تازہ ترین خبریں

شکم پروروں کا رگڑے پہ رگڑا

بقلم: سیّد تصور حسین نقوی ایڈووکیٹ

کافی دنوں سے قلم اور ذہن بغاوت کا شکار، سوچ اوراظہار کے درمیان بے ربطگی، دل و دماغ وہشت زدہ ، جذبات غیرت زدہ ، روح کی بستی سیاہ دُھند زدہ، آنکھوں کے سامنے انسانیت کا خونی رقص ،بکھرے ہوئے انسانی اعضاء، چیتھڑے بنی انسانی لاشیں، چیخ و پکار کرتی انسانیت، احساس کے آئینے میں گردش کرتی خوفناک ڈراؤنی صورتیں اور اخلاقِ حسنہ کے شاہکار نمونوں سے ننگی ہو کر بھاگتی تہذیب و شرافت ، ملائیت کی وحشی و گندی سوچ سے انسانیت کا ہوتا ریپ، تہذیب و شائستگی کو مُلا کے ہاتھوں طوائف، انسانیت کی ” مُلاّ کی اسلامی وحشت ”کے آگے شرمندگی اور جہالت کو ننگے سر ناچتے مناظر سمیت حجروں، منبر و محرابوں، آستانوں کے وارثین نے مجھے اپنا عزادار بنایا ہوا ہے۔ خوش قسمت ہوں کہ عہد ِ حسین(ع) اور سرزمین ِ کربلا سے وابستگی ہونے کی بنا پر تسکین ِ ایمانی عزاداری کی صورت میں ہو جاتی ہے ۔ لیکن آجکل جنت کی طلبگار خدائی مخلوق کی جانب سے دنیا کو دوزخ بناتا دیکھ کرسرزمین ِ کربلا سے نکل کراسلام آباد میں ہونے والی انتہا پسندی اور لاہور میں ہونے والی دہشت گردی پر بھی نوحہ کُناں ہوں۔ لاہور میں انسانیت پر قیامت ٹوٹی۔ بچوں، عورتوں، مردوں، بوڑھوں اور جوانوں کو خون میں نہلایا گیا اور اسلام آباد میں ناموسِ رسالت اور نفاذ شریعت کے نام پر ایک دنگل برپا ہوتے دیکھا ۔جس نے لاہور کے پارک میں دہشت گرد حملہ کیا اور سینکڑوں بے گناہ ہنستے بستے معصوموں کو اجاڑ کر رکھ دیا وہ بچوں کو قرآن پڑھایا کرتا تھا اور اسے قرآن پاک اتنی ظالمانہ دہشت گردی سے نہ روک سکا ۔ اور دوسری طرف اسلام آباد کے ڈی چوک میں اسوہ ء رسول اور تحمل، بردباری ، برداشت اور رواداری کا درس دینے والوں کی آنکھوں کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی رسول اللہ ۖ کا اسوہ ء حسنہ نہ آسکا۔ عشق ِ اسلام و رسول ۖ میں مار پیٹ، جلاؤ گھیراؤ، گالی گلوچ، اربوں روپے کی قومی املاک کی توڑ پھوڑ، میڈیا پر حملے اور بالخصوص ”عشاق ِ رسول” کے ہاتھوں” گستاخ ِ رسول ” میٹرو اور سی ڈی اے کی فائر فائٹر گاڑیوں کی نیست و نابو د گی ہوئی۔سڑکوں ، پلوں پر وزیر اعظم اور انکی بیٹی سمیت انکے خاندان کی شان میں اسلام کے نام پر پڑھے جانے والے ” قصیدے ” ، ایمان افروز نعروں کے درمیان صحافیوں ِ ، حکومت اور پھرآرمی اور اسکے چیف کی ”ناموس ” کا جس طرح سے خیال رکھا گیا اس پر اکیس توپوں کی سلامی دینے کو جی چاہتا ہے۔” رومانوی و روحانوی ” انداز و ادا سے” فقہی” نوعیت کی گفتگو کرنے والے گفتار و کردار کے غازی یقینا لائق ِ ” احترام اور واجب تکریم” اور اُنکا ”اعلیٰ کردار” اور ” خلق ِ عظیم ” سب کے لیے باعث ” تقلید ” ہے۔ لاہور سے اسلام آباد تک پھیلتے ہوئے اسلام کی یہ قسم دیکھ کر اور ڈی چوک میں ”عاشقان ِ رسول ” کی فخریہ پیشکش اور میٹھی میٹھی اسلامی پنجابی گالیاں سننے کے بعد کمزور عقیدہ مسلمانوں کا ایمان ضرور تازہ ہوا ہو گا اور اسلام کی یہ تازہ شکل دیکھنے کے بعد کوئی بد قسمت غیر مُسلم ہی ہو گا جو اس سے ” متاثر” ہوئے بغیر نہ رہ سکا ہو، میں ذاتی طور پر تو بہت ہی زیادہ ” متاثر ” ہوا ہوں۔ ماشااللہ۔! اگر شہر ِ اقتدار میں ان حضرات کا طرزِ تخاطب ایسا تھا تو اہل ِ علاقہ کی سماعت پر کیسی کیسی بمباری کرتے ہونگے ۔ جتنے ” خشوع و خضوع ” کے ساتھ مولانا حضرات نے گالیاں دیں، مجھے محسوس ہوا کہ انکا اصل مسئلہ یہ تھا کہ گالیاں کافی عرصہ سے بڑے بڑے شکم میں پھنسی ہوئی تھیں جنہیں نکالنے کے لیے ان صاحبان نے اسلام آباد کا رخ کیا اور یہاں سے شکم ہلکے ہوتے ہی لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے واپس روانہ ہوگئے۔ یہاں قیام کے دوران ” حلیے اور پیشے ” سے متقی و پرہیز گار کہلوانے والے حجروں، منبر و محرابوں، آستانوں و درگاہوں کے وارثین کی ریاضت اور لذت انگیر، فکر انگیز، سحر انگیز گفتگو سننے کو ملی۔ نفاست و لطافت سے بھرپور گالیوں کا انتخاب اور ہر تین گندی گالیوں کے بعد لبیک یا رسول اللہ کے بلند ہوتے نعرے دیکھ کر اُمت ِ مسلمہ اور اُنکے علماء کا علمی معیار اور زبان و بیان کا ذوق دیکھنے، سننے، جاننے اور سمجھنے کو ملا جس سے نہ صرف دل و دماغ کے بند دریچے کھل گئے بلکہ بہت عرصے بعد روحانی بالیدگی بھی نصیب ہوئی۔علمائے کرام و مشائخ عظام اس بیدایء شعور دھرناکی گالم گفتار کا ذخیرہ تاریخ کے حوالے کرکے ڈی چوک سے چلے گئے لیکن مادر پدر آزاد زُہد و تقویٰ کے پتلوں کا طرز تخاطب ،علم و حلم کے لہجے میں گُل افشانی اور اخلاق اور پارسائی کاعمامہ پہنے بارونق ، باوقار اور بارعب چہروں کی شعلہ بیانیاں ،گالیوں کی تال پر رقصاں جنونیوں کا نفاذ ِ شریعت کا مطالبہ ،شہادت کا حکومتی این او سی اور جیل سیل کو قومی ورثہ قرار دینے کے مطالبات سمیت مقلدین کے جھومتے سر، دیدار ِ یثرب کی مشتاق آنکھوں کے فوجی ہیلی کاپڑوں کی آمد پر فلک شگاف شرعی نعرے اور نعلین اور لعاب دہن سے استقبال کے مناظر اب بھی میری گناہگار آنکھوں سے نہیں ہٹتے۔ زمین سے فضا میں مار کرنے والی ” چپل میزائل ” کے کامیاب تجربے اور فوجی ہیلی کاپٹرز کو لعاب دہن سے گرانے کی اسلامی مشقیں اور اُنکا” دُم دبا کر بھاگنے ” کے مناظر تو شائد ہی پھر کبھی زندگی میں دیکھنے کو ملیں۔ ڈی چوک میں حلوے کا جلوہ اور شکم پروروں کارگڑے پہ رگڑا لگا کر اپنی مرضی کے اسلام کے نفاذ کی سر توڑ کوششیں دیکھ کر ان سے کل وقتی چھیڑ چھاڑ سے باز رہنے کی ٹھانی کہ ان خدا فروشوں سے ہم سری کیا۔۔! دل میں یہ بھی خیال تھا کہ یہ ایک ایسا” نازک عضو ” ہیں ، ذرا سا چھیڑو ،تن کو کھڑا ہو جاتے ہیں۔ لیکن غیرت ِ جذبات کی بہتات نے الفاظ کو قرطاس کے سپرد کرنے پر مجبور کردیا۔ میرا تو یہ عقیدہ تھا کہ دینی تعلیم سے انسان میں شائستگی، حسن ِاخلاق، افکار و کردار میں تبدیلی آتی ہے اور انسان برائیوں ، ظلم زیادتیوں ، دھونس دھاندلی سے باز آجاتا ہے۔ عملی نتائج اور سامنے کی ننگی شہادتوں سے پتہ چلا کہ یہ بالکل جھوٹا اور خیالی یقین تھا۔ توقع غالب تھی کہ محراب ومنبر سے اخلاقیات کی تعلیم دینے والے، حجروں میں حروف مقدسہ کی تفسیر بیان کرنے والے، محرابوں میں عبادت گزاری کا شرف حاصل کرنے والے اور دوسروں کو نیکی کی طرف بُلانے والے اس انسانی کمزوری سے ماورا ہونگے ۔ صد افسوس کہ میرا تجربہ اس توقع کو غیر حقیقت پسندانہ بتاتا ہے۔ چوبیس گھنٹے دینی تعلیمات کے حصار میں رہنے والے دین کے ماہرین اور راہنما ، اللہ اور اسکے رسول کے عاشق اور قرابت دار، مشائخ ِ عظام، اولیاء کرام، مرشد ، پیران اور ابدال، تلاوت کلام ِ پاک، نعت اور درود شریف کا ورد کرنے والے زبان و بیان میں اتنے شائستہ ہونگے مجھے ایسے لوگوں کا تعارف پہلے کبھی نہ تھا۔ گل افشانیء گفتار سے اندر کی ”پاکیزگی ” باہر آتے دیکھ کر انکی باطن کی ”نفاست” کا اندازہ ہوا کہ ”علمائے کرام” کی تقریریں ہی انکی اصلی تصویریں ہیں۔! اب جو انکے شاگرد ، طلباء ، مرید ، پیروکار اور تربیت یافتہ علماء ہونگے وہ کیسے ہونگے مجھے انکا یہاں بالکل تعارف کرانے کی ضرورت نہیں۔۔! قبل از نفاذ ِ شریعت کاحال اورنفاذِ شریعت کا بیڑا اُٹھانے والوں کی اوقات دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہوا کہ نفاذِ شریعت سے قبل یہ حال ہے تو بعد کا کیا حال ہو گا۔؟ابھی تو دین داروں کو اقتدار نہیں ملا اور ان کے جاہ و جلال کی یہ حالت ہے خاکم بدہن اگر یہ طبقہ اقتدار میں آجائے تو پھر کیا ہو گا۔؟روانی سے فحش گوئی کے مقابلے دیکھ کر یوں محسوس ہوا گویا یہ ان حضرات کے مدارس کے دور ِ جدید کے نصاب کا حصہ ہے ۔!

