تازہ ترین خبریںگلگت بلتستان

گلگت بلتستان میں سیّاحت کے اثرات اور قومی ذمہ­ داریاں!!

 شعبہ­ سیّاحت سے تعلق رکھنے والےماہرین کا کہنا ہے کہ مسقبل قریب میں گلگت بلتستان کوسیّاحوں کے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا؛ اگر بروقت درست منصوبہ بندی نہ کی گئی تو پوراخطہ متعدد اخلاقی، سماجی، ثقافتی اورمذہبی مشکلات سے دوچارہوسکتا ہے۔

اس مختصرمقالے میں سیّاحت کے مثبت اورمنفی اثرات اور قومی ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ اہم نکات پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تحریر:غلام مرتضی جعفری

  اللہ تعالی نے مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شمالی صوبے گلگت بلتستان میں گوناگون، بےنظیراور دلفریب مناظرسجا رکھے ہیں؛ لیکن یہ خطہ پوری تاریخ میں سیّاحوں کی نظروں سے اوجھل رہا ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں، ان میں سرفہرست حکومت کی عدم توجہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے، اگرحکومت پاکستان اس خطے پر تھوڑی سے توانائی صرف کرے تو یہ خطہ پورے ملک کو پال سکتا ہے؛ کیوںکہ یہ خطہ جغرافیائی طورپر بہت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ سیّاحتی اعتبارسے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا کے سترفیصد پہاڑ گلگت بلتستان میں ہی پائے جاتے ہیں، شاہراہ قراقرم جیسی حیرت انگیز سڑک گلگت بلتستان کے حصے میں آتی ہے، دریائے سندھ، ایسا طویل اور گہرا دریا جو اکثرپاکستان کو سیراب کرتا ہے، وہ بھی گلگت بلتستان سے ہی نکلتا ہے۔ دنیا کی 8ہزارمیٹرسے بلند14چوٹیوں میں سے 5گلگت بلتستان میں ہیں؛ جیسے: کے ٹو، نانگا پربت، گاشر برم ون، بروڈ پیک اور گاشر برم ٹو، جس کو سرکرنے کےلئے آنے والے ہزاروں ملکی اورغیرملکی سیّاحوں سے حکومت پاکستان کوسالانہ لاکھوں ڈالرکی آمدنی بھی ہوتی ہے۔[1]

اس خطے میں پہاڑوں کےعلاوہ دنیا کی خوبصورت، دلکش اور حسین­ترین وادیاں ہیں جوحقیقی قدرتی ماحول اور مناظر، سال کے چاروں موسموں میں سیّاحوں کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سترسالہ تاریخ میں اس خطے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے یہ جنت نظیرعلاقہ، مختلف محرومیوں کا شکار رہا اور اس کے نقصانات نہ صرف گلگت بلتستان کےباسیوں کوہوئے؛ بلکہ پورا ملک ایک عظیم سرمائے سے محروم رہا۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے اس خطے کی خوبصورتیوں کو اجاگر کرنے کےلئے ایک قدم بڑھایا ہے؛ جس کےبعد رواں سال عالمی وبا کرونا جیسی صورتحال کے باوجود، لاکھوں سیّاح اس خطے کا رخ کرچکے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت سمیت مختلف شہروں سے سکردو کیلئے قومی ائیرلائن (پی آئی اے) کی براہ راست پروازوں سے گلگت بلتستان کی سیّاحت عروج پر پہنچ گئی ہے اورسیّاحوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ سلسلہ اب جاری و ساری رہے گا اور آئندہ سالوں میں سیّاحوں کی تعداد میں مزید کئی گنا اضافہ متوقع ہے۔

واضح رہے کہ اب گلگت بلتستان کے دوسرے بڑے شہرسکردو کا ہوائی اڈہ پاکستان کے مصروف­ترین ہوائی اڈوں میں شامل ہوگیا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹرجنرل خاقان مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ سکردو ہوائی اڈہ اب بین الاقوامی پروازاں کیلئے بھی تیارہے۔

