اسلامتازہ ترین خبریں

جدید اسلامی تہذیب کی ترقی میں حج کا کردار


جدید اسلامی تہذیب ایک نئی اصطلاح ہے، جو حالیہ دہائیوں میں سامنے آئی ہے اور اسے آیت اللہ خامنہ ای کے علم و آگاہی اور تفکرات کا شاہکار سمجھا جاتا ہے؛ اگرچہ جدید اسلامی تہذیب کی ماہیت، نوعیت، جہت، اجزاء اور خصوصیات کے بارے میں متعدد مقالات لکھے جاچکے ہیں؛ لیکن ابھی تک کوئی جامع کتاب موجود نہیں ہے؛ لہذا اس موضوع کی بہت سی جہتوں اور پہلوؤں پر بہتر انداز میں قلم فرسائی کرنے کی ضرورت ہے؛ جیسے جدید اسلامی تہذیب کے قیام اور توسیع میں جو عوامل کارفرما ہیں اس پرعلمی تحقیق کی گنجائش موجود ہے۔

ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

تحریر: مجتبی حیدری

 اسلام میں حج کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ حج خدا کے ابدی ذخائر میں سے ایک ہے، اسلامی علم کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں پرایک غیر معمولی فریضہ بھی ہے، جس میں اسلامی اقدار کا گرانقدرمجموعہ ہے جو ان تمام خصوصیات کے ساتھ کسی دوسری واجب عبادت میں نہیں مل سکتا۔

تہذیب کی تعریف کے بارے میں، دو نظریےہیں: مادی اور دو جہتی (مادی-روحانی)

 مادی نظریہ، تہذیب کو غالبا مادی ہی سمجھتا ہےاورمادیات کو ہی اجاگرکرتا ہےاس میں روحانی اور معنوی پہلو کو یکسر مسترد کیا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق تہذیب سے مراد، فن اور فن تعمیر، تکنیک، صنعت، اداری تشکیلات، انتظامی اور سیاسی مظاہر ہیں؛ لیکن دوجہتی تہذیب کے نظریے کے مطابق، تہذیب میں مادی اور غیرمادی دونوں عناصر کا ہونا لازمی ہے۔ اس نقطہ نظر سے تہذیب کی اصل بنیاد غیرمادی عناصرپرمرکوز ہے، خاص طور پر دین، اخلاقیات، ثقافت وغیرہ اور مادی ترقیات، تہذیب کے مظاہرمیں شمار ہوتے ہیں۔ مسلم مفکرین میں یہ نقطہ نظرغالب ہے؛ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تہذیب ایک ایسے میدان کا نام ہے جہاں الہی مقاصد کا حصول ممکن ہوجاتا ہے۔ انسان مادی اور روحانی دونوں میدانوں میں ترقی کرسکتا ہے۔ (مهدی‌نژاد، 1401، ص 181-182).

جدید اسلامی تہذیب کا مفہوم

سپریم لیڈر کی طرف سے تجویز کردہ نئی اسلامی تہذیب کا نظریہ ایک طرف سابقہ ​​اسلامی تہذیب سے جڑا ہوا ہے اور دوسری طرف یہ کسی نہ کسی طرح مغرب کی نئی تہذیب کے خلاف اور اس کے مدمقابل بھی ہے۔ آیت اللہ خامنہ‌ای سابقہ ​​اسلامی تہذیب کو مسلمانوں کےلیے باعث فخر سمجھتے ہیں اور موجودہ دور میں اسلامی تہذیب کا پوری دنیا میں پھیلنا ماضی کی نسبت زیادہ امکانات ہیں۔(مقام معظم رهبری، 11/5/1395). امت اسلامیہ اس دور کی نئی اسلامی تہذیب کو عملی جامہ پہنا کر پوری انسانیت کے سامنے رکھ سکتی ہے۔  (مقام معظم رهبری، 8/10/1394).

