اسلامتازہ ترین خبریں

حج کا مقام؛ قرآن، رسول اکرم اور ائمہ معصومین کی نگاہ میں

قرآن مجید کی آیات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت طیبہ میں حج کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔

ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

تحریر: داود حسینی[1]

اس مضمون میں قرآن کریم اور روایات ائمہ اطہار علیہم السلام میں حج کا مقام اور اہمیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

الف) قرآن میں حج کا مقام: قرآن کریم میں حج کئی لحاظ سے ایک خاص اور منفرد خصوصیت کا حامل ہے اور اللہ تعالی نے متعدد آیات میں حج کی اہمیت کا ذکرکیا ہے۔

  1. تبلیغ میں حج کی اہمیت: اللہ تعالی نے اپنے بندوں تک حج کرنے کا پیغام حضرت ابراہیم کے ذریعے پہنچایا: جیسے کہ اللہ تعالی حضرت کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو حج کی دعوت دے۔ «وَ أَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجالاً وَ عَلى‏ كُلِّ ضامِرٍ يَأْتينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَميق‏‏»( حج ، 27)؛ «اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں». وَ اَذِّنۡ: بیت اللہ کی تطہیر کے حکم کے بعد لوگوں میں حج کے اعلان کا حکم دیا جا رہا ہے۔ مخاطب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم مل رہا ہے کہ حج کا آغاز کرو۔ اس کے بعد اس اعلان ابراہیمی کے اثرات بیان ہوئے کہ لوگ قیامت تک پیدل چل کر کمزور اونٹوں تک کے ذریعے سفر طے کر کے آپ کی آواز پر لبیک کہیں گے؛ چنانچہ آج حج میں لاکھوں کا مجمع اسی اذان ابراہیمی کے نتیجے میں ہے۔
  2. عمومیت مخاطب: قرآن کریم نے حج کرنے کے حکم کوکچھ منفرد انداز میں بیان کیا ہے، دوسرے واجب احکام جیسے نماز کے وجوب کے بارے میں صیغہ امر کا استعمال کیا ہے: «اَقیِمُوا الصَّلوَه»( بقره/ 30) ؛یا صفات میں سے کسی صفت کا استعمال کیا ہے: «اِنَّ الصَّلوةَ کَانَتْ عَلَیَ الْمُؤمِنیِنَ کِتابَاً مَوقوُتا» ( نساء /130) اسی طرح روزے کے وجوب کو صفت ایمان کے ساتھ ذکرفرمایا ہے:«يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيام‏» (بقرة /183)؛ لیکن حج میں مخاطب عام ہے؛یعنی پوری انسانیت کو مخاطب قرار دیا گیا ہے: «لِلّهِ عَلَی النّاس حِج البَیتِ» (بقرة / 183)۔ ان دونوں خطابات میں فرق، عظیم اسرار کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو حج میں موجود ہیں۔
  3. 3-     حج کا ثواب: بغیرکسی قید کے ساری انسانیت کو حج کرنے کی دعوت دی گئی ہے؛ یہ صفت حج کےعلاوہ کسی دوسری عبادت میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے؛ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:«وَدَّ مَنْ‏ فِي‏ الْقُبُورِ لَوْ أَنَّ لَهُ حَجَّةً بِالدُّنْيَا وَ مَا فِيهَا»۔ (شیخ صدوق، من لا يحضره الفقيه، ج‏2، ص226)؛ «جو قبروں میں ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ پوری دنیا اور جوکچھ اس میں ہے،کے بدلے صرف ایک حج بجالائیں»؛ یعنی حج کا ثواب اور اجر اتنا زیادہ ہے کہ ایک حج کے بدلے پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے دیا جائے توبھی کم ہے۔
  4. تاریخ کی شناخت: قرآن کریم نے تاریخ کے آغاز اور انتہا کا تعین، حج کے ذریعے کیا ہے؛ جیسے کہ اللہ تعالی حضرت موسیٰ اور  حضرت شعیب کے قصے میں فرماتا ہے:«قالَ إِنِّي أُريدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هاتَيْنِ عَلى‏ أَنْ تَأْجُرَني‏ ثَمانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْراً فَمِنْ عِنْدِك‏»(القصص/ 27)؛«(شعیب نے) کہا:میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح اس شرط پر تمہارے ساتھ کروں کہ تم آٹھ حج (سال) میری نوکری کرو اور اگر تم دس (سال) پورے کرو تو یہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے اور میں تمہیں تکلیف میں ڈالنا نہیں چاہتا، انشاءاللہ تم مجھے صالحین میں پاؤ گے».
  5. 5-     کفر اور ایمان کی پہچان: حج، اللہ تعالی کی جانب سے لوگوں پر سالانہ فریضے کے طور پرواجب کیا گیا ہے اور عمدا حج بجا نہ لانے والے کو کافر قرار دیا گیا ہے:«وَ لِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ الْبَيتِ مَنِ اسْتَطاعَ اِلَيهِ سَبيلا وَ منْ کَفَرَ فإنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ العالَمين»(آل عمران/ 97) ؛ «اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ امان والا ہو گیا اور لوگوں پراللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے»۔؛ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو«من کفر»سے تعبیرکیا گیا ہے؛ یعنی اس حکم کے بعد جو کوئی کافرانہ رویہ اختیارکرے اور استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تواس کا شمار منکرین اور کافرین میں ہوگا۔
  6. مادی اور روحانی فوائد کا مشاہدہ: حج مسلمانوں کو مادی اور روحانی فائدے مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے؛اللہ تعالی قرآن کریم میں دعوت حج کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:«لِيَشْهَدوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ۔۔۔» (حج/ 28)؛ «تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ۔۔۔»۔ ائمہ اطہار علیہم السلام سے اس آیہ شریفہ کی تفسیرمیں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں اور ائمہ اطہارعلیہم السلام نے منافع سے مراد، مادی اور روحانی دونوں فائدے بیان کئے ہیں۔

