تازہ ترین خبریں

2016 میں نواز شریف کو درپیش اہم سیاسی چیلنجز کیا ہوں گے؟

رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۶ شائید ۲۰۱۵ کی طرح نواز شریف اور ان کی جماعت کے لیے اس طرح سنہری سال واقع نہ ہو۔ تقریبا ۳ ماہ قبل مسلم لیگ (نون) کے ناراض رہنماؤں نے اپنا گروپ بنا لیا جو نواز شریف حکومت کے لیے موجودہ سال میں کافی مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔

نومبر کے اوائل میں عوامی مسلم لیگ کے رہنماء شیخ رشید نے کنینڈا کا دورہ کیا اور وطن واپسی پر یہ اعلان کیا کہ وہ طاہر القادری کی دعوت پر کینیڈا گئے تھے اور انہوں نے وہاں ملک کے داخلی مسائل پر گفتگو کی۔ شیخ رشید نے پاکستان میں تبدیلی کے حوالے سے آئیندہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک میں اتحاد کی خبر بھی سنائی جبکہ اپنے کردار کے حوالے سے فرمایا کہ اس بیچ ان کا کردار ایک پل کا رہے گے جو دونوں جماعتوں کو ملانے کا کردار ادا کرے گا۔ لیکن اس دوران انہوں نے اس بات کی طرف ہر گز اشارہ نہیں کیا کہ ان دو جماعتوں کے اس ایڈوینچر کا خرچہ کون اٹھائے گا جبکہ خود وہ اس ایڈوینجر سے کوئی فائدہ بھی نہیں اٹھائیں گے؟

دوسری طرف پاکستان کے فور سٹار سابق جنرل پرویز مشرف نے بھی مقتدر طاقتوں سے مل کر نواز شریف حکومت کو ٹھکانے لگانے کے لیے خصوصی پروگرام بنا رکھے ہیں۔ ہم سبھی کو اس بات کا علم ہے کہ اگست ۲۰۱۵ کو چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ ملاقات کے دوران مسلم لیگ (نواز) اور بقیہ تمام مسلم لیگی ناراض رہنماؤں کو یکجا کرکے ایک مسلم لیگ تشکیل دینے کے حوالے سے ایک دوسرے کو اعتماد میں لیا گیا۔ مشرف ایک مرتبہ پھر پاکستانی سیاست میں انٹری مارنا چاہتے ہیں جس کا ان کے پاس فارمولہ نواز شریف کے تمام مخالفین کو جمع کرنا ہے۔

مندرجہ بالا نکات کو دیکھیں تو ۲۰۱۶ میں میاں نواز شریف کو دو اہم سیاسی چیلینجز کا سامنا ہوگا۔ ایک رشید، خان، قادری کی تکون اور دوسرا پرویز مشرف اور مسلم لیگ (نواز) مخالف دھڑوں کا اتحاد۔ یا تو یہ دونوں حکومت کے خلاف متحد ہونگے یا نواز شریف کے لیے ایسا سیاسی یا سماجی دباؤ پیدا کر یں گے جس سے ایک نیا بحران پیدا کیا جا سکے۔

اس بیچ بعض ملکی اور غیر ملکی متغیرات بھی نواز شریف حکومت کے لیے بحران ساز ہو سکتے ہیں۔ داخلی متغیرات میں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا تناسب، صوبائی حکومتوں کے لیے بجٹ ایلوکیشن، توانائی بحران اور حکومتی کارکردگی، کرپشن کے خلاف آپریشن اور حکومتی جماعت کے افراد اور اسی طرح پاکستانی عوام کی معاشی صورتحال جیسے معاملات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ بین الاقوامی ایشوز میں سے ایسا ایشو جو ممکن ہے نواز شریف حکومت کو دو راہہ پر لا کھڑا کرے، وہ ایران اور سعودی عرب میں سے کسی ایک کا انتخاب ہے۔ اس حوالے سے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نواز حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی کو خطرناک قرار دیا ہے اور حکومت سے اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ وہ جلد از جلد ان دو اسلامی ممالک کے حوالے سے اپنا موقف سامنے لائے۔ یہ مسئلہ اتنا خطرناک اور سنجیدہ ہے کہ ہم اس کے خطرے کو بھانپ سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی رہنماء محترمہ شیریں مزاری نے بھی کہا ہے کہ اپوزیشن اراکین کو اس بات کا انتظار تھا کہ حکومت اس مسئلے کو نزدیک سے دیکھے اور اپنے موقف کا اعلان کرے لیکن حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ مسلمان ممالک خطرناک بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں اور پاکستان کی حکومت غیر سنجیدہ رویّہ اختیار کیے ہوئے ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیرمین، شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کی خالی کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس ایشو اور پارلیمنٹ کے حوالے سے حکومت کی سنجیدگی اس بے توجہی سے عیاں ہے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ ہمیں بھی بتایا جاتا کہ آیا اس نے سعودی عرب یا ایران کے ساتھ رابطہ کیا ہے یا نہیں۔ پاکستان کے عوام کی سعودی عرب کے ساتھ مذہبی وابستگی ہے جبکہ ایران کو اپنے برادر اسلامی ملک مانتے ہیں۔

ایران اور سعودی عرب میں سے کسی ایک کے انتخاب کے حوالے سے اپوزیشن نے نواز حکومت پر ابھی سے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے اور یقیناً اس طرح کے انتخاب سے اپوزیشن نواز حکومت کے لیے بحران پیدا کرنے میں مؤثر واقع ہوگا۔ لہذا نواز شریف اور ان کی جماعت کو ہوش کو اپناتے اور جوش و جذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایران اور سعودی عرب کشیدگی کے حوالے سے ایک غیر جانبدارانہ موقف کو اپنانا چاہئے جس سے پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات محفوظ رہ سکیں۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close