ائمہ اطهاراسلام

امام سجاد علیہ السلام کی مختصر سوانح حیات

حضرت امام علی بن الحسین (ع) کی تاریخ ولادت کے بارے میں مورخین اور سیرہ نویسوں خاصا اتفاق نہیں ہے ـ بعض نے پانچ شعبان اور بعض نے ساتو شعبان اور بعض نے نو شعبان اور بعض نے پندرہ جمید الاول ولادت کی تاریخ بیان کیا ہے اور دن کے ساتھ ساتھ سال کے بارے میں بھی اختلاف نظر ہے ـ بعض نے سن 38 ھ ، بعض نے سن 36 ھ ، اور بعض نے 37ھ ، بیان کیا ہے ـ ( 1)

چوتھے امام زین العابدین علیہ السلام کا نام علی (ع) ہے۔ آپ حسین بن علی بن ابیطالب (ع ) کے فرزند ارجمند ہیں، آپ کے القاب میں سجاد اور زین العابدین بہت مشہور ہیں۔
38 ہجری میں مدینہ منورہ میں امام سجاد علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔ آنحضرت کربلا کے واقعہ کے دوران بیمار تھے، اس لیے ان کے والد ماجد (ع) نے انہیں جہاد کی اجازت نہیں دی۔

در اصل خدا کی مصلحت تھی کہ امامت کے سلسلے کی کڑی محفوظ رہے اور امام سجاد علیہ السلام عظیم رسالت کے وارث یعنی امام اور ولی قرار پائیں۔ یہ عارضی بیماری چند روز سے زیادہ باقی نہیں رہی اور اس کے بعد امام علیہ السلام 35 برس حیات رہے۔ امام (ع) نے عمر بھر جد و جہد کی عوام الناس کی خدمت کی اور خدا کی عبادت اور اس سے راز و نیاز کیا۔

امام سجاد علیہ السلام جب خدا کے امر اور پیغمبر اسلام (ص) کی وصیت کے مطابق، سنہ 61 ہجری میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے تو آپ کی عمر تقریبا 24 برس تھی۔ آپ کی والدہ محترمہ جناب شہربانو یزد گرد ساسانی کی بیٹی تھیں۔

واقعہ کربلا کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی اور اس کے پیغام کو نشر کرنا تھا۔ اس اہم ذمہ داری کو امام زین العابدین اور ان کی پھوپھی جناب زینب سلام اللہ علیہا نے اسیر ہونے کے باوجود بہت ہی شجاعت اور شہامت سے انجام دیا۔
***
واقعۂ کربلا کے بعد جب اہل بیت اطہار کو اسیر بناکر شام لے جایا گیا، اور اسیروں کو دمشق میں یزید کے دربار میں پیش کیا گیا، تو امام زین العابدین نے یزید کو خطاب کرکے فرمایا، یزید، خدا کی قسم تو کیا سوچتا ہے اگر پیغمبر خدا (ص) ہمیں اس حال میں دیکھیں؟ یہ جملہ سن کر یزید نے حکم دیا کہ اسیروں کے پیروں سے بھاری بھاری زنجیریں اور بیڑیاں اتار دی جائیں۔ دربار میں موجود لوگ یہ منظر دیکھ کر رونے لگے۔

ایک روز خطیب دربار منبر پر گیا اور حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت اطہار کے سلسلے میں نعوذ باللہ بد کلامی کرنے لگا اور معاویہ اور یزید کی تعریف میں قصیدے پڑھنے لگا۔

امام زین العابدین نے یزید کو مخاطب کر کے کہا مجھے بھی منبر پر جاکر کچھ کہنے کا موقع دے، جس سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو اور یہاں موجود افراد کو ثواب حاصل ہو۔ یزید خاندان عصمت و طہارت کے علم و معرفت اور فصاحت و بلاغت سے واقف تھا اس لیے خوفزدہ تھا اور امام کو اجازت دینے سے ہچکچا رہا تھا، لیکن لوگوں کے اصرار پر مجبور ہوا اور امام کو منبر پر جانے کی اجازت دی۔

