تازہ ترین خبریںگلگت بلتستان

اسلامی جمہوریہ گلگت سے سرزمین بےآئین تک!!!

تحریر: غلام مرتضی جعفری

  دنیا میں ایک ایسا ملک بھی معرض وجود میں آیا، جس کی عمرمحض پندرہ دن تھی!، اس ملک کی خودمختاری کی حیثیت کسی غیرنے نہیں؛ بلکہ خود مالی اور جانی قربانیاں دے کر آزاد ریاست بنانے والوں نے ہی ختم کرکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری کہلانے پر فخرمحسوس کیا، شاید اس امید کے ساتھ  کہ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی اصولوں اور قوانین کے مطابق سب کو برابرکے حقوق ملیں گے اور ھندوستان کے زمانے کی طرح کسی پر ظلم و جبرنہیں ہوگا، آزاد زندگی ملے گی، ایک دوسرے کی ثقافت اور عقائد کا احترام ہوگا، اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع ملےگا۔ ان کو کیا معلوم ان کی یہ عظیم قربانی کا کسی کو احساس تک بھی نہ ہوگا اور ان کی نسلیں مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہونگی!!!۔

 سات دہائیاں گزرگئیں ہرآنے والی حکومت انتخابات کے ایام میں کچھ جھوٹے وعدے کرتی ہے اور مقصد پورا ہونے کے بعد ایسے فراموش کرجاتی ہے کہ علاقے کا نام بھی ان کے ذہن سے نکل جاتا ہے!۔ ان جھوٹے وعدوں اور بے نتیجہ بیانات کی وجہ سے خطے کی جوان نسل میں روز بہ روز مایوسی اور بے چینی بڑھ رہی ہے جو کسی بھی وقت کسی بڑے طوفان کا شکل اخیتار کرسکتی ہے۔

گلگت بلتستان کا مختصرتاریخی پس منظر

  جیسے ہی مملکت خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان، دنیا کے نقشے پرمعرض وجود میں آیا تو جموں و کشمیر کے مہاراجا نے گلگت، استور، ہنزہ، نگر، گلتری، روندو، شگر، کھرمنگ، خپلو، غذر، دیامر وغیرہ کو بدستور ہندوستان کا حصہ قرار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ علاقے ہندوستانی حکومت کے ماتحت ہی ہوں گے۔ مقامی اکابرین نے مہاراجا کے اعلان پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان کے زیرقبضہ رہنے سے نہ صرف مکمل طور پرانکار کیا؛ بلکہ گلگت میں آزادی تحریک کا آغاز کیا اور ایک سال بعد اس خطے کے عوام نے تمام ترمالی اور جانی قربانیاں دے کراس خطے کو ہندوستان سے الگ کرکے ایک آزاد ریاست بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جسے نہ صرف حکومت پاکستان نے بھی قبول کیا؛ بلکہ اقوام متحدہ کےسکیورٹی کونسل کو خط بھی لکھا گیا۔ راجہ شاہ رئیس خان اسلامی جمہوریہ گلگت کے پہلے صدر بنے، پندرہ دن تک آزاد ریاست رہنے کے بعد خطے کے عوام نے اسلامی جذبات کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا[1]۔ الحاق کے کچھ عرصہ بعد؛ یعنی اپریل 1949ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مرکزی شہر کراچی میں حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کا باہمی اجلاس منعقد ہوا؛ جس میں  گلگت بلتستان کے سیاسی رہنماؤں کی مرضی کے بغیراس خطے کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ ملحق کرنے کا اعلان کیا گیا جو بعد میں معاہدہ کراچی کے نام سے مشہور ہوا[2]۔ سال 1970ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدرجنرل محمد یحیی خان نے گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات کے نام سے ایک علیحدہ انتظامی حصے میں تبدیل کردیا؛[3] جبکہ سال 2009 میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے گلگت بلتستان کو صوبائی طرز حکومت کے تحت جزوی طور پر اختیارات منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس آرڈیننس کے تحت گلگت بلتستان اسمبلی میں 24 نشستیں قائم کی گئیں جن کا سربراہ وزیر اعلیٰ کو مقرر کیا گیا اور ساتھ ہی گورنر کا نظام بھی متعارف کرایا گیا[4]۔