ب ) رسول اللہ اور ائمہ معصومین کی سیرت میں حج کا مقام: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت طیبہ میں حج کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جس کےچند نمونے ملاحظہ کیجئے:

  1. سخت ترین حالات میں بھی حج بجا لانا: ائمہ اطہارعلیہم السلام حج کو بہت اہمیت دیتے تھے اور یہی وجہ تھی کی سخت ترین حالات میں بھی حج ترک نہیں کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ہجرت سے پہلے بیس حج اور ہجرت کے بعد ایک حج کیا۔ ( کلینی، الكافي، ج‏4، ص 252)؛اسی طرح امیرالمومنین، امام حسن و امام حسین علیہم السلام نے متعدد بار حج بجا لائے؛ جیسے کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ امام حسن اور امام حسین علیہمالسلام نے25 بار حج بجالایا۔ (ابن شهرآشوب، مناقب آل علی،ج4، ص69؛ ابن مغازلی، المناقب، ص71) ؛

معصومین علیہم السلام نے لوگوں کو حج کرنے کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج نہ کرنے والے ایک شخص سے فرمایا: اگر تمہارے پاس ابو قبیس کے پہاڑ جتنا سونا ہوتا، اور تو اسےراہ خدا میں خرچ کرتا تو پھر بھی تم وہ ثواب حاصل نہ کر پاتا جو حاجی نے حاصل کیا ہے۔ (طوسی، تهذیب الاحکام، ج5، ص19)؛ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنی وصیت میں فرماتے ہیں کہ خبردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ کا گھر (کعبہ) خالی رہے اس صورت میں کسی کو بھی مہلت نہیں دی جائے گی۔ « اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِي‏ بَيْتِ‏ رَبِّكُمْ، فَلَا يَخْلُوَنَّ مِنْكُمْ مَا بَقِيتُمْ فَإِنَّهُ إِنْ يُتْرَكْ لَمْ تُنَاظَرُوا» (کلینی، الکافی، ج5، ص 51)۔