اس نقطہ نظر کی بنا پر جدید اسلامی تہذیب کی ترقی میں حج کا کردار نمایاں ہوجاتا ہے؛ لہذا نئی اسلامی تہذیب کو دنیا بھرمیں پھیلانے کےلئے حج سے بہترکوئی اور میدان نہیں ہوسکتا۔

جدید اسلامی تہذیب  اور حج کے اثرات

اسلام میں حج کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ حج، جدید اسلامی تہذیب کے کون کون سے شعبوں پرمثبت اثرات مرتب کرسکتا ہے؟

حج روحانیت کا ابلتا ہوا سرچشمہ ہے جو عالم اسلام اور مسلمانوں پر مسلسل اپنے فضل و کرم کو انڈیلتا ہے؛ تاکہ ہر فرد اور ہر گروہ اپنی استطاعت، توان اور ظرفیت کے مطابق اس سے مستفید ہو سکے۔

حج روحانیت اور مادیت کے درمیان ہم آہنگی کا مظہر

جدید اسلامی تہذیب کی سب سےاہم خصوصیت، روحانیت اور مادیت کے درمیان جامعیت اورہم آہنگی کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے؛  بلاشبہ جدید اسلامی تہذیب کے دو جہتی ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دونوں کے درمیان کوئی ترجیح نہیں؛ بلکہ اس تہذیب میں روحانیت، حاکم اور محور ہے۔ جدید اسلامی تہذیب میں، مادی ترقی بھی ہے؛ لیکن وہ ترقی جو روحانیت پر مبنی ہو اور روحانیت کےحتمی اہداف کی پیروی کرتی ہو؛ لامحدود مادی خوشحالی اور سرکشی کی ہمایت کرنا مقصود نہیں ہے۔ مادی ترقی کے ساتھ روحانیت کا ہونا ضروری ہے۔

حج کا آغاز “لبیک” سے ہوتا ہے؛ جس کا مطلب ہے الٰہی دعوت کا مثبت جواب دینا۔ حج کے تمام مناسک اور سرگرمیاں جیسے احرام کا لباس، طواف، سعی، نماز اور وقوف، ہر ایک کسی نہ کسی طرح ہمارے پورے وجود کو روحانیت اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ (مقام معظم رهبری، 16/1/1374). جب لوگ حج کے الٰہی فریضہ کی ادائیگی کے مرکز(کعبہ) کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ مادی زندگی کے حدود سے خارج ہوکرمکمل طور پر وادی روحانیت میں داخل ہو جاتے ہیں اور روحانی وادی سے اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ کر کے واپس آتے ہیں۔

2۔ حج، اتحاد امت کا بنیادی ذریعہ

تہذیب ایک فرد سے وجود میں نہیں آتی ہے؛ بلکہ تہذیب لوگوں کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے؛ لہٰذا تہذیب کی بنیاد اس کے انسانی عوامل کے درمیان ہم آہنگی اور یکجہتی کے بغیر ناممکن ہے۔ دنیا میں نئی ​​اسلامی تہذیب کے ادراک کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں اس کے اجزاء یعنی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کیاجائےاور یہ اتفاق و اتحاد مختلف طریقوں سے ممکن بنایا جاسکتاہے؛ لہذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حج امت اسلامی کے درمیان سماجی روابط اور یکجہتی پیدا کرنے کےلیے سب سے اہم اور منفرد پلیٹ فارم ہے۔

حج مسلمانوں کے درمیان اختلافات،غلط تصورات اور ایک دوسرے کے بارے میں منفی خیالات کو دور کرنے اور مشترکہ اصولوں اور محوروں پر بھروسہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ افہام و تفہیم، معرفت اور شناخت پیدا کرنے کا ایک منفرد موقع ہے؛ لہذا حج کے مناسک ایک وسیع اور متحد اسلامی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ایک نئی اسلامی تہذیب کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