بین الاقوامی پروازیں شروع ہونے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کے شہری براہ راست گلگت­بلتستان آئیں گے اور ان میں ہر رنگ، نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہونگے۔

اسلام میں سیّاحت کی اہمیت

 سیاحت؛ یعنی سیر و تفریح کے بارے میں دین مبین اسلام کا نقطہ نظربیان کرنے کےلئے ایک مستقل کتاب لکھنے کی ضرورت ہے، ہم یہاں مختصرطور پرکچھ آیات اور روایات پراکتفا کرتے ہیں۔

دین اسلام نے نہ تنہا سیر و سیاحت سے منع نہیں کیا ہے؛ بلکہ سیر و سفرکا حکم  بھی دیا ہے،جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «قُلْ سيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّهُ يُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّهَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَديرٌ[2]؛ آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین میں سیرکرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغازکیا ہے اس کے بعد وہی آخرت میں دوبارہ ایجاد کرے گا بیشک وہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے».

 اللہ تعالی ایک دوسری آیت میں ارشاد فرما رہا ہے: «أَ وَ لَمْ يَسيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ كانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْ‏ءٍ فِي السَّماواتِ وَ لا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كانَ عَليماً قَديرا؛ تو کیا ان لوگوں نے زمین میں سیرنہیں کی کہ دیکھیں ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ہے جب کہ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے اور خدا ایسا نہیں ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی شے اسے عاجز بناسکے وہ یقینا ہر شے کا جاننے والا اور اس پر قدرت رکھنے والا ہے».[3]

سکونی امام جعفرصادق علیہ­السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا: «سَافِرُوا تَصِحُّوا تَغْنَمُوا[4]؛ سفرکرو صحت پاو اور مالدار بنو!»۔

سیّاحت کے مقاصد

یہ بات یقینی ہے کہ قدیم زمانے سے ہی دوسرے ملکوں یا شہروں کا سفر کرنے والے افراد کے مختلف مقاصد رہے ہیں:

  1.  دینی اور مذہبی رسومات

  قدیم زمانے میں کسی بھی ملک یا شہرکے سفرکا پہلا محرک صرف مذہبی جذبہ تھا اور مختلف ادیان اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد مقامات مقدسہ کی زیارت کی غرض سے ہزاروں میل دور سفرکیا کرتے تھے؛ جیسے چینی بودھائی، ہندوستان کا سفرکیا کرتے تھے؛ یونانی اور رومی ڈیلفی نامی مندر کی زیارت کی خاطر دور درازعلاقوں کا سفر کیا کرتے تھے؛ اسی طرح مسلمان فریضہ حج و عمرہ ادا کرنے یا رسول اکرم(ص) اور ائمہ اطہارعلیھم السلام اور دیگر اولیائے کرام کے مزارات مقدسہ پر حاضر ہوکر اظہارعقیدت کرنے کےلئے سرزمین حجاز، عراق، ایران اور شام کا سفرکیا کرتے تھے جو آج بھی جاری و ساری ہے اور رہے گا۔

2-    تجارت اور کاروبار

  دنیا بھرمیں بیرون اوراندرون ملک مختلف شہروں کا سفرکرنے والے بعض افراد کا اصل ہدف تفریح نہیں؛ بلکہ کاروبار ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ سالانہ ہزاروں تاجرمختلف ملکوں کا دورہ کرتے ہیں؛ لہذا تجارت کی غرض سے گلگت بلتستان کا رخ کرنے والے معتدل تاجرجوکسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں خوش آمد کہنا چاہئے؛ تاکہ تجارت کو فروغ ملے اورخطے میں مختلف قسم کے کارخانے لگا کرعلاقے سے معیشتی مشکلات پرقابو پایا جاسکے۔

3-    علمی تحقیقات

 بعض افراد محض علمی تحقیق کی خاطرمختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں؛ علمی تحقیق کے غرض سے آنے والے دانشوروں کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہئے۔

