تازہ ترین خبریں

شام میں حزب اللہ کو ملے نئے تجربات، اسرائیلی حکام کی نیندیں اڑیں

رپورٹ کے مطابق لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی تشکیل 1980 میں ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر ہو کر ہوئی۔ اس تنظمیم نے صرف چار عشرے کی مدت میں ہی إپنے دوست اور دشمن کو نہ صرف اپنی طاقت کا لوہا منوانے پر مجبور کر دیا بلکہ یہ بھی ثابت کردیا کہ مغربی ایشیا میں اس کی کتنی اہمیت ہے۔

اگر جون 2006 میں صیہونی حکومت کی جانب سے لبنان پر مسلط کردہ جنگ کے نتائج اور اس جنگ میں لبنان کی کامیابی سے قطع نظر، حزب اللہ نے شام کی جنگ میں اپنا نمایا کردار ادا کیا اور شام کے سرحدی قصبے القصیر میں 2013 میں شامی فوج کے ساتھ مل کر
حزب اللہ نے بڑی کامیابی حاصل کی جبکہ یہ پہلی بار تھا کہ جب حزب اللہ نے ایک غیر مانوس شہر میں فوجی کاروائی کی۔

یہ فوجی کاروائی اس لئے بھی ضروری تھی چونکہ القصیر کا علاقہ لبنان کی سر حد کے قریب واقع ہے اسی لئے اس اقدام کے بغیر دہشت گردوں کی دراندازی پر لگام نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ اس وقت سے اب تک حزب اللہ لبنان شام کے مختلف علاقوں میں شامی فوج کے ساتھ مل کر دنیا سے آئے دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے۔ حزب اللہ کی اس کامیابی کے پیش نظر جنگی امور کے تجزیہ نگاروں نے اس موضو‏ع پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔

لبنانی امور میں پنٹاگن سابق عہدیدار انڈرو اگزام نے القیصر کی جنگ کے بعد المانیتر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ((میرے خیال سے حزب اللہ نے القصیر میں وہ کارنامہ انجام دیا جو ہم عراق اور افغانستان میں کرنا چاہتے تھے)) معروف جنگی تجزیہ نگار جیفری وایٹ نے ایک مقالے میں حزب اللہ کے متعلق اظھار خیال کرتے ہوئے لکھا : (( حزب اللہ ایک تجربہ کار تنظیم ہے اور اپنے مد مقابل دشمن کو پہلے اچھی طرح سے سمجھتی ہے اور پھر اس سے جنگی مقابلہ کر کے فتح حاصل کرتی ہے)) وہ مزید لکھتے ہیں: (( ممکن ہے اس تنظیم نے شام میں بہت سے نئے تجربات حاصل کئے ہوں ))

مثال کے طور پر:

1۔ حملے اور دفاع کی صورت میں ٹینک جیسے اسلحہ جات کا صحیح استعمال کرکے کس طرح کامیابی حاصل کی جائے ۔

2۔ وسیع پیمانے کی جنگ میں کس طرح فوج کی قیادت کی جاتی ہے، میدان جنگ میں فوج کیسے اتاری جاتی ہے اور دشمنوں کام مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔

3۔ خطر ناک اور دشوار صورت حال میں اتحادی طاقتوں کے ساتھ مل کر مقابلہ کرنا۔

4۔ حملے کی صورت میں کس طرح وسیع پیمانے پر جانی اور مالی نقصان سے محفوظ رہا جائے۔

5۔ حملے کی صورت میں فوج کی قیادت ۔

6۔خطرناک اور پیچیدہ جنگی صورتحال میں فوج کی سربراہی۔

جیفری وایت کا یہ نظریہ جس وقت سامنے آیا تھا اس وقت روس کی فوجی مداخلت شام میں شروع نہں ہوئی تھی لیکن روس کی فوجی مداخلت اور ہوائی حملے کے بعد حزب اللہ کی طاقت دو بالا ہوگئی کیونکہ اس جنگ میں چار ملک شریک تھے لہذا کچھ تجزیہ نگاروں نے اس ایک منظم تنظیم کا نام دیا، جیسے گروپ چار جمع ایک یعنی روس، ایران ، عراق ، شام اور حزب اللہ ۔

برطانیہ کی حفیہ ایجنسی کے سابق ایجنٹ السٹر کورک نے اپنے ایک بیان میں جو ھافینگٹن پوسٹ کی ویب سایٹ پر شایع ہوا تھا کہا کہ (( ممکن ہے یہ تنظیم یعنی مغربی ایشیا میں ایک فاتح تنظیم کی حیثیت سے پہچانی جائے)) ۔

شام کی جنگ میں حزب اللہ کی روس کے ساتھ مشارکت سے اسے ایک خاص مقام حاصل ہو گیا چونکہ روس کی فوجی طاقت کا شمار دنیا کی بڑی طاقت میں ہوتا ہے۔

جنگی امور کے معروف تجزیہ نگار الکزینڈر کاربیل ایک (کارنگی) نامی ویب سایٹ میں لکھتے ہیں کہ ( حزب اللہ نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک منظم اور پیشرفتہ تنظیم ہے ) اور پھر آگے لکھتے ہیں ( ممکن ہے اس تنظیم کے جاں باز سپاہی اور اور فوجی افسران جانتے ہیں کہ کس طرح سے وسیع پیمانے پر ایک فوجی کاروائی کی جاتی ہے۔

حزب اللہ لبنان کے روسی فوج کے ساتھ رہنے سے اس کے جنگی تجربات اور مہارت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے کیونکہ شام میں حزب اللہ اور روسی کے درمیان کم از کم دو مشترک فوجی دستے ہیں جو ساتھ مل کر فوجی کاروائی انجام دیتے ہیں۔

ایک مغربی تجزیہ نگار کے مطابق حزب اللہ اور روس کا ایک ساتھ ہونا اور باہمی تجربات کے رد وبدل نے حزب اللہ کو ایک نئی طاقت کا حامل بنا دیا ہے جو جنوبی لبنان کی سرحد پر اسرائیلی فوج کو بری طرح نقصان پہنچا سکتی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل کے اندر جا کر انہیں شکست دے سکتا ہے جس طرح سے 2014 میں حماس نے یہ کام انجام دیا تھا۔
حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اس کی جنگی مھارت سے جو اس نے شام میں حاصل کی ہیں صیہونی فوجی حکام بری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی نیدیں حرام ہوگئی ہیں جس کا اظھار انھوں نے بارہا کیا ہے ۔

اسرائیلی اخبارات ان خبروں سے بھرے پڑے ہیں جس میں صیہونی فوجی افسران نے مختلف بیانات دیئے ہیں اور سبھی نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ شام میں حزب اللہ کا وجود اس کی طاقت میں اضافے کا سبب بنا ہے۔

معروف صیہونی تجزیہ نگار عاموس ھرئیل ہآرتص میں لکھتا ہے ( اسرائیلی فوج کی نظر میں حزب اللہ ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک قدرتمند فوج ہے) البتہ حزب اللہ کے حکام بھی اس موضوع سے غافل نہں ہیں وہ باخوبی آگاہ ہیں اسی لئے کچھ عرصہ پہلے سید حسن نصراللہ نے کہا تھا کہ (( اسرائیلی فوج، حزب اللہ کی توانائیوں کے بارے میں بات کرنے سے گھبراتی ہے))

Tags
Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close