اب یہ سب کچھ دیکھ کر میں کیسے مان لوں کہ یہ عاشق ِ رسول ہیں۔؟ لوگ مذہب کتابوں سے نہیں ،افراد اور معاشروں سے سیکھتے ہیں اب ”بار برداری ” کے کام آنے والی مخلوق سے کیا سیکھیں گے۔! مردہ کو زندہ رکھنے اور زندہ رہنے والوں کو مار دینے کی خداداد صلاحیت رکھنے والے یہ علمائے کرام کاش صلح حدیبیہ، میثاق ِ مدینہ، فتح مکہ، خطبہ حجتہ الوادع کوتسلی سے حرف بہ حرف پڑھ لیتے اور اس پر عمل کرلیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ دل ہی دل میں ایسی شریعت اور اس کے نفاذ کی توبہ مانگی اور خوف اس بات کا تھا کہ کہیں میری توبہ کا خدا کے سوا کسی اور کو علم نہ ہو جائے لیکن ساتھ ہی یقین اس بات کا تھا کہ وہ تو میرے لاکھوں ظاہری اور باطنی گناہوں کو صیغہ راز میں رکھے ہوئے ہے میری اس گستاخی کو بھی پوشیدہ رکھے گا۔۔! لاہور میںگولی ، بم اور خود کش حملے نے فقط انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا لیکن اسلام آباد کے ڈی چوک میں تو روحوں پر زخم لگا ئے گئے ۔ مخالفین کی ماؤں اور بہنوں کی کردار کشی میں وہ زبان استعمال کی گئی جو بازار میں بھی استعمال کرتے ہوئے شرم آئے۔ہم تو طالبان اور ان جیسے انسانیت دشمنوں سے شاکی و نالاں تھے کہ وہ انسانیت کا خون کرنے اور اسے دُکھ دینے کے سوا کچھ نہیں کرتے ۔ ان صاحبان کو کیا کہیں جنہوں نے پورے چار دن شرف ِ آدمیت و انسانیت، اخلاق و اقدار اور عزتوں کے جنازے نکالے اور تہذیب و روایات کا بلدکار کیا اور وضع داری، اخلاق ، تہذیب، سماجی روایات اور رشتوں کا لحاظ جن کے پاس سے بھی نہیں گذرا۔کوئی بھی باضمیر و صاحب اولاد وہ الفاظ انکی بہن بیٹیوں کے لئے استعمال نہیں کرسکتا جو ان دینداروں نے کئے۔بہرکیف صدقہ و خیرات اور مال ِزکواة اور جمعہ وجمعرات پر پلے ہوؤں سے عزت نفس کے مفہوم کو سمجھنے کی توقع رکھنا فضول ہے۔ جن سپولیوں کو دودھ پلا کر پالنے پوسنے کا عمل آج تین دھائیاں قبل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے شروع کیا تھا آج وہ اژدھے بن چکے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی بھوک کے سامنے ہزاروں انسانوں کے جسم بھی ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ درندے اپنے آقاؤں کو نگلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ آج پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ انہی سے ہے ۔یہ نفسیاتی مُلا ایسے ہی ہیجان خیز حالات پیدا کرکے قاتل پیدا کرتے ہیں اور پھر عدالت میں جاکر بیان دیتے ہیں کہ ہم نے تو کسی کو قتل کرنے کا نہیں کہا تھا۔ ڈرامہ بازی کی ایک دوکان کُھلی ہے کہ جس سے انکا کاروبار چلتا ہے۔ کاش ہماری ریاست نئی نسل کو علم کی روشنی اور اسکے نور سے منور کرنے کی ذ مہ داری پوری کرتی تو معاشرے میں اعتدال پسندی کا غلبہ ہوتا اور یہ قتل و غارت گری کا بازار گرم نہ ہوتا ۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جنکے پاس لاکھوں مسجدیں اور مدرسے ہیں ، جہاں کروڑں پاکستانی مُسلمانوں کے ایمانی ذہن تیار کیے جاتے ہیں ۔ اب ایسے مولویوں کا تیار کیا ہوا بچہ جنونی، ریاکار، جاہل اور دہشت گرد نہ بنے تو اور کیا بنے گا۔؟ کسی ملک کے نظام کے گھٹیا ہونے کا اس سے بڑ ا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ پہلی جماعت کا بچہ بھی دھرنے ، احتجاج، گولی، بندوق ،قتل ، تلوار جیسے الفاظ سے واقف ہو۔ کاش ہماری ریاست نئی نسل کو علم کی روشنی اور اسکے نور سے منور کرنے کی ذ مہ داری پوری کرتی تو معاشرے میں اعتدال پسندی کا غلبہ ہوتا اور یہ قتل و غارت گری اور وحشت و دہشت کا بازار گرم نہ ہوتا۔پاکستان کو کس قدر تباہ کیا جا چکا ہے اور اسلام کو کس حد تک بدنام کیا جا چکا ہے یہ سب کچھ عام آدمی کے سامنے ہے۔کیا ریاست پاکستان میں کوئی ایسا قانون موجود ہے کہ جو ان مخبوط الحواس مولویوں کو لگام دے سکے اور یاست کے سزا یافتہ مجرموں کو ہیرواور انکی غائبانہ نماز جنازہ اور چہلم منانے والے مجنون ملاؤں کو ریاست کی رٹ چیلنج کرنے سے روک سکے۔؟ حکومت ِ وقت کو چاہیے کہ ان وحشی بلوائیوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹے ورنہ خدا ناخواستہ یہ ہاتھوں میں ڈنڈے لیے اپنی من پسند شرعی تشریح کر کے سادہ لوح لوگوں کو اپنی فہم و نظروالا مسلمان بنانے پر کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ ان کے خلاف ریاست اور آئین پاکستان سے غداری کے مقدمات سمیت نیشنل ایکشن پلان کے تحت بھی کاروائی ہونی چاہیے۔ یہ لوگ کسی بھی طرح کی رعائت کے بالکل بھی مستحق نہیں۔ مذہب اور اسلام کی تشریح اور شرعی معاملات میں فتوؤں کا اختیار ریاست کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے ۔پاکستان کے آئین کے تحت ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے جسکا تقاضا ہے کہ ریاست تمام مساجد، مدرسوں ، درگاہوں ، آستانوں، اسلامی مراکز اور دیگر اسلامی سرگرمیوں کا انتظام و انصرام خود سنبھالے۔ مساجد کے امام، استادوں، قاریوں، کی تقرری خود کرے، مدرسوں کے نصاب، خطبات کا یکساں اہتمام، تمام درگاہوں، زیارتوں اور آستانوں کو اپنی تحویل میں لیکر اسکا انتظام و انصرام خود چلائے اور وہاں سے حاصل شدہ آمدن تعلیم، صحت، فلاح عامہ اور انسانی ترقی اور خوشحالی پر خرچ کرے۔ درگاہوں کے متولیوں ،خلیفوں اور صاحبزادگان کو تعلیمی استعداد کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر وہیں روزگار کے مواقع بھی فراہم کرے۔ آئین پاکستان میں اکیسویں ترمیم وقت کا تقاضا ہے اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ فور ا عملی اقدامات کرکے ملک کو طوائف الملوکی سے بچائے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمیں آئے روز اس طرح کے سانحات اور ڈی چوک میں دھرنے دیکھنے کو ملیں گے۔ ا ب بھی وقت ہے کہ مذہبی جنونیت کے اس تناآور درخت کو حکومتی اور ریاستی سرپرستی میں خاموشی کے ساتھ ویسے ہی کاٹنا شروع کردیا جائے جیسے اس کو بویا گیا تھا ورنہ مستقبل میں بہت بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ بہت سی غلطیاں قابل ِ معافی اور تلافی ہوتی ہیں لیکن نظریاتی اور فکری غلطیوں کی تلافی نہیں ہوتی اور انکی سزا ہر آنے والی نسل کو بھگتنا پڑتی ہے جو اب ہم بھگت رہے ہیں۔ انتہا پسندی اور جنونیت کے خلاف فکری جنگ کی ضرورت ہے۔ صرف فکری جنگ ہی نہیں بلکہ فکری ضرب عضب کی ضرورت ہے۔ آج جنونی نسل جو ہمیں ملی ہے یہ انہی تاریخی غلطیوں کی سزا ہے جو کئی نسلیں بھگتیں گی۔ سنبھل جانے کا وقت اب بھی ہے اگر ہم سنبھل جائیں تو۔۔۔!

”قطرہ جو گرے صدف میں تو گہر بنتا ہے

گروہی سانپ کے منہ میں جائے تو زہر بنتا ہے

بگڑ جائے جو انسان توبن جاتا ہے مُلاں

گر مُلاں بگڑ جائے تو وہ شمر بنتا ہے۔”

Tags
Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close