تازہ ترین خبریں

امام خمینی کی کامیابی کے راز

امام خمینی کی اہم ترین صفت یہ تھی کہ وہ خودی پر ناز نہیں کرتے تھے، ان کی پوری توجہ اللہ کے حکم اور شرعی ذمہ داری پر ہوتی تھی، یہی وجہ بنی کہ اللہ تعالی نے انہیں ہرموڑ پرکامیابی عنایت فرمائی۔

تحریر: سید مہدی موسوی‌

ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

ہر انسان کے کردار اور رویے کا تعین، انسانی اور پوری ہستی؛ یعنی کائنات کے وجود کے بارے میں نقطہ نظر سے ہوتا ہے، اسی نقطہ نظر کے مطابق انسان کے مقاصد اور اھداف بھی معین ہوتے ہیں۔ شخص کائنات اور وجود انسان کو جس نظرسے دیکھتا ہے اسی نظر کے عین مطابق اپنے لئے اصول وضع کرتا ہے۔

 انسانی رفتار اور کردار کو الہی روپ میں ڈالنے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان  شرعی وظیفے کے مطابق عمل کرے۔ایک دیندار اور مذہبی شخصیت کے لئے یہی بہترین طریقہ ہے؛ کیونکہ شرعی ذمہ داری پر عمل، انسان کے کردار اور نظریے کو مستحکم بنا کر کسی بھی شبہے اور بے جا مصلحتوں کے شکار ہونے سے بچا کر الہی راستے پر گامزن کرتا ہے۔ ایک دیندار انسان کہ جس کے دل و دماغ میں صرف اللہ ہو، اللہ کی رضا مد نظر ہو، اس کے اعمال، شرعی حکم کے مطابق ہوتے ہیں؛ یعنی وہ سب سے پہلے اپنی شرعی ذمہ داری تلاش کرتا ہے، اپنا شرعی وظیفہ جاننے کی کوشش کرتاہے؛ کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ بندہ خدا ہے۔

تکامل اور رضایت کا بہترین راستہ

 تکامل اور رشد کے لئے سب سے پہلے صحیح بندگی کا طریقہ اور راستہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے، جب اسے راستے کا پتہ چلتا ہے تو پورے اطمئنان کے ساتھ اپنے شرعی اور الہی حکم پر عمل کرتا ہے،خود کو اپنے معبود سے قریب کرتا ہے؛ تاکہ خلیفہ اللہی کے منزل کے قریب پہنچ سکے۔ جب انسان کسی بھی کام کو  الہی حکم ہونے کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو کسی چیز سے نہیں گھبراتا ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ کامیاب ہوگا یا نہیں؟، وہ صرف اپنی ذمہ داری ادا کررہا ہوتا ہے۔ نتیجہ اللہ پر چھوڑتا ہے۔ مومن اور دیندار انسان اپنے فرائض اور شرعی ذمہ داریوں پر توجہ دیتا ہے جو کہ تکامل اور الہی رضایت کا بہترین راستہ ہے۔  ایسا شخص ایک ایسے راستے پر گامزن ہوتا ہے جو مشروع اور جائز ہو[1]۔

انبیاء بھیجنے کا مقصد

علامہ طباطبائی، اللہ تعالی کی جانب سے انبیاء بھیجنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انبیاء علیہم السلام لوگوں کو ایسے عقائد اور اعمال سکھانے آئے ہیں، جس کی روشنی میں انسان اپنی حقیقی سعادت کو یقینی بنائے؛ لہذا انسان کو چاہئے کہ اپنی زندگی کی بنیاد مذہبی اور دینی عقائد پر رکھے اور تمام دینی ذمہ داریوں پر عمل کرے؛ تاکہ وہ کمال کے درجات پر فائز ہوسکے[2]۔ قرآن کریم کے مطابق تمام انبیاء کرام علیہم السلام ذمہ داریوں میں سے ایک یہ تھی کہ وہ اللہ کے پیغام اور لوگوں تک پہنچائیں، اللہ تعالی ان سے سوال کرے گا اور کسی قسم کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ «فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلينَ؛ پس جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ہر صورت میں ان سے سوال کریں گے اور خود پیغمبروں سے بھی ہم ضرور پوچھیں گے[3]»۔

ہدایت اور راہنمائی کا معاوضہ

انبیاء علیہم السلام رسالت؛ ہدایت و رہنمائی کے بدلے لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں مانگتے: جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:«وَيَا قَوْمِ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالاً إِنْ أَجْرِي إِلاَّ عَلَى اللَّهِ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّهُمْ مُلاقُو رَبِّهِمْ وَلَكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْماً تَجْهَلُونَ؛ اور اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور میں ان لوگوں کو اپنے سے دور بھی نہیں کر سکتا جو ایمان لا چکے ہیں، یقینا یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں؛ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جاہل قوم ہو۔[4]»  دوسری آیت میں ارشاد ہے: «يَا قَوْمِ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ  إِنْ أَجْرِي إِلاَّ عَلَى الَّذِي فَطَرَنِي أَفَلا تَعْقِلُونَ؛ اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اس ذات پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے[5]؟»۔ یعنی جب میں ہر قسم کے مفاد سے بالاترہو کر اس دعوت کے سلسلے میں مشقتیں اٹھا رہا ہوں اور تمہارے دین کی مخالفت کر کے سب کو اپنا دشمن بنا چکا ہوں تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ اگر حق و حقیقت جیسی اطمینان بخش طاقت میری پشت پر نہ ہوتی تو ان سب مصائب و مشکلات سے بے پرواہ ہو کر اس گرداب میں کیوں کود پڑتا؟۔

