تازہ ترین خبریںدنیاپاکستان

ذہنی تناو اور ڈپریشن میں سوشلستان کا کردار!

ذہنی تناو اور ڈپریشن میں سوشلستان کا کردار!

سوشلستان نے پوری دنیا میں ایک انقلاب بپا کردیا ہے، جہاں سوشلستان کے لاتعداد فوائد ہیں وہی ہزاروں نقصانات بھی ہیں۔

تحریر:غلام مرتضی جعفری

ماہرینِ ذہنی امراض کا کہنا ہےکہ، سماجی رابطوں میں خوفناک تیزی کی وجہ سے دنیا بھرمیں نوجوانوں کو بے شمار خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے جن کی وجہ سے ان میں ذہنی تناؤ و دیگر روحی روانی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

ہم اس مختصر مقالے میں ذہنی تناو اور ڈپریشن میں سوشلستان کے اثرات اور کردار کے بارے میں کچھ اہم نکات پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ سوشلستان نے ہمارے ذہنوں پر اس قدر منفی اثرات مرتب کئے ہیں[1] کہ جن کو ایک مختصر مقالے میں بیان کرنا گنجائش سے باہرہے۔ جب ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو واضح طورپر محسوس ہوتا ہے کہ جن سے ہمارے برسوں سے قریبی اور دوستانہ تعلقات تھے، بھائی چارگی تھی، ایک دوسرے کا احترام تھا، ایک دوسرے کے نظریات کو احترام سے سننے کا حوصلہ اور جذبہ تھا، اب سوشلستان نے سب کچھ فنا کردیا ہے۔

سوشلستان کیا ہے؟

سوشلستان ایک بہت بڑی دنیا ہے اور مختلف ناموں خاص کر فیس بک، انسٹاگرام، وٹس ایپ، ٹیلیگرام، ٹیوٹر، وائبر۔۔۔سے معروف ہے۔

 یہ بات تحقیق سے ثابت ہوئی ہے کہ سوشلستان میں زندگی بسرکرنے والے افراد متعدد منفی صفات کا شکار ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ افسردگی یا ذہنی تناو کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

امریکن جنرل آف ایپی ڈیمیالوجی کی ایک تحقیق میں ۵ ہزار208ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو سماجی ویب سائٹس خاص کر فیس بک متواتر استعمال کرتے تھے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ سماجی ذرائع ابلاغ کا مسلسل استعمال انسان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے[2]۔

سوشلستان کے وہ منفی اثرات جو ذہنی تناو کا باعث بنتےہیں:

خاندانی روابط کا فقدان

 شاید دنیا میں کوئی ایسا ہی گھر ہوجس میں موبائل نہ ہو، اس وقت ہردوسرے ہاتھ میں موبائل ہے اور موبائل دنیائے انٹرنٹ سے متصل، دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی حادثہ رونما ہوجائے تو لمحوں میں پوری دنیا تک یہ خبر نہ پہنچے اب یہ ناممکن ہے۔

انسان کاموبائل سے اس حدتک لگاو بڑھ گیا ہے کہ اگر آپ کچھ دیر کے لیے اپنا فون چیک نہ کریں تو یہ آپ کی قوت ارادی آزمانے کا بہترین موقع ہوسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک عام انسان روزانہ دن میں اوسطا28 بار اپنا موبائل چک کرتا ہے[3]۔

سوشلستان نےنہ تنہا والدین اور جوان نسل کے درمیان روابط اور صمیمیت کو نابود کرکے رکھ دیا ہے؛ بلکہ انسان شریک حیات کے ساتھ  بھی کماحقہ وقت گزارنے سے قاصرنظرآرہا ہے، ایک اندازے کے مطابق، ترقی پذیرممالک میں گھر کے افراد صرف 30منٹ ایک دوسرے سے بات چیت کرتےہیں اور باقی تمام وقت سوشلستان کا نذر ہوجاتا ہے۔ 

اس وادی میں گم ہونے والے جوان والدین کے نظریات اور ھدایات کو ایک دم نظرانداز کرتے ہیں اور غیرعلمی باتوں کا شکار ہوکر اپنی زندگی برباد کردیتے ہیں اور یہ نوجوان عمومی طور پر ذہنی تناو اور شدید ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ گھریلو ناچاقیاں، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، معاشرتی نا ہمواریاں، ذہنی انتشار، مایوسیاں، عدم برداشت میں سوشلستان کا اہم کردار ہے اور یہی ہمارے معاشرے کے وہ تمام عناصر ہیں، جو نوجوانوں میں ذہنی الجھنوں کا سبب بن رہے ہیں؛ جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030 تک نوجوانوں میں ’’ڈیپریشن‘‘ سب سے بڑا مرض ہوگا[4]۔