4-    تفریح

  قدیم زمانے میں صرف بادشاہان اور حکمران طبقہ ہی سیر و تفریح، خاص کرشکارکی غرض سے مختلف علاقوں کا رخ کیا کرتے تھے، اب عام شہری بھی اپنی استطاعت اور توانایی کے مطابق تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں، ان کا ہدف صرف اور صرف اللہ کے بنائے ہوئے قدرتی مناظرسے لطف اندوز ہونا ہے۔

5- تجسس اور جاسوسی

  دنیا بھرکے مختلف ملکوں میں سالانہ دسیوں ایسے افراد گرفتار کئے جاتے ہیں جو محض جاسوسی کے لئے سیّاحوں کے روپ میں مختلف ملکوں کےسیاحتی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے اپنے خاص اہداف ہوتے ہیں۔ یہ افراد کسی غیرملکی ایجنسی یا کسی شدّت پسند تنظیم کے آلہ کار ہوسکتے ہیں؛ ایسے شیطان صفت افراد گلگت­بلتستان کا بھی رخ کرسکے ہیں؛ لہذا خطے کی انتظامیہ اور شہریوں کو ایسے مشکوک افراد پرگہری نظررکھ کرملک اور خطے کو داخلی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔

6- لادینیت اورعریانیت

  غیرملکی سیّاحوں میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں، جن کا اصل مقصد خطے کی ثقافت اور مذہبی اعتقادات کو سست کرکے لوگوں کو بے دین بنایا جائے؛ اسی طرح ملکی سیاحوں میں بھی ایسے افراد ہوتے ہیں جویورپی اور مغربی ممالک سے متاثرہوکرتفریح اور سیر و سیّاحت کے نام پر مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں؛ تاکہ اسلامی اقدار اور ثقافت کو ختم کرکے یورپی ثقافت کو فروغ دیا جاسکے؛ لہذا بے حجابی، عریانیت، ڈھول باجا اور رقص کرتے ہوئے خطے کی ثقافت اور مذہبی اعتقادات کی دھجیاں اڑاتے نظرآرہے ہیں۔ اس قسم کے افراد لانے والی کمپنیوں کو تذکر دیا جائے کہ خطے کی ثقافت مذہبی اقدار کا خیال رکھیں؛ خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کوعلاقے میں داخل ہونے سے روکا جائے۔

واضح رہے کہ اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں موجود ٹورزم کمپنیوں کے اہلکار سوشل میڈیا پرنہایت نازیبا اورغیراسلامی مواد شئرکررہے ہیں، جس کا روک تھام ضروری ہے۔

شہریوں اورانتظامیہ کی ذمہ داریاں!

 شعبہ­ سیّاحت سے تعلق رکھنے والےماہرین کا کہنا ہے کہ مسقبل قریب میں گلگت بلتستان کو سیّاحوں کے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا؛ اگر بروقت درست منصوبہ بندی نہ کی گئی تو پوراخطہ متعدد اخلاقی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی مشکلات سے دوچارہوسکتا ہے؛ لہذا مندرجہ ذیل امورپرتوجہ دینے کی ضرورت ہے:

1-    مذہبی سیّاحت کا فروغ

 گلگت بلتستان جس طرح قدرتی حسن سے مالامال ہے؛ اسی طرح اس خطے میں متعدد مذہبی عمارتیں، جیسے قدیم اور تاریخی مساجد، خانقاہیں، امام بارگاہیں، اولیائے کرام اورعلمائے کرام کے مزارات پائے جاتے ہیں۔ ان مقدس مقامات کی اچھےاندازمیں تعمیر اور تشہیرکے ذریعے اندرون اور بیرون ملک سے مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کو بھی خطے کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی سیّاحت کے فروغ سے لادینت کو فروغ دینے والے سیّاحوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور خطے میں تعادل برقرار رہے گا۔