گلگت بلتستان کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے بعدمقامی قیادت دنیا میں رائج بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کے تحت ریاست پاکستان میں ایک صوبے کی حیثیت سے شامل  کرانے میں قاصررہی، جس کی وجہ سے گزشتہ ستر سالوں کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود، آج بھی گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت نہ تو ایک علیحدہ ملک کی ہے اور نہ ہی یہ علاقہ پاکستان کے آئین میں شامل ہے[5]!!۔ جس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں:

آئینی حقوق سے محرومی کے وجوہات

   سوال یہ ہے کہ اگر گلگت بلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خود کو دوسرے شہریوں کی طرح برابر کا شہری دیکھنا چاہتے ہیں اور انہیں بھی باقی صوبوں کی طرح شناخت اور اختیارات درکار ہیں تو پاکستان کی مرکزی حکومتوں نے اب تک یہ اقدام کیوں نہیں اٹھایا؟

پاکستان کی تحریک انصاف سمیت گزشتہ حکومتیں گلگت بلتستان کو آئینی حقوق یا عبوری صوبہ بنانے کی باتیں کرتی رہی ہیں؛ تاہم عملی طور پر ایسا کرنے میں ناکام ہیں۔ ماہرین جس کی کئی وجوہات بیان کررہے ہیں۔

خود ساختہ قانونی پیچدگیاں

  پاکستان کے مقتدر اداروں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے میں مختلف قسم کی قانونی پیچدگیاں رکاوٹ ہیں۔ پاکستان کا باقاعدہ صوبہ بنانے سے اقوام متحدہ میں ملک کا موقف کمزور ہوگا!!۔ پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔! دوسری طرف پاکستان کے معروف عالم دین اور سیاستدان علامہ سید ساجد نقوی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں: گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے سے پاکستان کا موقف کمزور نہیں؛بلکہ مضبوط ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان ملک کی ضرورت بن چکا ہے اور پوری دنیا کے سامنے اسکی اہمیت بڑھ گئی ہے، اب یہ خطہ نہ صرف ملک کی ترقی کا ضامن ہے؛ بلکہ پاکستان کی اہم اکائی بن چکا ہے۔ ملکی و بین الاقوامی تناظر میں گلگت بلتستان کے عوامی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخی فیصلہ وقت کی ضرورت ہے۔ وہ متعدد بار حکومت پاکستان سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ گلگت بلتستان کی عوام کے مطالبات کو پورا کیا جائے اور اس خطے کی عوام کی قربانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کوآئینی حقوق دئیے جائیں اور گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بنایا جائے، نیز گلگت بلتستان کی عوام کو سینٹ اور پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی دے کر اس خطے کے عوام کی مایوسی کو فوری طور پردور کی جائے[6]۔

آئینی ماہر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس(ر) منظور حسین گیلانی کہتے ہیں: گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا پاکستان کے آئین میں ترمیم کیے بغیر کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر دونوں متنازعہ علاقے ہیں؛ لہذا ان دونوں علاقوں کو یکساں نظر سے دیکھنا چاہیے۔ حکومت پاکستان نے جو حالیہ سیاسی نقشہ جاری کیا ہے اس کی بھی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں؛ جب تک اسے آئین کی سطور میں شامل نہیں کیا جاتا۔ جسٹس گیلانی کی تجویز ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے دونوں متنازعہ علاقوں میں سٹیٹ سبجیکٹ رول برقرار رکھتے ہوئے انہیں پاکستان کے عبوری صوبے بنا کر مقامی لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دیے جانے چاہیے اور یہ فیصلہ کسی طرح بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے متصادم نہیں ہو گا[7]۔

