تازہ ترین خبریںگلگت بلتستان

گلگت بلتستان کے خالی ہوتے دیہات اور حکومت کی بے حسی

گلگت بلتستان کے بالائی اور دیہی علاقوں میں روز مرہ زندگی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ سینکڑوں لوگ شہروں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔

پاکستان کے جنت نظیر علاقے گلگت بلتستان کے دیہی علاقے حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔

خطہ گلگت بلتستان پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ پاکستان میں سیاحت کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔

اس خطے میں مختلف جھیل، پہاڑ، وادیاں، ندیاں، کھیل کے میدان، تاریخی عمارتوں کے علاوہ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی “کے ٹو” بھی اسی خطے میں واقع ہے۔

سالانہ ہزاروں ملکی اور غیرملکی سیاح گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں لیکن یہاں کے باسی روزمرہ سہولیات کی فقدان، خاص کر سردیوں کے موسم میں کسی بھی قسم کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اسکردو اور گلگت کے علاوہ پاکستان کے گنجان آباد شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔

یاد رہے کہ دیہی علاقوں سے مرکزی شہروں کی طرف سالانہ سینکڑوں گھرانے ہجرت کرتے ہیں جس کی وجہ سے گلگت اور اسکردو میں ایک چھوٹے پلاٹ کی قمیت اسلام آباد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دیہی اور بالائی علاقوں میں سخت برف باری ہوتی ہے، کئی علاقوں میں تو دو میٹر تک برف پڑتی ہے، حکومت کی طرف سے انتظامات بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پرانے زمانے میں لوگ لکڑیاں جلا کر گزارا کرتے تھے لیکن اب جنگلات کا مکمل طور پر خاتمہ ہوچکا ہے، جلانے کے لئے لکڑیاں بھی نہیں ملتیں اور لوگ شدید مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔

سردی کی شدت میں اضافہ ہونے سے یہاں کے عوام کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس کے لئے ان کو سردیوں میں اضافی اخراجات کا سامنا رہتا ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں صرف ہیٹنگ کے لئے کم از کم 50ہزار روپیہ لکڑی اور مٹی کے تیل پر خرچ ہوتے ہیں۔

خیال رہے کہ موسم سرما میں گلگت بلتستان کے تمام اضلاع شدید سردی کی لپیٹ میں رہتے ہیں خاص کر اس خطے کے بالائی علاقوں کی خون جما دینے والی سردی عوام کی معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ بہت سارے دیہاتوں کے راستے ہی برف باری کی وجہ سے مکمل طور پر بند ہوجاتےہیں۔

موسم سرما یہاں کے لوگ اپنے دیہاتوں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتے ہیں راستوں کی بندش کے ساتھ یہاں کاروباری اور ترقیاتی سرگرمیاں بھی منجمد ہو جاتی ہیں لوگ بے روزگار ہوجاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتے ہیں۔

بعض بالائی علاقوں کا زمینی رابطہ 4 سے 5 ماہ تک بند رہتا ہے، ایسی حالت میں لوگوں کے پاس ہجرت کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان علاقوں پر توجہ دے تو ہم اپنے ہی علاقوں میں رہنا چاہتے ہیں۔

لوگوں کو مختلف موسمی بیماریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر بچے اور بوڑھے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان دیہاتوں میں بنیادی طبی سہولیات دستیاب نہ ہونے کے باعث متعدد افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ اکثر دیہاتوں میں ہسپتال کا نام و نشان تک نہیں ہے، اگر کوئی بیمار ہوجائے تو دسیوں کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد سڑک تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کےبعد گاڑی میں کم ازکم 3 سے 4 گھنٹے سفر کرنے کے بعد اسکردو یا گلگت پہنچ جاتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں سیلنڈروں سے محدود پیمانے پر گیس فراہم کی جاتی ہے جو انتہائی مہنگی اور نایاب ہونے کی وجہ سے غریب لوگوں کی رسائی سے باہر ہے۔ ضلع دیامر سے محدود پیمانے پر ایندھن لکڑی خطہ کے دیگر اضلاع کو سپلائی ہوتی ہے، لیکن جلانے والی لکڑی کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ ان حالات میں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر گرم علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔

پورا ملک سوئی گیس کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن گلگت بلتستان میں ایندھن کا بحران شدت اختیار کررہا ہے، اس خطہ میں اگر حکومت کی جانب سے مقامی پاور پراجیکٹس پر توجہ دی گئی تو بجلی کی پیداوار سے ایندھن کی مشکلات حل ہوسکتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوسکتے ہیں اور اس کے علاوہ پاکستان کے دوسرے شہروں کو بھی  بجلی مہیا کی جا سکتی ہے۔

ترتیب: غلام مرتضی جعفری

Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close