2-    مسافرخانوں کا قیام

 ذاتی طورپرگزشتہ چندسالوں سےسماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستان سمیت دنیا کو گلگت بلتستان کی خدادادخوبصورتیوں سے آشنا کرانے کی کوشش کررہا ہوں۔ سیر و سیّاحت کے شوقین گلگت بلتستان کی جنت نظیر وادیوں کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر بہت جلد متاثر ہوکرگلگت بلتستان جانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں؛ لیکن اکثر کا ایک ہی سوال ہوتا ہے؛ کیا ان حسین اور خوبصورت وادیوں میں رہائش کا کوئی انتظام ہے؟؟؟  بس ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ مرکزی شہروں میں اچھے مسافرخانے اور رہائش گاہیں موجود ہیں؛ تاہم بالائی علاقوں میں آپ اپنے ساتھ خیمہ لے کرجائیں!۔

گلگت بلتستان میں سیاحت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں جن کو بروئے کار لا کر علاقائی اور ملکی معشیت کو ترقی دی جا سکتی ہے، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان توجہ دے اورسیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے بنیادی و ضروری اقدامات اٹھائے۔

شعبہ سیّاحت کے حکومتی ادارے کو چاہئے کہ خطے کی سیّاحتی وادیوں میں مسافرخانے تعمیر کرنے میں عوام کی مدد کرے؛ تاکہ سیّاح گلی کوچوں اور محلوں سے دور رہ کر سیر و تفریح سے لطف اندوز ہوسکیں اور گاوں والوں کو بھی کسی قسم کی کوئی پریشانی کا سامنا کرنا نہ پڑے۔

3-    سڑکوں کی بحالی

  گلگت بلتستان میں سیّاحت کے فروغ کےلئے سب سے اہم یہاں کی سڑکیں ہیں، اس صوبے کی اکثر سڑکیں کچی ہیں؛ جس کی وجہ سے سیّاح اپنی گاڑی کے ذرئعے سفرنہیں کرسکتے ہیں، ان کو یہاں کی مقامی مخصوص گاڑیاں کرایہ پر لینی پڑتی ہیں، جس کی وجہ سے سیّاح گلگت بلتستان کے متعدد علاقوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر سے جہاں ملکی وعلاقائی معشیت کو ترقی دی جا سکتی ہے وہاں پر ہزاروں بے روزگار افراد کو روزگار کے مواقع میسرآسکتے ہیں۔

4-   سیّاح، پسیوں کا مجسمہ نہیں!

  گلگت­بلتستان کےشہری، پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ایماندار، امانتدار، دیانتدار اور ہمدرد کے طور پرپہچانے جاتے ہیں؛ لہذا دوسروں کی عزت و احترام، محبت و شفقت اور قدر و منزلت ہی ہمارے معاشرے کی پہچان ہے؛ گلگت بلتستان کے شہریوں خاص کر کاروبار اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آپ کے پاس آنے والے شخص کے پاس کوئی خزانہ نہیں جسے کسی بھی طریقےسے حاصل کیا جائے۔ ایک روپیہ کی چیز کو دس روپیہ اور دس روپیہ کے کرایہ کے بجائے سو روپیہ لینا انسانیت اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ اس قسم کی حرکات و کردار سے انسان کے اندر اخوت و بھائی چارگی کے جذبات کو ٹھیس پہنچتا ہے۔ ہمارے پیغبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہارعلیہم­السلام نے حسنِ سلوک اور اخلاق کا درس دیا ہے؛ کیونکہ حسن سلوک سے تعلقات میں بہتری آتی ہے، اس سے آپسی تعاون، ہمدردی، خیرخواہی اور محبت کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ جیسے کہ عالم آل محمد حضرت امام رضا علیہ­السلام  فرماتے ہیں:

«لا یَتِمُّ عَقْلُ امْرِء مُسْلِم حَتّى تَکُونَ فیهِ عَشْرُ خِصال: أَلْخَیْرُ مِنْهُ مَأمُولٌ. وَ الشَّرُّ مِنْهُ مَأْمُونٌ. یَسْتَکْثِرُ قَلیلَ الْخَیْرِ مِنْ غَیْرِهِ، وَ یَسْتَقِلُّ کَثیرَ الْخَیْرِ مِنْ نَفْسِهِ. لا یَسْأَمُ مِنْ طَلَبِ الْحَوائِجِ إِلَیْهِ، وَ لا یَمَلُّ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ طُولَ دَهْرِهِ. أَلْفَقْرُ فِى اللّهِ أَحَبُّ إِلَیْهِ مِنَ الْغِنى. وَ الذُّلُّ فىِ اللّهِ أَحَبُّ إِلَیْهِ مِنَ الْعِزِّ فى عَدُوِّهِ. وَ الْخُمُولُ أَشْهى إِلَیْهِ مِنَ الشُّهْرَةِ. ثُمَّ قالَ(علیه السلام): أَلْعاشِرَةُ وَ مَا الْعاشِرَةُ؟ قیلَ لَهُ: ما هِىَ؟ قالَ(علیه السلام): لا یَرى أَحَدًا إِلاّ قالَ: هُوَ خَیْرٌ مِنّى وَ أَتْقى[5]»

ترجمہ: ایک مسلمان کی عقل اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں دس خوبیاں نہ ہوں:

1- ہرکوئی اس سے بھلائی کی امید رکھے؛

2- لوگ اس کے شرسے محفوظ رہیں؛

3- دوسروں کی چھوٹی سی نیکی کوبھی بڑی نیکی شمارکرے؛

4- اپنی نیکیوں کوکم سمجھے؛

5- حاجتمندوں کے آمد و رفت اور سوال سے خفا نہ ہوجائے؛

6- اپنی زندگی میں علم کے حصول میں تھکاوٹ کا احساس تک نہ کرے؛

7- اللہ کی راہ میں غربت اورمفلسی، مال سے زیادہ محبوب سمجھے؛

8- اللہ کی راہ میں ذلت، االلہ کے دشمن کے ساتھ عزت سے زیادہ محبوب سمجھے؛

9- گمنامی اور بےنامی کو شہرت پرترجیح دے؛

پھرفرمایا: لیکن دسویں؟ دسویں خوبی کیا ہے؟ سوال کیا گیا: دسویں خوبی کیا ہے؟

امام نے فرمایا: کسی کی طرف مت دیکھے سوائے یہ کہنے کے کہ وہ مجھ سے بہتر اور زیادہ پرہیزگارہے؛ یعنی اس کی نظرکسی دوسرے شخص پر پڑے تو کہے کہ یہ مجھ سے افضل اور زیادہ متقی ہے۔

کسی مسافر کی عزت و احترام اور ان کے ساتھ انصاف سے پیش آنا، نہ تنہا ایک زندہ سماج اور مہذب قوم کی علامت ہے؛ بلکہ ایک اچھے مسلمان ہونے کی دلیل بھی ہے۔ یہ وہ اعلی کردارہے جس کی وجہ سے انسان کے اندر اخوت و بھائی چارگی کے جذبات میں اضافہ ہوتا ہے اور الفت ومحبت پروان چڑھتے ہیں؛ لہذا انتظامیہ سمیت وہ تمام افراد جو اس شعبے سے وابستہ ہیں تمام مسافرین کے ساتھ احترام، اکرام اور محبت و شفقت سے پیش آئیں، مسافرکے مقام و مرتبہ کا خیال رکھیں، اسے اس کے شایان شان حیثیت دیں۔

۵۔ فرقہ پرست اور فتنہ گروں کا روک تھام

 سیّاحوں کی روپ میں فرقہ­پرست اور تکفیری ٹولے سے وابستہ شرپسند، گلگت بلتستان کا رخ کرکے  مقامی افراد پراثراندازہونے کی بھرپورکوشش کرسکتے ہیں؛ لہذا انتظامیہ اور شہریوں کو نہایت ہوشیاری اور خوش اسلوبی سے ہرقسم کی ثقافتی اور مذہبی یلغار کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنی چاہئے۔

۶۔ غیرمقامی افراد کوزمین فروخت کرنےسےاجتناب!

