تازہ ترین خبریں

اب ایران اور سعودی عرب کے درمیان پاکستان کا انتخاب کیا ہوگا

رپورٹ کے مطابق تہران میں سعودی سفارتخانے پر حملے کے بعد سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اپنا پاکستان کا ملتوی دورہ ۷ جنوری سے دوبارہ شروع۔ دورے کے ملتوی ہونے کے پیچھے قطعی طور پر یہ سوچ کارفرما تھی کہ عادل الجبیر یہ دیکھیں کہ پاکستان ایران کے خلاف اپنا کیا ردعمل دکھاتا ہے اور اب جبکہ اس واقعہ کو کچھ دن گزر چکے ہیں، سعودی وزیر خارجہ پاکستان کو ریاض کی طرف مایل کرنے کے لیے اپنی تجاویز کا پنڈورا لے کر اسلام آباد آرہے ہیں۔

اس سے پہلے اپنے گذشتہ تجزئے 2016 میں نواز شریف کو درپیش اہم سیاسی چیلنجز کیا ہوں گے؟ میں ہم نے ریاض اور تہران کے مابین کشیدگی پر میاں نواز شریف کے رد عمل کے اور ان کی حکومت کے مستقبل کی طرف اشارہ کیا تھا اور اب ایسا لگتا ہے کہ میں صاحب پر دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے انتخاب کے حوالے سے کڑا اور سخت وقت آن پہنچا ہے۔ عادل الجبیر کی تجاویز کو ایک طرف رکھیں تب بھی مسلم لیگ (نواز) کے لیے صحیح راستے کا انتخاب نہایت مشکل ہوگا۔

میاں نواز شریف کے لیے پہلا راستہ سعودی عرب کی حمایت ہو سکتا ہے۔ آل سعود کے ساتھ میاں نواز شریف کے ذاتی تعلقات کے باوجود، وزیر اعظم صاحب نے سعودی عرب کی حمایت اور یمن کے خلاف جنگ میں اپنی فوج بھیجنے کے معاملے کو پارلیمنٹ بھیج دیا۔ اسی طرح جب دہشتگردی کے خلاف سعودی حکومت کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد بنا اور فہرست میں پاکستان کا نام بھی شامل کیا گیا تب بھی حکومت نے ریاض کو خوش کرنے والا کوئی بیان نہ دیا۔

نواز شریف یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پاکستان کی داخلی سیاست میں باقی رہنے کے لیے بیرونی مالی امداد کا بھی خیال رکھا جانا چاہیئے اور سعودی عرب ہمیشہ سے پاکستان کے لیے ایک قابل اعتماد مالی ذریعہ آمدن ہے اور اسلام آباد سعودی عرب کی جتنی زیادہ حمایت کرے گا سعودی عرب اتنا زیادہ پیسہ دے گا۔ لیکن اس بیچ ایک مسئلہ ابھی ہونا باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی اقتصادی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، سعودی عرب کو اس وقت بجٹ کی شدید کمی کا سامنا ہے، یہانتک کہ ملک دیوالیہ پن کی سرحدوں کو چھو رہا ہے۔ ان حالات میں کیا سعودی عرب کی طرف سے کسی بھی قسم کی مالی امداد کی امید کی جاسکتی ہے؟

میاں صاحب کے پاس دوسرا آپشن ایران کی حمایت ہے۔ ایران اور پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ ایران تیل، گیس اور بجلی سے مالا مال ہے۔ پورے مشرق وسطیٰ میں اگر کسی ملک میں امن و امان ہے تو وہ ایران ہے۔ ایران دہشتگردی کے خلاف جنگ، چاہے وہ داخلی سطح پر ہو بین الاقوامی سطح پر، کے حوالے سے بھی بہترین تجربہ رکھتا ہے۔ تاریخ نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ ایران اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہا ہے، جسے ہم اگر آج کی تاریخ میں دیکھیں تو تہران کا دمشق، حزب اللہ اور حماس کے ساتھ رویہ ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر شدت کے ساتھ تہران-اسلام آباد تعلقات کی بہتری کے خواہشمند ہیں اور اس بات کی طرف وہ اپنی تقاریر میں کئی بار اشارہ کر چکے ہیں۔ اور یہ بات سبھی کے علم میں ہے ایران کے رہبر ایک ایسے عملی سیاستدان ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ لہذا یہ آپشن زیادہ مفید نظر آتا ہے۔

لیکن ایران کے حوالے سے دو بنیادی مسائل ہیں اور وہ یہ کہ ایران کے پاکستان سے نزدیک ہونے کے نتیجے میں ان لاکھوں پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے معاشی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں جو اس وقت مختلف خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تہران اور اسلام آباد کے تعلقات سے اسرائیل اور امریکہ کی طبیعت بھی ناساز ہو سکتی ہے۔ تہران اور واشنگٹن کے درمیان نیوکلئر ڈائلاگز کی کامیابی کے باوجود ایرانی مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور آج بھی اسرائیل کی نابودی اپنے اور اسلامی دنیا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے میں واشنگٹن اور تل اویو، نئی دہلے کی مدد سے پاکستان پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

لیکن تیسرا راستہ بھی موجود ہے جو تہران اور ریاض کے بیچ سے ہو کر گزرتا ہے۔ میاں نواز شریف ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ کردار ایسا کردار ہے جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے وقار کو بڑھائے گا بلکہ خود ایران اور سعودی عرب کی نگاہ میں بھی اس کی عزت بڑھے گی۔ اس طریقے سے خلیج فارس کے دونوں طرف کے ممالک کے دلوں میں نہ ہی پاکستان کے لیے کوئی کدورت پیدا ہو گی اور نہ ہی مستقبل میں اس قسم کی مشکل سے دچار ہوگا۔ ہمیں اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ عالم اسلام کے دو بڑے قطبوں کے مابین اسلام آباد کی ثالثی سے پاکستان کی قدر و منزلت اور بھی بڑھ جائے گی۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close