تازہ ترین خبریںپاکستان

شہید محسن نقوی کی یاد میں تقریب کا انعقاد


قائدا عظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ بوسن روڈ ملتان میں معروف شاعراہل بیت محسن نقوی کی یاد میں ڈاکٹر اسد اریب کی زیرصدارت تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

اسلام نیوز کی رپورٹ کے مطابق، قائدا عظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ بوسن روڈ ملتان میں معروف شاعراہل بیت محسن نقوی کی یاد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا اردو شاعری محسن نقوی کا تذکرہ کئے بغیر ادھوری ہے

 مہمانان خصوصی میں ماہ طلعت زاہدی ، اسلم درانی ، سیدقیصر نقوی ، شوذب کاطمی ، محمد اکرم شاہ ، احمد فاروق ، مسنورین ناز ، شاہد عباس شامل تھے۔ ۔ تقریب سے اپنے خطاب میں ڈاکٹر اسد اریب نے کہا کہ محسن نقوی کو منفرد لب و لہجے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا اگر قوم کے مزاج میں شعروسخن گھول دیا جائے تو وہ اس دہشت گرد ماحول میں سکھ کا سانس لے سکے گی، دہشت گردی نے محبت و امن کے گیت گانے والے معصوم شاعر کو ہم سے چھین لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو شاعری محسن نقوی کے تذکرے کے بغیر ناممکن ہے۔

واضح رہے کہ سید محسن نقوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔ ان کا مکمل نام سید غلام عباس تھا۔ لفظ محسن اُن کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ لہذا بحیثیت ایک شاعر انہوں نے اپنے نام کو محسن نقوی میں تبدیل کر لیا اور اِسی نام سے مشہور ہو گئے۔ محسن نقوی 5، مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے- انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پھر جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن کرنے کے بعد جب یہ نوجوان جامعہ پنجاب کے اردو ڈیپارٹمنت میں داخل ہوا تو دنیا نے اسے محسنؔ نقوی کے نام سے جانا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعۂ کلام چھپا۔ بعد میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہلبیت پہ لکھی ہوئی شاعری بیان کیا کرتے تھے۔

اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر محسن نقوی نے کالعدم تحریکِ طالبان،سپاہ صحابہ اور اس کی ذیلی شاخوں کو اپنی شاعری کے ذریعے بے نقاب کرناشروع کیا تو پھر وہی ہوا جو اس ملک میں ہر حق گو کا مقدر ہے۔ اردو ادب کا یہ دمکتا چراغ 15 جنوری 1996ء کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں

یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے

سر سناں، کوئی سر سجاؤ ! اُداس لوگو

شہادت سے چند لمحے قبل محسن نقوی نے ایک لازوال شعر کہا تھا کہ

سفر تو خیر کٹ گیا

میں کرچیوں میں بٹ گیا۔

محسنؔ نے بے انتہا شاعری کی جس میں حقیقی اور مجازی دونوں پہلو شامل تھے۔ ان کی پہچان اہلبیتِ اطہارعلیہم السلام کی شان میں کی گئی شاعری بنی۔

Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close