امام زین العابدین افروز منبر ہوئے اور ایسی تقریر کی کہ لوگوں کے دل ان کے حلقوم میں اٹکنے لگے اور آنکھوں سے اشکوں کے سیلاب جاری ہونے لگے، مرد و خواتین رونے اور چلانے لگے، دربار میں ایک کہرام مچ گیا، امام نے فرمایا اے لوگوں خدا نے ہمیں چھ چیزیں عطا کی ہیں، اور دوسرے پر ہماری فضیلت سات چیزوں کی وجہ سے ہے۔ خدا نے ہمیں علم، حلم، سخاوت، کرم، فصاحت اور شجاعت عطا کی ہے اور مومنین کے قلوب میں ہماری محبت ڈال دی ہے۔ خدا کی یہی مرضی ہے کہ مومنین ہم سے محبت کریں۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ ہمارے دشمن اسے چھین نہیں سکتے۔ اس کے بعد فرمایا، پیغمبر خدا محمد ( ص ) ہم میں سے ہیں، ان کے وصی و ولی علی بن ابی طالب ہم میں سے ہیں، سید الشهداء حمزه ہم میں سے ہیں، جعفر طیار ہم میں سے ہیں، نواسۂ رسول حسن و حسین ( ع ) ہم میں سے ہیں، اس امت کے مهدی اور امام آخر الزمان ہم میں سے ہیں۔

اس کے بعد امام (ع) نے اپنا تعارف کرایا، وہاں ایسا کہرام مچا کہ یزید نے امام کے کلام کو قطع کرنے کے لیے اذان کا حکم دیا۔ مؤذن نے اذان دینا شروع کی تو امام نے خاموشی اختیار کر لی، جب موذن نے کہا اشهد ان محمدا رسول الله، امام نے سر سے عمامہ اتارا اور فرمایا، تجھے انہیں محمد کا واسطہ، زرا ٹہر جا، اس کے بعد یزید کی جانب رخ کیا اور فرمایا، کیا یہ عظیم پیغمبر تیرے جد ہیں یا ہمارے؟ اگر تو یہ کہے کہ تیرے تو یہ سب جانتے ہیں کہ تو جھوٹ بولے گا، اور یہ کہے کہ ہمارے، تو کیوں تونے ان کے لاڈلے حسین (ع) کو قتل کیا؟ کیوں ان کی اولاد کو مار ڈالا؟ کیوں انہیں لوٹا؟ کیوں ان کی خواتین اور بچوں کو اسیر بنایا؟

ایک کہرام بپا ہو گیا، لوگ غش کھا کھا کر گرنے لگے۔ یہ پیغام کربلا تھا جو سب کے کانوں تک پہنچا۔ یہ حق کی وہ آواز تھی جسے تاریخ نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ یزید سے جب کوئی بات نہیں بن پڑی تو اس نے ابن زیاد کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ اور لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کربلا کے لٹے ہوئے قافلے کے ساتھ آنے والے سپاہیوں کو سزا کا حکم دیا۔

امام کی تقریر نے یزید کے کریہہ چہرے سے نقاب نوچ پھینکی اور وہ اتنا کمزور ہوگیا کہ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اپنے مظالم کا دفاع کیسے کرے۔ اس نے امام (ع) سے پوچھا، آپ شام میں رہنا چاہتے ہیں یا مدینہ جانا چاہتے ہیں؟ امام زین العابدین اور جناب زینب کبری نے فرمایا، ہم اپنے جد امجد کی قبر مطہر پر واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔

امام سجاد علیہ السلام کے عظیم علمی اور عرفانی کارناموں میں سے ایک صحیفہ سجادیہ ہے۔ اس کتاب میں 57 دعائیں اور مناجات ہیں۔ ان دعاؤں میں توحید کے علاوہ سماجی اور اخلاقی موضوعات کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ اسے “زبور آل محمد ( ص )” کہا جاتا ہے۔

بنی امیہ کے حاکم ہشام کے حکم پر ولید ابن عبد الملک ملعون نے امام زین العابدین علیہ السلام کو زہر دیا، 95 ہجری میں امام کی شہادت واقع ہوئی اور آپ (ع) کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

Tags
Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close