کی تصویر پیش کی ہے یہاں تک کہ لندن اور واشنگٹن میں ان کے حامی سعودیہ کے اندرونی اور بیرونی ماحول میں اس کی بدکاریوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔
اگر یوں تجزیہ کیا جائے کہ بہت سارے ممالک اس شر کو خود سے دور کرنے کے عنوان یا سعودیہ کے پیسے کی گتھیوں یا تیل کے ڈالروں کی لالچ کے عنوان سے اس ملک کو دیکھتے ہیں تو ہماری یہ بات جھوٹ نہیں ہو گی۔ نواز شریف، اردن کا ملک عبد اللہ، سوڈان کا عمر بشیر، ملیشیا کا وزیر اعظم، مصر کا السیسی اور حتی ترکی کا اردوغان اس سے پہلے کہ وہ آل سعود کے بارے میں اس عنوان سے سوچیں کہ وہ ان کے شریک ہیں اور کھیل کے میدان میں ایک ہی ٹیم کے سب کھلاڑی ہیں سعودی بادشاہ کی سخاوتمندی پر نظریں ٹکائے ہوتے ہیں۔
جیسا کہ تل ابیب کے حکام اپنے چیلنجوں سے عبور کرنے کے لیے آل سعود کے دو قیمتی سرمایوں کو پیش نظر رکھتے ہیں ایک سعودی ڈالر اور دوسرے تکفیری دھشتگردی کا سرمایہ تاکہ اپنی سالمیت کو یقینی بنا سکیں اسی طرح امریکہ اور یورپ بھی اس بادشاہ کے سر پر ایک بڑی ٹوپی پہنا کر اسے رنگ برنگے اسلحے بیچتے اور علاقے میں انسانوں کے سروں سے کھیلے جانے والے فٹبال کے میچ کا تماشا دیکھ کر لذت کا احساس کرتے ہیں۔
یہ ایسے حال میں ہے کہ سعودی عرب میں عورتیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور وہابیت کے منگھڑت دین کی وجہ سے امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
یہ ایسے حال میں ہے کہ شیخ نمر کو شہری حقوق اور جائز آزادی کے مطالبے کی وجہ سے سولی پر لٹکایا جاتا ہے، آزادی اور بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والی ہر آواز کو نطفہ میں روک کردیا جاتا ہے لیکن شام میں جمہوریت دلانے کے لیے لڑائی لڑی جاتی ہے۔
یہ ایسے حال میں ہے کہ بحرین میں فوجیں بھیجی جاتی ہیں تاکہ آل خلیفہ کے غیر منصفانہ کاموں پر اعتراض کرنے والوں کو سرکوب کیا جائے اور خود ایران پر تہمت لگائی جاتی ہے کہ وہ عربی ممالک میں مداخلت کر رہا ہے۔
یہ ایسے حال میں ہے کہ سعودی عرب کے عوام کو بادشاہ کی بیعت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن عراق میں جمہوری نظام برداشت نہیں کیا جاتا اور شام میں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب شدہ صدر کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ ایسے حال میں ہے کہ خود کو عرب اور اہل سنت کا حامی سمجھا جاتا ہے فلسطین کے قابضوں کے ساتھ کھلے عام دوستی کے رشتے قائم کئے جاتے ہیں۔ خاندان سعود جو تکفیری دھشتگردی کا باپ ہے دھشتگردی کے خلاف اتحاد قائم کرتا ہوا نظر آتا ہے اور ۱۱ ستمبر کے واقعے میں شریک ہونے کی رسوائی سے خود کو بچانے کے لیے ۷۵۰ عرب ڈالر امریکہ کو رشوت دی جاتی ہے۔
یہ اس بوکھلائے ہوئے خاندان کی حقیقت، سیاست اور اس کے کردار کا مختصر خاکہ تھا جسے پوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔

منبع:http://www.mesrtimes.com/456589

Tags
Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close