گلگت بلتستان کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ہمارے آبا و اجداد نے جنگ لڑ کر خطے کو آزاد کرایا ہے؛ لہذا ہم کسی بھی طرح گلگت بلتستان کو متنازعہ تسلیم نہیں کرتے؛ ہندوستان کے زیرقبضہ علاقے متنازعہ نہیں ہوسکتے تو گلگت بلتستان کیسے ہوسکتا ہے!!؟؟۔ ہمارے حکمراںوں کو چاہئے کہ ایک آزاد علاقے کو خود سے متنازعہ بنانے کے بجائے اس خطے کی محرومیوں کوفوری طور دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب تک صوبہ نہیں بنایا جاتا انہیں آزاد کشمیر کی طرز کا انتظامی ڈھانچہ فراہم کیا جائے؛ تاکہ اس خطے کے شہریوں کی احساس محرومی دور ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی مسائل بھی حل ہوسکیں۔

ہندوستانی حکومت کی بے جا دخالتیں

   پانچ اگست 2019 کو مودی حکومت نے ہندوستان کے زیر قبضہ ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے اس خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد نہ صرف خطہ لداخ کو براہ راست یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ؛ بلکہ  اس ملک کےعسکری اور سیاسی نمائندوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اب ان کا اگلا ہدف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہے!۔ ہندوستانیوں کی دیرینہ خواہش ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی اس کے قبضے میں آئیں؛ چونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے دستاویز الحاق نامے کے تحت ان علاقوں کا بھی الحاق ہندوستان کے ساتھ کیا تھا؛ لہذا ان علاقوں پرہندوستانیوں کا حق ہے!، جس کے حصول کے لیے وہ نہ صرف سفارتی سطح پر سرگرم عمل ہے؛ بلکہ عسکری محاذ کے علاوہ مختلف قسم کے شیطانی حربے بھی استعمال کررہا ہے اور آنے والے وقتوں میں عین ممکن ہے کہ وہ ایک  نیا محاذ کھولنے کی بھی کوشش کرسکتا ہے۔

لہذا گلگت بلتستان کے شہریوں کا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو بھی وہی درجہ دیا جانا چاہیے جو ہندوستان کے زیرِ قبضہ کشمیر کو ہندوستان نے دیا ہے۔ جب اقوام متحدہ میں ہندوستان کا موقف کمزورنہیں ہوسکتا ہے تو پاکستان کا بھی نہیں ہوگا۔

مقامی سیاستدانوں کی قانون سے ناآشنائی

 ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان کی محرومیوں کی ایک اہم وجہ تاریخ، دنیائے سیاست اور قانون سے عدم آشنائی اور باصلاحیت قیادت کا فقدان ہے؛ جس کے باعث اس خطے کے باسیوں نے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو جیتنے کے باوجود بھی نہ تو ایک علیحدہ ملک بنا سکے نہ ہی آئین کے عین مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ الحاق کراسکے۔ سچ پوچھو تو گلگت بلتستان میں باصلاحیت قیادت کے فقدان سے فایدہ اٹھا کر اس علاقے کو نہ صرف متنازع ریاست جموں وکشمیر کا حصہ؛ بلکہ عالمی سطح پر متنازعہ علاقہ ڈیکلیئر کروایا گیا جس کا خمیازہ اس علاقے کے باسی آج تک بھگت رہے ہیں۔

قومی نمایندوں کی منفی کارکردگی

 کسی بھی قوم کو بیدار کرنے اور انہیں ہرقسم کے جبر و ستم سے نجات دلانے میں قومی نمایندوں کا ہی کردار ہوتا ہے؛ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی قیادت کرنے کا دعویٰ کرنے والے اکابرین آئینی حقوق کے حصول کےلئے نہ صرف کسی قسم کا مثبت کردار ادا نہیں کر رہے ہیں؛ بلکہ ان کا کردار نہایت افسوسناک اور منفی بھی رہا ہے۔ یہ نمایندے اپنی پارٹی قیادت کو خوش کرنے کے درپے ہوتے ہیں ان کو عوامی جذبات اور خطے کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں!۔

