ائمہ اطهارتازہ ترین خبریں

میت کو دفنانے کے بعد ان کے گھرمیں کھانا کھانے کا کیا حکم ہے؟

ہمارے معاشرے میں کسی کے فوت ہونے پر جنازہ اٹھنے کے بعد آنے والے سب مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے،جس کا انتظام میت کے گھر والے کرتے ہیں، اس کھانے کا کیا حکم ہے؟؟

ترجمہ و ترتیب: غلام مرتضی جعفری

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «اَلْأَكْلُ عِنْدَ أَهْلِ اَلْمُصِيبَةِ مِنْ عَمَلِ أَهْلِ اَلْجَاهِلِيَّةِ وَ اَلسُّنَّةُ اَلْبَعْثُ إِلَيْهِمْ بِالطَّعَامِ كَمَا أَمَرَ بِهِ اَلنَّبِيُّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ ۔۔۔۔[1]؛ یعنی مصیبت زدہ کے گھر ان کے خرچ پر کھانا کھانا جاہلانہ طرزعمل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سنت ہے کہ مصیبت زدہ کو کھانا بھیجا جائے جس طرح رسول اکرم نے میت کے گھرکھانا بھیجنے کا حکم دیا۔۔۔»

اس حدیث مبارک کے مطابق رسول اکرم ص نے حضرت جعفربن ابی طالب علیہما السلام کی شہادت کے بعد ان کے عزادروں کے لئے کھانا بھیجنے کا حکم دیا؛ تاکہ گھروالوں اور رشتہ داروں کو داغ فرقت کے سوا کسی اور چیز کا غم نہ ہو؛ لہذا سنت رسول اکرم ص کے مطابق میت کے گھرکسی کوکھانے پر مدعو کرنا ایک مکروہ اور ناشائستہ عمل ہے؛ کیونکہ اہل بیت اطہارعلیہم السلام اس عمل کو جاہلانہ قرار دے رہے ہیں۔ تاریخ عرب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کے دور میں لوگ میت کے گھرکھانا کھایا کرتے تھے جس سےعزادارمختلف مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوتے تھے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جب جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیارعلیہ السلام شہید ہوئے تو رسول اکرم ص نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: جعفر کے گھرجاو اور ان کے لئے کھانے کا بندوبست کرو۔ رسول اکرم ص کے اس حکم کے بعد مسلمانوں میں یہ رسم عام ہوا کہ جب کسی کے گھرمیں فوتگی ہوجائے تو ہمسائے عزاداروں کو کھانا کھلائیں۔

قرآن و اہل بیت علیہم السلام کے فرمان کے علاوہ عقل انسانی کا تقاضا ہے کہ مصیبت زدہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ نفسیاتی دباؤ کو کم کرنے کے لیے اس طرح کے حالات فراہم کیے جائیں کہ وہ سوگ کے دوران مالی اور دیگرپریشانیوں کا شکار نہ ہوں۔

شیعہ سنی روایات میں ملتا ہے کہ رسول اکرم ص نے شہادت جعفربن ابی طالب پرارشاد فرمایا: شہید کے خانوادے کو کھانا پہنچایا جائے، ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اس دن سے مسلمانوں نے میت کے گھرکھانا کھانے کے بجائے ان تک کھانا پہنچانا شروع کردیا۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور میں میت کے گھر بڑی شان وشوکت کے ساتھ دسترخوان سجائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مرحوم کے ورثا اپنے عزیز کے فرقت کے غم کو بھول کرکسی اور مصبیت میں گرفتارہوجاتے ہیں۔ قبض روح ہوتےہی کفن دفن کے بجائے تشیع جنازہ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کو اچھے کھانے کا انتظام کرنے کا سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

واضح رہے کہ ضیافت اور مہمان نوازی شادی بیاہ اورخوشی کے مواقع پر ہوتی ہے، فوتگی میں، میت کے گھر والے چوںکہ خود غم کا شکار ہوتے ہیں اس لیے میت کے رشتہ داروں کے لیے مستحب ہے کہ میت کے گھر کھانا پکا کر بھیجیں۔

جو لوگ دور دراز سے جنازہ میں شرکت کے لیے آتے ہیں اورکسی وجہ سے واپس نہیں جاسکتے انہیں بھی بھرپورکوشش کرنی چاہئے کہ میت کے گھرکھانا کھانے کے بجائے دوسرے کسی رشتہ دار کے ہاں جائیں۔


[1]. من لا يحضره الفقيه، ج۱، ص،۱۸۲.

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close