عظیم اسلامی معاشرے کی تشکیل، دین مبین اسلام کے سماجی اور اجتماعی مقاصد میں سے ایک ہے، جو حج کے دوران حقیقی طور پر سیکھا اور سیکھایا جاتا ہے۔ تمام حجاج کرام ایک ہی لباس، ایک ہی عمل، ایک ہی گفتار، ایک ہی رفتار اور ایک ہی مقصد اور ہدف کو سامنے رکھ کر اتحاد و یگانگت کی مشق کرتے ہیں۔

درحقیقت امت اسلامیہ کی صورت میں مسلمانوں کے دینی تشخص کو مضبوط کرنا ایک مشترکہ اسلامی تشخص کی تشکیل کا باعث بن سکتا ہے اور اگلے مرحلے میں یہ نئی اسلامی تہذیب کی شکل میں ابھرکرسامنےآسکتی ہےاور حج، تمام مسلمانوں کےلئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے؛جہاں مشترکہ معاشرتی زندگی کا عملی مشق کیا جاتا ہے؛ ایک خدا، ایک قبلہ، ایک نبی اور ایک ہی کتاب۔ حج اسلامی معاشرے کے عظیم تر اتحاد اور مذہبی، ثقافتی اور سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہی سماجی اور اجتماعی اتحاد، جدیداسلامی تہذیب کی تشکیل کی بنیاد بن سکتا ہے۔

3. حج میں نئی اسلامی تہذیب کی حیثیت کا تعین

  کسی بھی چیزکی حیثیت کا تعین دو طریقوں سے کیا جاسکتا ہے، خود اورغیرخود کی وضاحت؛ خود اور غیرخود کے درمیان فرق کی وضاحت سے حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔ یہ بات تہذیب اور تمدن میں بھی درست ہے؛ اسلامی تہذیب کا تب پتہ چلےگا کہ ہم اسلامی تہذیب کی تعریف کریں گے اس کی خصوصیات بتائیں گے۔ حج کی ایک خصوصیت جو کہ امت اسلامیہ کے اتحاد کا عنصر سمجھی جاتی ہے اور ایک طرح سے اسلامی اور غیر اسلامی معاشرے کے درمیان سرحد کا تعین کرتی ہے، وہ ہے دشمن(مشرکین وشیاطین) سے برائت، بیزاری اور اعلان جنگ؛ لہذا اسلامی تہذیب فطری طور پر شرک پر مبنی تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ جس تہذیب میں شرک اور بت پرستی ہو اس تہذیب کو اسلامی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ پس مشرکین سے برائت کا اظہار کرکے اسلامی تہذیب کو غیراسلامی تہذیب سے الگ کیا جاتا ہے۔

 حج ابراہیمی، حج محمدی، حج علوی اور حج حسینی وہ حج ہے جس میں توجہ مکمل طور پر اللہ تعالی کی طرف ہے، ظالموں اور جابروں سے بلا خوف وخطر بیزاری کا اعلان کرنا ہے۔ علامتی دشمن پرکنکریاں مار کر خود کو اسلام دشمن عناصر کے خلاف جنگ کےلئے آمادہ بھی کرنا ہے۔

 اس بیان کا مفہوم یہ ہے کہ برائت کے اظہار اور دشمن کو پتھرمارےبغیر حقیقی حج نہیں ہے، پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت اطہار (ع) کے نزدیک، حقیقی حج وہ ہے جس میں دشمن سے بیزاری کا اظہار ہو۔ (مهدی‌نژاد، 1401، ص 192-199). پس ظالموں سےاظہار نفرت اور مظلوموں سے اظہار محبت اسلامی تہذیب کے ارکان میں سے ہیں۔

منابع

قرآن، ترجمہ شیخ محسن نجفی

مقام معظم رهبری کے بیانات: .https://www.farsi.khamenei.ir

مهدی‌نژاد، سیدرضا، بهار و تابستان 1401ش. «واکاوی وجوه ارتباط و اشتراک حج و تمدن نوین اسلامی در اندیشه آیةالله خامنه‌ای (دام ظله)» مجله پژوهش‌های گفتمان تمدنی انقلاب اسلامی، سال دوم، شماره سوم، ص 177 – 202.   

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close