مقامی سطح پرمضبوط سیاسی پارٹی کا نہ ہونا

  گلگت بلتستان کو پاکستان کی آئین میں جگہ نہ ملنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ مقامی سطح پرمضبوط سیاسی پارٹی کا نہ ہونا ہے۔ گلگت بلتستان میں اسی کی حکومت بنتی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہو، ’حتی کہ سیاستدان بھی یہی دیکھتے ہیں کہ وفاق میں کس کی حکومت ہے تاکہ یہ اس پارٹی کو جوائن کر لیں؛ لہذا گلگت کی قانون سازاسمبلی کے لئے منتخب ہونے والے تمام نمایندے پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن ہوتے ہیں وہ اپنی جماعت کے منشور کے خلاف ایک بات تک نہیں کرسکتے!۔ وہ وہی کرتے ہیں جو اسلام آباد، کراچی، لاہور یا پشاور سے ان کی پارٹی کی قیادت حکم دیتی ہے!۔ گلگت بلتستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق وہ شخص بات کرسکتا ہے جو مستقل اور آزاد ہو۔

قانون ساز اسمبلی میں سکوت کا روزہ رکھنا

  جب قوم کا منتخب نمایندہ کسی دوسرے صوبے کی سیاسی تنظیم کا آلہ کار ہوتو اس سے گلگت قانون سازاسمبلی میں اسلام اباد میں بنائی گئی پالیسی کے خلاف کوئی بات کرنے کی توقع رکھنا ہی فضول ہے؛ یہی وجہ ہے کہ قانون ساز اسمبلی میں سوائے چند ایک بار کے علاوہ آئینی حقوق کے متعلق بات تک نہیں ہوئی ہے۔ جہاں سے ملکی مقتدر اداروں تک اپنی دل کی بات پہنچائی جاسکتی وہاں وہ سکوت کا روزہ رکھا جائے تو پاکستانی حکمرانوں کو احساس کیسے ہوگا؟  اورحقوق کیسے ملیں گے؟

ذاتی مفادات کی پاسداری!

   قوم کسی بھی نمائندے کو منتخب کرتی ہے تو اس کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ قومی مفادات کی پاسداری کرے؛ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثرنمائندے ذاتی اور پارٹی مفادات کو مد نظررکھتے ہوئے قومی آرمانوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ان کو صرف اپنے ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ کہیں سے حقوق کی بات کی بھی جاتی ہے تو انہیں ڈرا دھمکا کر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

فرقہ واریت، قومی اور لسانی تعصبات!

 آئینی حقوق کے حصول میں ایک اور اہم ترین رکاوٹ خطے میں موجود جاہلانہ خاص کرفرقہ وارانہ، قومی اور لسانی تعصبات ہیں۔ جب بھی کوئی قوم انتشار کا شکار ہوتی ہے تو اس کے حقوق غصب ہوجاتے ہیں۔

کشمیری قیادت کی واویلا!

  کشمیری قیادت سمجھتی ہے کہ مستقبل میں کسی بھی استصواب رائے میں کشمیر کی آزادی کی آواز اسی صورت زیادہ موثر ہو گی؛ جب اس میں گلگت بلتستان کے عوام کی حمایت بھی شامل ہو؛ لہذا کشمیریوں کا کہنا ہےکہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنانے سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا موقف کمزور ہوگا اور تحریک آزادی کشمیر پرمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔ آزاد کشمیر کے سیاسی رہنما سردار عتیق احمد خان کا کہنا ہے کہ  اگر کسی تسلیم شدہ متنازعہ علاقے کو پاکستان میں ضم کیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف ہندوستان کے جبری اقدامات کی تائید ہوگی؛ بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے سفارتی مفادات کو نقصان پہنچے گا[8]۔

دوسری طرف گلگت بلتستان کے باشندوں کا کہنا ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا کشمیرسے دورکا بھی تعلق نہیں ہے، جبری طور گلگت بلتستان کو متنازعہ تسلیم کرنا سمجھ سے بالاتر ہے؛ کیونکہ گلگت بلتستان ہمیشہ سے کشمیر کا حصہ تھا ہی نہیں؛ اس علاقے کو جبری طور پر کسی علاقے سے الحاق کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔1841میں سکھوں نے بزور طاقت کشمیرمیں شامل کیا بعد میں سکھوں کو شکست کے بعد  ڈوگرہ راج کا حصہ بنا دیا گیا۔