2۔ مناسک حج کی تعلیم: رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہارعلیہم السلام پورے اھتمام کے ساتھ حج کے مناسک بیان کرتے تھے۔ رسول اکرم (ص) نے حجہ الوداع کے موقع پر بھی مناسک حج بیان فرمایا۔ (واقدی، المغازی، ج2، ص1100)؛ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سعی کرنے کے بعد مروہ پہاڑ کی چوٹی پر جلوہ افروز ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور عمرہ کے احکام بیان فرمایا تو سراقہ بن مالک نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں دین کے احکام اس طرح سکھائیں جس طرح ماں اپنے نومولود بچے کو سکھاتی ہے۔ پھرعرض کیا: یا رسول اللہ آپ نےجو کچھ بیان فرمایا ہے وہ اس سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے؟ رسول اکرم (ص) نے فرمایا یہ حکم ہمیشہ کے لئے ہے۔ (کلینی، الکافی، ج4، ص 246)۔

حج کے اسرار: حج کے اسرار و رموز کو صرف رسول خدا(ص)اور آئمہ معصومین ہی بہتر بیان کرسکتے ہیں۔ جیسے کہ نہج البلاغہ میں امیر المومنین علیہ السلام نے خانہ کعبہ کو مکہ میں خشک، پتھریلی، بے آب و گیاہ والی زمین پر واقع ہونے کے فلسفے کا ذکر کیا اور اسے خدا کے بندوں کی آزمائش کا ذریعہ قرار دیا.(سید رضی، نهج البلاغه، خطبه 1 و 192) اسی طرح شبلی کی حدیث میں امام سجاد نے شبلی کے لیے احرام سے حج کے ختم ہونے تک حج کے راز بیان کیے ہیں۔ (نوری، مستدرک الوسائل، ج10، ص 166)۔ اسی طرح امام صادق نے کتاب مصباح الشریعہ میں حج کے اسرار کا کچھ حصہ بیان کیا ہے.(جعفربن محمد، مصباح الشریعه، ص47)۔

فهرست منابع

قرآن کریم؛ ترجمہ شیخ محسن نجفی

ابن شهر‌آشوب، محمد بن علي السَروي المازندراني، مناقب آل ابي‌طالب، بيروت، ذوي القربي، 1421ق۔

ابن مغازلی، علی بن محمد، مناقب الامام علی بن ابی طالب، بیروت، دار الاضواء، 1424ق.

شريف رضي، محمد بن حسين‏، شرح نهج البلاغه فيض الاسلام اصفهانى، على نقى‏، مصحح: فيض الإسلام‏، مؤسسه چاپ و نشر تأليفات فيض الإسلام‏: تهران‏، بی تا.

شیخ صدوق، محمد بن على، من لا يحضره الفقيه – قم، چاپ: دوم، 1413 ق.

طوسى، محمد بن الحسن‏ ، تهذيب الأحكام( تحقيق خرسان) ، مصحح: خرسان، حسن الموسوى‏ ، دار الكتب الإسلاميه‏ ، تهران‏ ، 1407 ق‏۔

كلينى، محمد بن يعقوب، الكافي (ط – الإسلامية) – تهران، چاپ: چهارم، 1407 ق.

منسوب به جعفر بن محمد، مصباح الشريعة، امام ششم عليه السلام‏، اعلمى‏، بيروت‏: 1400ق.‏

نوري، حسين، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، محقق / مصحح: مؤسسة آل البيت:، مؤسسة آل البيت:، قم، 1408ق.

واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تهران، نشر دانشگاهی، 1362ش.


[1] . داود حسینی، حج و زیارت کے تحقیقاتی ادارے کے مدیراعلیٰ۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close