تازہ ترین خبریں

۴ شعبان ولادت با سعادت حضرت عباس علیہ السلام مبارک

شیعہ ان اسلام کی جانب سے ہم اپنے تمام قارئین کرام کی خدمت میں ۴ شعبان ولادت با سعادت حضرت عباس علیہ السلام کی مناسبت پرہدیہ تبریک  پیش کرتے ہیں اور حضرت عباس کے بارے میں مختصر سی رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں

ترتیب وپیشکش: غلام مرتضی جعفری

حضرت عباس علی علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ گرامی کا نام فاطمہ ام البنین سلام اللہ علیہا تھا جن کا تعلق عرب کے ایک مشہور ومعروف اور بہادر قبیلے بنی کلاب سے سے بتایا جاتا ہے، ام البنین علیہا سلام، محدثہ، فقہیہ، معرفت اہلبیت اطہار علیہم السلام اور علوم ظاہری وباطنی کی حامل خاتون تھیں۔

حضرت عباس علیہ السلام اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے بہت مشہور ہیں، اپنے بھائی امام حسین بن علی علیہ السلام کے ساتھ وفاداری خاص کر واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئےاور شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہوئے۔ اُن کو افضل الشہدا، باب الحوائج ، قمر بنی ہاشمؑ ، علمدار کربلا ، غازی ، سقائے سکینہؑ بھی کہا جاتا ہے۔

حضرت عباسؑ کی عظمت کا ایک بہت بڑا سبب آپ کی امامؑ شناسی, ولایت کی معرفت اور اپنے زمانے کے امامؑ کی اطاعت ہے، حضرت امام صادقؑ حضرت عباسؑ کے زیارت نامے میں آپ کو خدا، رسول ﷺ و [ اپنے زمانے کے] آئمہ کے مطیع کے عنوان سے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للهِ وَلِرَسُولِهِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِم ( کامل الزیارات،  ص 786 )

 تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت عباس علمدار کی ولادت باسعادت چار شعبان المعظم سن 26 ھ کو عثمان بن عفان کے دور خلافت میں مدینہ منورہ میں ہوئی، ولادت کے بعد حضرت عباس نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنی گود میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت مودت محبت اور عقیدت تھی۔

امام علی بن ابی طالب علیہ السلام  نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا اور خود امام علی علیہ السلام نے ہی ان کی تربیت و پرورش کی امام علی علیہ السلام نے  انھیں فن سپہ سالاری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصاً علم فقہ سکھائے جس کی وجہ سے  14 سال کی عمر میں ہی انہیں ثانی حیدرؑ کا لقب ملا۔

شجاعت اور بہادری کی وجہ سے اُنہیں ثانی علی المرتضی ٰ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرج عباس علیہ السلام  بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی مددکرنا، تلوار بازی میں خاص شوق رکھتے تھے۔آئمہ اطہار علیہم السلام کے فرمودات کے مطابق ان کی پرورش،تعلیم و تربیت خصوصاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد امام علی ابن ابی طالب (ع) نے ایک خاص اہتمام کے تحت اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر تھے ایک متقی و پرہیزگار اور نہایت ہی باوقار خاتون یعنی فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے تمنا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا فرزند عطا فرما جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونین معرکہ میں رسول اسلام (ص) کے بیٹےحسین (ع) کی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ ، چار بیٹے عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا لیکن عباس (ع) ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی؛

حضرت ابوالفضل العباس ضعیفوں اور کمزورں  کی امداد گری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔

حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیات میں سے ”ایثار و وفاداری“ ہے ۔اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے جس کی وجہ سے انہوں نے سخت ترین حالات میں بھی امام حسین علیہ السلام کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

اب یوں لگتا ہے کہ  لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ مختص ہوگیا ہے اور جہاں وفا کی بات آتی ہے تو عباس علیہ السلام ضرور یاد آتے ہیں ایسا کیوں نہ ہوکیونکہ وہ  شہنشاہِ وفا ہے ۔

ضو وہ شیشے میں کہاں جو الماس ميں ہے۔

سارے عالم کی وفا حضرت عباس ميں ہے۔

Tags
Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close