آئینی حقوق کاحصول کیسےممکن ہے؟

اتفاق و اتحاد

   ہرقوم کا دنیاوی اور اخروی فائدہ باہمی تعاون اور ہمدردی پرمنحصر ہے، اس کے بغیر نہ زندگی سنور سکتی ہے اور نہ ہی معاشرے میں استحکام آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو تفرقہ بازی سے دور رہنے کا حکم دیا ہے[9]؛ لہذا جب تک گلگت بلتستان کے شہری ہرقسم کے مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات سے دور نہیں ہوں گے تب تک وہ محرومی اور غلامی کا شکار ہی رہیں گے۔

انسان کے تمام تر باہمی معاملات اور مفادات اتفاق اور اتحاد سے ہی پورے ہوتے ہیں۔ عظمت رفتہ کو واپس لانے کا بہترین راستہ یہی ہے۔ اتحاد انسان کے ارمان پورے کرنے اور ہرقسم کے حقوق کے تحفظ کا بہترین ذریعہ ہے۔

علاقائی مفادات کی پاسداری

  گلگت بلتستان کے سیاسی نمائندوں کو پارٹی مفادات سے بڑھ کرخطے کے مفادات کا سوچنا ہوگا، جب تک پارٹی مفادات درجہ اول پر ہوں گے تب تک حق نہیں ملے گا۔

عوامی طاقت کا استعمال

  دنیا بھرمیں احتجاج اور دھرنوں کے ذرئعے اپنے مطالبات تسلیم کروائے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی ختم ہونے پر دھرنے اور احتجاج تو کیا جاتا ہے؛ لیکن آئینی حقوق کے حصول کے لئے آج تک کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام میں سیاسی شعور کا فقدان ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے نمایندے عوام کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ لہذا جب بھی پاکستان کی اعلیٰ قیادت اس خطے کے دورے پر آتی ہے تو خطے کے مشکلات اور خواہشات سے آگاہ کرنے کے بجائے خوشامد گوئی پراکتفا کیا جاتا ہے۔

آئینی حقوق کا تعین ناگزیر

 گلگت بلتستان کے جوان خاص کرتعلیم یافتہ افراد میں احساس محرومی روز بروز بڑھ رہی ہے؛ اگر حکومت پاکستان نے بروقت صحیح فیصلہ نہ کیا تو اس کے خطرناک نتائج نمودار ہوسکتے ہیں؛ کیونکہ موجودہ عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ کی شروعات کے ساتھ ایک نیو گریٹ گیم کی ابتدا ہوچکی ہے۔ اس وقت عالمی طاقتوں کی نظر گلگت بلتستان پر ہے؛ ون روٹ ون بلٹ کے تحت چین- پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر بھارت اورامریکا اپنے تحفظات کا برملا اظہار کرچکے ہیں؛ لہذا تمام اندرونی اور بیرونی نزاکتوں کا خیال رکھتے ہوئے جلد از جلد کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے۔


[1]۔ علامہ ساجد نقوی، حکومت پاکستان نے گلگت کو ایک آزاد ریاست کے طور پر کہ نہ صرف قبول کیا۔ تسکین نیوز سے اقتباس۔ https://taskinnews.com/?p=534۔

جی بی کے عوام کو مکمل آئینی حقوق دیئے جائیں، علامہ ساجد نقوی۔ https://www.islamtimes.org/ur/news/961518

[2]۔ محمد یوسف حسین آبادی، تاریخ بلتستان، فروری 2009ء ، ص 291۔

[3]۔ محمد یوسف حسین آبادی،  تاریخ بلتستان، فروری 2009ء، ص 298۔

[4]

[5]۔ گلگت بلتستان: نوآبادیات کا گمنام گوشہ۔ قسط 3۔ مزید تفصیلات کے لئے دیکھیے: https://www.humsub.com.pk/273512/ashfaq-ahmed-advocate-14/

[6]۔ ساجد نقوی، گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے سے پاکستان کا موقف کمزور نہیں مضبوط ہوگا۔ مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے: https://tn.ai/2132134

[7]۔ (https://www.independenturdu.com/node/48351

[8]۔ https://www.independenturdu.com/node/48351

[9]۔ آل عمران: 103۔ «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا؛  اللہ کی رسی کو تھام لو گروہوں میں مت بٹو»

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close