شرعی ذمہ داری کا بہترین نمونہ

 قرآن کریم شرعی ذمہ داری کے بارے میں ایک بہترین نمونہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ ہے جو ایک دیندار انسان کے لئے اسوہ کامل ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی انفرادی زندگی سے لیکر اجتماعی امور میں اللہ تعالی کو حاضر و ناظر اور ہرچیز پر شاہد جانتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نظرمیں سخت سے سخت ترین کام بھی نہایت آسان ہوجاتاہے۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں ان کا ذکر موجود ہے، ان کی زندگی کے سخت ترین حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جیسے اپنے وطن سے ہجرت اور سخت مشکلات کا سامنا کرنا۔ «رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتي‏ بِوادٍ غَيْرِ ذي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنا لِيُقيمُوا الصَّلاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوي إِلَيْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَراتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ؛ اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا، اے ہمارے رب! تاکہ یہ نماز قائم کریں؛ لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ یہ شکرگزار بنیں[6]»۔ اسی طرح حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کا حکم: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قالَ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى‏ فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ ما ذا تَرى‏ قالَ يا أَبَتِ افْعَلْ ما تُؤْمَرُ سَتَجِدُني‏ إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرينَ؛ پھر جب وہ ان کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے، اس نے کہا : اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے[7]۔ واضح رہے کہ انبیاء کا خواب وحی کا درجہ رکھتا ہے اور وحی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم کو اس بات میں کوئی تردد نہیں ہوا کہ اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کا حکم مل رہا ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جواب افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خواب میں ذبح اسماعیل علیہ السلام کا حکم ملا تھا[8]۔

امام خمینی کی زندگی میں انبیاءعلیہم السلام کے جلوے

امام خمینی نے اپنی زندگی انبیاء علیہم السلام کے نقش قدم پر چل کر گزاری، امام خمینی کی زندگی میں انبیاءعلیہم السلام کی سیرت کے جلوے نظرآتے ہیں۔ جیسے کہ رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: امام خمینی کی زندگی اور طرز عمل کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پوری توجہ روحانیت اور معنویت پر ہوتی تھی، امام کے کردار اور رفتار کا دار و مدار روحانیت اور اللہ کی رضا پرموقوف تھا، امام اللہ کی خشنودی کو مد نظر رکھتے تھے۔ امام خمینی، اللہ تعالی کی تشریعی اور تکوینی ارادے پر یقین راسخ رکھتے تھے، امام خمینی جانتے تھے جو اللہ کی راہ میں حرکت کرتا ہے اللہ کی جانب سے ضرور نصرت ہوتی ہے۔ امام خمینی اعتقاد راسخ رکھتے تھے کہ وَ لِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ كانَ اللَّهُ عَزيزاً حَكيماً؛ اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ کے ہیں اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

امام خمینی کی تحریک کی بنیاد شرعی قوانین

امام خمینی شریعت کے قوانین کو اپنی تحریک کی بنیاد سمجھتے تھے اور اپنی تحریک کی رہنما نشانیوں کو سمجھتے تھے۔ ملک و قوم کی خوشحالی کے لیے امام کی تحریک اسلامی شریعت کی رہنمائی پر مبنی تھی؛ لہذا امام کی نظر میں “الٰہی شریعت اور احکام”  سعادت کی چابی کی حیثیت رکھتے تھے؛ یہی وجہ تھی کہ امام خمینی ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل کررہے ہیں، نتیجہ کے لئے نہیں، نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کامیابی امام خمینی کی آروزو ضرور تھی، کیونکہ کامیابی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ امام خمینی یقین رکھتے تھے کہ اللہ کی راہ میں حرکت کرنے سے کامیابی اللہ کی طرف سے انعام میں مل جاتی ہے؛ لہذا امام خمینی اللہ کی راہ میں حرکت کرنے سے نہیں گھبراتے تھے، مایوسی کا شکار نہیں ہوتے تھے، غرور اور تکبر کا شکار بھی نہیں ہوتے تھے۔ جو چیز انہیں کامیابی کی طرف کھینچ کرلے جاتی تھی وہ شرعی ذمہ داری تھی[9]۔  آیت اللہ خامنہ ای مزید فرماتےہیں: «امام نے پہلے دن ہی فرمایا تھا: ہم نے اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل کرنا ہے، ہمیں شرعی فریضے پر عمل کرنے کا حکم ہے، نتائج کے نہیں، یہ اخلاص کا صحیح مفہوم ہے۔ یہ خالص اخلاص ہے؛ یہ صرف خدا کے لیے ہے۔ امام نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا، جو اس کا مشن تھا، اور خدا نے اسے نتیجہ بھی دیا: جیسے کہ پوری دنیا میں امام خمینی کی آواز گونج اٹھی[10]»۔

بشکریہ: ایران نوین میگزین


[1]۔ داود مهدوی زادگان، اسلام و سنّت وبری، قم، موسسه فرهنگی طه، 1377، ص98.

[2]۔ سید محمد حسین طباطبایی، المیزان، بیروت، اعلمی، ج2، ص149۔

[3]۔ اعراف/6۔ ترجمہ/ شیخ محسن نجفی۔

[4]. هود/29.

[5]۔ ھود/51۔

[6]۔ ابراہیم/۳۷۔

[7]۔ صافات/102۔ ترجمہ/ شیخ محسن نجفی۔

[8]۔ شیخ محسن نجفی/ تفسیر کوثر۔

[9]۔ بيانات مقام معظم رهبری در مراسم پانزدهمين سالگرد ارتحال امام خمينى(ره)14/03/1383

[10]۔ بيانات مقام معظم رهبری در ديدار عمومى مردم قم 19/10/1384

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close