تازہ ترین خبریں

حریت کا پیامبرشیخ نمر باقر النمر

بقلم: سید تصور حسین نقوی ایڈووکیٹ (پہلی قسط)
عرب دنیا میں کئی دہائیوں سے قائم بادشاہت اور آمریت کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو باقی عرب ممالک کے ساتھ سعودی عرب بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا ۔مصر ، تیونس اور لیبیا جیسے ممالک میں تو حکومتیں بدل گئیں ، کئی عرب ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آئے، عرب بہار نامی یہ تحریک سعودی عرب پہنچی تو برسرِ اقتدار آل سعود کے اوسان خطا اور وہ جنونیت اور بد حواسی کا شکارہو گئے ۔ سعودی عرب کے دو مشرقی صوبے القطیف اور الاحساء تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور ملک کی سب سے بڑی ضرورت اسی سے پوری ہوتی ہے لیکن القطیف اور الاحساء میں بسنے والے لوگ مذہبی بنیادوں پر سالہا سال سے محرومی اور ظلم و ستم کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔عرب دنیا میں تحریک مزاحمت سے سعودی عرب کے یہی دو بڑے صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ، جہاں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے۔ ان مظاہروں کی قیادت ایک روشن خیال، اعتدال پسند عالم دین اور سیاسی رہنما نے کی۔ آلِ سعود کی ظلم و بربریت کی اندھیر نگری میں جس مجاہد نے حریت کا چراغ جلایا اُسے دنیا شیخ باقر النمر کے نام سے جانتی ہے ۔ظلم و بربریت کے جس دور میں جب کوئی شخص صدائے احتجاج بلند کرنے کی سکت نہ رکھتا تھا تو حیدر کرار کے اس پیروکار نے تنہا ظلم کے خلاف شعارِ حسینی بلند کرنا شروع کردیئے اور طاغوتی نظام کو للکارا۔ سر زمینِ حجاز پر محمد و آلِ محمد علیہم السلام کا وکیل اور اسکی ہواؤں و فضاؤں میں توحید و رسالت کی خوشبو بکھیرنے والے جذبہء حیدری سے سرشار اس مجاہدِ اسلام کے مجاہدانہ کردارنے آج پھر اُمت مسلمہ کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ایک ایسی سرزمین پر کہ جہاں کی ظالم حکومتوں کے رعب و دبدبے اور انکے خوف سے اہلِ حجاز ہمیشہ خاموش رہے، امام حسن(ع) کے جنازے پر تیر برسانے سے لیکر امام حسین(ع) آلِ پیغمبر کے مدینہ سے مکہ اور پھر وہاں سے حج کے احرام کھول کر حج کو عمرہ میں تبدیل کرکے کربلا کی جانب روانگی اور کربلا میں اہل و عیال سمیت شہادت اور کربلا سے کوفہ، کوفہ سے شام تک کے سفر پر بھی اہل حجاز خاموش رہے، آج شیخ باقر النمر کی شہادت پر اہلِ حجاز کا ظالم و جابر حکومت کے سامنے نتائج کی پرواہ کئے بغیر سینہ سُپر ہوکر کھڑے ہونا یقینا ایک انقلاب ہے۔ اب کعبة اللہ اور مدینة النبی (ص) سے لبیک اللھم لبیک اور لبیک یا رسول اللہ ۖ کی صدائیں زبانوں سے نہیں بلکہ جسم و روح سے بھی آرہی ہیں۔ وہ صدا جو آج سے چودہ سو سال پہلے جزیرہ نما عرب کی اس سرزمین پر شرک و کفر اور طاغوت کی ظلمتوں کو چاک کرتے ہوئے نبی آخر الزمان ۖ نے بلند کی تھی، اسی صدا کی گونج آج نبی ۖ کے اْمتی اور حیدر کرار کے جانباز مجاہد کے حسینی لہجے سے سنائی دے رہی ہے۔ جس نے سرزمینِ حجاز پر آلِ سعود کے طاغوتی و مشرکانہ تسلط کی بنیادوں میں زلزلہ برپا کردیا ہے ۔یزیدی کردار آلِ سعود حکومت شائد یہ بھول گئی ہے کہ جس مجاہد کو شہید کیا ہے اور جسکے پیروکاران کو گرفتار کیا گیا ہے انکے رگ و پہ میں حسینیت گردش کر رہی ہے اور حسینی خون دوڑ رہا ہے جو اپنے لئے نمونہ عمل صرف اور صرف کربلا قرار دیتے ہیں۔ حسینیت کے راستوں پرچلنے والوں کا انداز نرالا ہے جو تلواروں کی دوش پر نہیں خون کی دھار سے یزیدیت اور اسکے ظلم کی دھار کو مٹا دیتے ہیں اور اس خون کی گرمائش ہی ایسی ہے کہ دیکھنے میں خون بہتا ہے اور زمین میں جذب ہو جاتا ہے لیکن یہی خون معاشرے کو نئی حیات عطا کرکے نسلِ نو کے خوشگوارمستقبل کی نوید بن جاتا ہے۔ شیخ باقر النمر کی آواز اور صدائے حق سرزمین حجاز کی فضاؤں اور ہواؤں میں گونج رہی ہے، اوریہ آواز زندہ ضمیروں میں گونجتی رہے گی اور مردہ ضمیروں کو نئی زندگی عطا کرتی رہے گی یہاں تک کہ حق کا بول بالا ہو جائے۔ کربلا وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے ۔ یزیدی چودہ سو سالوں سے کربلا اور پیغام ِ کربلا کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر واقعہ کربلا اور پیغامِ کربلا بلند سے بلند ہوتا جا رہا ہے۔ آج بھی یزید کے نام پر اتنے لوگ جینے کو تیار نہیں جتنے حسین(ع) کے نام پر مرنے کو تیار ہیں۔ کربلا والوں کا دنیا کے لیے پیغام ہے کہ ہم موت سے گھبرانے والے نہیں بلکہ موت تو ہمارا افتخار ہے اورہم توموت سے لڑ کر زندگی پاتے ہیں ۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے آج پھر ایک راہی کربلا داعی اجل کو لبیک کہہ گیا ۔ امام حسین کا ایک روحانی فرزند انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے انکی سیرت و کردار کو دہراتا ہوا نظر آیا۔ انکا جرم یہ تھا کہ وہ سعودی بادشاہت اور شخصی آمریت کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے، وہ سعودی عرب میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے تھے، وہ سعودی عرب میں برابری کی بنیاد پر سلوک کیے جانے کی صدا بلند کر رہے تھے، سعودی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور ظالمانہ و جابرانہ اقدامات کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے اور ان پر تنقید کر رہے تھے ۔انہوں نے جنت البقیع کے از سر نو تعمیر کے لیے بھی جدو جہد کی اور دو ہزار چار سے ہر سال آٹھ شوال کو یوم انہدام جنت البقیع بھی مناتے رہے اور سعودی حکومت کی شدید سختیوں اور پابندیوں کے باوجود اس دن مجالس، مظاہروں اور احتجاج کا اہتمام کرتے رہے۔ مشرقی صوبے عوامیہ کے عوام کی اپنی آزادی ، خود مختاری اور حقوق کی جدوجہد کی تاریخ کو دیکھئے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز تو ترکِ عثمان سلطنت کے دور میں ہی ہو گیا تھا اور پھر جب عوامیہ کے لوگ آلِ سعود اور برطانوی سامراج کے شکنجے میں آئے اور انکے سیاسی، مذہبی، معاشی، معاشرتی، سماجی اور ثقافتی حقوق سلب کر لئے گئے اور وہ زبردستی سعودی عرب کا حصہ بنا دیئے گئے تو تب بھی انہوں نے مذاحمت جاری رکھی ۔ انکے سیاسی ، سماجی اور مذہبی حقوق کی تاریخ دو سو سال پرانی ہے اورعرب بہار کے بعد اسکو مذید تقویت پہنچی اور وہ ایک مرتبہ پھر ظلم، جبر،محکومیت کے خلاف صف آراء ہوئے۔اْنکے مطالبات جمہوریت ، انتخابات ، سیاسی و مذہبی آزادی اور سماجی انصاف تھے اور اس مرتبہ انکی تحریک کی قیادت شیخ باقر النمر کر رہے تھے۔ یہ کوئی ایران سے نہیں آئے تھے بلکہ عوامیہ میں پیدا ہوئے، عوامیہ کے ایک عرب قبیلہ کے فرد تھے جن کو اپنی دھرتی سے جڑے ہونے پر فخر تھا۔ اُنکی جدوجہد سنی یا سلفی اسلام کے خلاف نہیں تھی یہ تو اپنے اوراپنی قوم کے بنیادی انسانی حقوق کی مانگ کررہے تھے اور اس مقصد کے لئے شیخ باقر النمر نے کوئی بندوق نہیں اٹھائی ، خود کش حملوں کا فتویٰ نہیں دیا اور نہ ہی سعودی عرب کے خلاف جہاد کااعلان کیا۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close