  گلگت­بلتستان میں سیّاحت کے بڑھتے ہوئے مواقع کودیکھ کرمقامی اورغیرمقامی سرمایہ دار خطے میں سیّاحوں کے لئے رہائشگاہیں، مسافرخانے اور اچھے میعارکے ہوٹل اور دیگر تفریحی زون تعمیرکرنے کا سوچ رہے ہیں، جس کے لئے منہ مانگے دام، زمینیں خریدنے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔

خطے کے سادہ لوح عوام محض چندلاکھ روپوں کےعوض اپنی قیمتی زمینوں کو ایسے افراد کے ہاتھوں فروخت کررہے ہیں جو بعد میں کسی بڑی مشکل کا باعث بن سکتے ہیں۔

ویسے تو جب تک گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی صوبہ نہیں بنتا تب تک اس خطے میں باہرکے لوگوں کویہ حق نہیں ملنا چاہئے کہ وہ متنازعہ علاقے میں زمین خریدیں، جس طرح آزاد جموں کشمیرمیں کشمیریوں کے علاوہ کوئی دوسرا فرد زمین نہیں خرید سکتا، یہ قانون گلگت بلتستان میں بھی لاگو ہونا چاہئے۔

۷۔ رشتہ ازدواج!

 رشتہ ازدواج شرعی لحاظ سے ایک معتبر، مقدس اور مہذب­ترین رشہ ہے؛ لہذا دین اسلام میں اس کے اپنے خاص اصول اور قوانین ہیں، جن میں سے ایک ہم کفو ہونا ہے۔ ہم کفو ہونے کا معیار صرف جسمانی اورعمر کے لحاظ سے نہیں ہے؛ بلکہ اس کا اصل معیار ہم­عقیدہ ہونا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ کسی کے ظاہری حسن سلوک، اخلاق یا مال ومنات سے متاثرہوکراپنی بیٹیوں کے رشتے غیرمقامی افراد سے کرتے ہیں جو مختصر مدت کے بعد اختلاف عقیدہ اور ثقافت کی وجہ سے نہ صرف ناکامی کا شکار ہوتے ہیں؛ بلکہ بعض اوقات ظلم وذیادتی جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں؛ لہذا ایسے انسانیت سوز واقعات کی روک تھام کےلئے انتظامیہ خاص کرعلمائے کرام اورائمہ جماعات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سادہ لوح والدین کو آگاہ کرے، تاکہ خطے کی معصوم بچیاں شیطان صفت اور ہوس کے بجاریوں سے محفوظ رہیں۔

۸۔ جنگلات اور دیگر معدنیات کا تحفظ

  جیسے جیسے خطے میں لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا؛ اسی حساب سے خطے میں موجود قدرتی وسائل خاص کرجنگلات اور دیگرنایاب معادن کولاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوتا جائےگا؛ لہذا انتظامیہ، گلگت بلتستان کے جنگلات کے تحفظ کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے۔


[1]۔ غلام مرتضی جعفری، جنت نظیرعلاقہ گلگت بلتستان دنیائے سیاحت کا مرکز۔ دیکھیے: https://shiainislam.com/Topics/8483

[2] عنکبوت،20 ۔

«أَ فَلَمْ يَسيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتي‏ فِي الصُّدُورِ؛ کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ ان کے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سن سکتے اس لئے کہ درحقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں؛ بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔» حج 46

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلُ ۚ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ ؛ آپ کہہ دیجئے کہ ذرا زمین میں سیر کرکے دیکھو کہ تم سے پہلے والوں کا کیا انجام ہوا ہے جن کی اکثریت مشرک تھی۔ روم،42

«فَسيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَ اعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَ أَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكافِرينَ؛ لہذا کافرو! چار مہینے تک آزادی سے زمین میں سیرکرو اور یہ یاد رکھو کہ خدا سے بچ کرنہیں جاسکتے اور خدا کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے»۔ توبہ،2

«قُلْ سیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ کانَ عاقِبَةُ الْمُجْرِمینَ؛ ان سے کہیں کہ زمین میں چل پھرکر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا»۔ نمل،49

[3]۔ فاطر،44

[4] حرعاملی، وسایل الشیعہ، ج 11، ص 345. و المحاسن برقی: 2 /345 ح1؛ عنه البحار: 73 / 221 ح2۔

[5]۔ “تحف العقول، صفحه 443”

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close