اسلامتازہ ترین خبریں

آئینی حج، وضاحتی حج!

حج کے بابرکت اور روحانی ایام کی آمد نے دنیا بھر سے لاکھوں زائرین بیت اللہ الحرام کو وحی کی سرزمین میں جمع کر دیا ہے۔

تحریر: محمد مهدی ایمانی پور

اسلامی ثقافتی مرکز « سازمان فرهنگ و ارتباطات اسلامی» کے سربراہ

ترجمہ: ڈاکٹر غلام مرتضی جعفری

حج ایک مذہبی فریضہ ہے جو اسلام سے پہلے بعض پیغمبروں نے بھی انجام دی ہے؛ حتیٰ کہ اسلام سے پہلے مشرکین مکہ بھی کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے اور ان کی اپنی روایات تھیں جن میں سے بعض کو اسلام نے مسترد کردیا۔ مسلم مفکرین نے قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دے کر حج کے وجودی فلسفے کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

بلاشبہ “توحید کی حقیقت تک پہنچنا اور شرک کی نفی” ابراہیمی حج کی تشکیل کی ایک اہم ترین وجہ ہے۔ حج، مذہبی پہلو کے علاوہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے ہی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ایک سیاسی، سماجی عبادت تھی۔ اس زمانے میں بھی حج کو ایک سیاسی نقطہ نظرسے دیکھا جاتا تھا اور حج کو ایک سیاسی میدان سمجھا جارہا تھا؛ جہاں سے مسلمانوں کو دنیا بھرکی اہم خبریں ملتی تھیں اور دنیا کے حالات سے واقف ہوتے تھے۔

حج کی اس جہت کو مد نظر رکھتےہوئے، ہمیں”مسلمانوں کے معاملات سے آگاہی کی ضرورت”، “دشمن کی پہچان اور اظہار بیزاری” اور “اسلامی معاشروں کے حقائق سے آگاہی کی ضرورت” جیسے کلیدی الفاظ کا سامنا ہے۔ ایک مختصر فقرے میں ہم اسے ’’وضاحتی حج‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس نقطہ نظر میں، حج محض ایک مذہبی فریضہ نہیں؛ بلکہ اس سے بالاتر ہے۔

“وضاحتی حج” کی حقیقت کیا ہے اور اس کے معانی اور مثالیں کیا ہیں؟ کچھ نکات ہیں جن پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے:

پہلا نکتہ: سورہ حج آیہ 28 سے معلوم ہوتاہے کہ حج میں دنیوی اور اخروی دونوں منافع موجود ہیں۔قرآن پاک کی تعبیر کے مطابق اطراف عالم سے جمع ہونے والے حجاج ان روحانی و مادی فوائد کا مشاہدہ کرتے ہیں جن سے ان کے دین اور دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں آکر حجاج کرام اس انسان ساز تاریخ کے مختلف ادوار کی یادگاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں جن سے اس تاریخ کے بانی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اور ہاجرہ گزرے ہیں۔ بے آب و گیاہ بیابان میں بچوں کا چھوڑنا، پانی کی تلاش میں حضرت ہاجرہ کا پریشان حال ہونا، بیٹے کو قربانی کے لیے اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا، اسلامی تاریخ میں بت شکن کے وارث کی بت شکنی، فتح مکہ، تعمیر بیت اللہ وغیرہ۔

دنیوی فوائد کے اعتبار سے حج کرنے سے مالی وسعت آ جاتی ہے۔ ایک اسلامی اجتماع میں شرکت سے فکری وسعت اور سوچ میں آفاقیت آ جاتی ہے۔ اسلامی ثقافت اور تجارت میں فروغ سے دنیاوی مفادات حاصل ہو جاتے ہیں۔

امام خمینی (رح) فلسفہ حج کے بارے میں اپنے بیانات کے ایک حصے میں فرماتے ہیں: اس اجتماع کا سیاسی نکتہ یہ ہے کہ سب سے پہلے [خدا کے گھر کے زائرین] ایک دوسرے کے حالات کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔ حالات کو سمجھیں، ایک دوسرے کے بھائی بنیں، ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کریں، اپنے اپنے ملکوں کے مسائل کو مل کر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم حج کو الہی تقاضوں کے مطابق بجا لاتے تو آج مسلمانوں پر جو مصیبتیں آئی ہیں وہ پیش نہ آتیں۔(صحیفه امام، ج ۱۳، ص۳۲۵-۳۲۴ )

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ایرانی حجاج کو چاہئے ایران میں قائم اسلامی نظام کے حقایق کو دنیا بھرکے مسلمانوں تک پہنچائیں۔ حج انقلاب اسلامی کی کامیابیوں اور ترقی سے دنیا کو آگاہ کرنے کا ایک بہترین موقع ہے؛ لہذا حج کے دوران ایرانی حجاج دنیا کے مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل بنیں۔

امام خمینی اس بارےمیں فرماتےہیں: “آپ ایک ایسی قوم کے سفیر ہیں جس نے انقلاب کے ذریعے ایک ایسے ملک کو بچایا جو الحاد، بدعنوانی اور فساد میں غرق ہوچکا تھا، مغرب اور مشرق نواز حکومت کا تختہ الٹ کر اسلامی حکومت قائم کی، ایک ایسی قوم جس نے مغرب اور مشرق سے تنہا مقابلہ کیا اور اسلامی کے نورانی پرچم کو بلند کرکےپوری دنیا کے مظلوم عوام کو اسلام کی طرف راغب کیا۔

آخری نکتہ ’’توحید اور اتحاد‘‘ سے متعلق ہے اور حج امت اسلامیہ کو اللہ وحدہ لاشریک کے پرچم کے سائے تلے بھائی چارے اور اتحاد کا موقع فراہم کرتا ہے؛ تاکہ دشمنان اسلام کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔

امام خمینی اس بارے میں فرماتے ہیں: اے مسلمانو! اے مکتب توحید کے پیروکارو! اسلامی ممالک کی تمام پریشانیوں کی اصل وجہ اختلاف اور ہم آہنگی کا فقدان ہے اور آپ کی کامیابی کا راز اتحاد اور ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے؛ لہذا ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کرام زمان اور مکان کی شرائط کا ادراک کرتے ہوئےاسلامی اتحاد اور اقتدار کو پوری دنیا تک پہنچانےمیں اپنا کردار ادا کریں۔ دنیا کو “وفادارانہ اسلامی طرز زندگی” دکھا کر اسلامی معاشرے کی ایک قابل تقلید تصویر پیش کریں۔ بلاشبہ آپ کا یہ پیغام اسلام فوبیا کی آگ پرپانی بن کربرسےگا اور ہرقسم کی اسلام ہراسی کا خاتمہ ہوگا۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close