علم النفس یا علم روان شناسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے اب ذہنی صحت کو زیادہ خطرات لاحق ہیں؛ کیوںکہ اس تیز رفتار دور میں زندگی کی رفتار بھی بہت تیز ہوگئی ہے۔

جنس مخالف سے روابط

سوشلستان نے خاص طور پر نوجوانوں کی روزمرہ زندگی کا چہرہ بدل کر رکھ دیا ہے اور نامحرموں کے درمیان روز بروز روابط بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

دین مبین اسلام نے مرد اور عورت کے لئے خاص قوانین وضع کئے ہیں۔ ان قوانین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

سوشلستان پر بہت سے جعلی ناموں سے اکاؤنٹ موجود ہیں۔ اکثر لڑکے لڑکیوں کے ناموں سے اپنا اکاؤنٹ بنا کر دیگر لڑکوں کو بے وقوف بنانے اور پھنسانے کا ڈرامہ کر رہے ہوتے ہیں جس سے بھولے بھالے جوان بُری طرح نہ صرف بے وقوف بنتے ہیں؛ بلکہ ذہنی طور پر مغلوب ہو کر زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔

سماجی ذرائع ابلاغ کی بےہنگم استعمال سے سالانہ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد گھرسے فرار کرجاتی ہے اور ان کا پورا خاندان داغدار ہوجاتا ہے۔ سوشلستان میں گم ہوکر ایک دوسرے سےپیار ومحبت کرنے والے بعض جوڑے اگرچہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوجاتے ہیں؛ لیکن یہ جوڑے شادی کےبعد ایک دوسرے پربالکل اعتماد نہیں کرتے اور ہمیشہ ذہنی خلفشار کا شکار رہتے ہیں۔ شادی کے مختصر عرصے بعد ان کے درمیان جدائی اور طلاق کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں نہ تنہا ایک دوسرے کو بےایمان اور بے دین سمجھ رہے ہیں؛ بلکہ ایک دوسرے کی بےایمانی اور بے وفائی پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ دونوں کو ہروقت یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں میرا شریک حیات کسی دوسرے شخص کے ساتھ رابطے میں تو نہیں!؟ یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی اپنی مشترکہ زندگی پر راضی و مطمئن نہیں اورعدم اعتماد ذہنی خلفشار کا باعث بنتا ہے۔

غیرمسلموں سے رشتہ ازدواج

دین مبین اسلام نے شادی کے لئے خاص شرائط وضع کئے ہیں جس میں سے ایک ہم کفو ہونا ہے، ہم کفوسے مراد صرف جسمانی اور ذہنی طور پر یکساں ہونا نہیں ہے؛ بلکہ عقیدتی اعتبارسے بھی واحد العقیدہ ہونا شرط ہے[5]۔ سوشلستان کی وجہ ہےاس وقت اسلامی ممالک خاص طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مسلمان لڑکے اورلڑکیاں غیر مسلموں سے رابطے بڑھا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں درجنوں نوجوان شادی کی آڑ میں اسلامی عقیدے کو بھی ہاتھ سے دے رہے ہیں۔

فریب و بهره کشی جنسی

اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے نفس کے پجاری معصوم لڑکیوں کو عشق اور شادی کا جانسہ دے کروالدین کی اجازت کے بغیربھاگا کرلے جاتے ہیں اور اپنی شیطانی خواہش پوری کرنے کے بعد اس کو چھوڑجاتے ہیں۔

 نیند پوری نہ ہونا

نیند کا پورا ہونا انسان کے لیے بہت اہم ہے لیکن ہم میں سے بہت سے افراد بستر پر جا کر بھی فون استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر بونو کے مطابق ’سوشل میڈیا پر دیکھی گئی چیزوں کی وجہ سے بے چینی یا حسد محسوس کرنا ہمارے دماغ کو جاگنے پر مجبور رکھتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نیند نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے چہرے سے چند انچ کی دوری پر روشن موبائل کی سکرین سے ایسی شعاعین خارچ ہوتی ہیں جو ہمیں تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں[6]۔

خود پر تھوڑی سختی کریں اور بستر پر جانے سے ایک گھنٹے سے 40 منٹ پہلے تک فون کا استعمال نہ کریں اور دیکھیں کہ آپ کی نیند کس حد تک بہتر ہوتی ہے۔

 جسور اور جریح ہونا

 اکثردیکھا جاسکتا ہے سماجی ذرائع ابلاغ استعمال کرنے والے افراد زیادہ جسور اور جریح ہوتے ہیں۔ جو بھی بات ان کی مرضی اور عقیدے کے خلاف دیکھتے ہیں فوری طور اھانت اور توہین کرتے ہیں۔

غیبت کرنا

سوشلستان کے وادی میں گم ہونے والے افراد غیبت جیسے مرض میں مبتلا ہوجائے ہیں جس کی دین مبین اسلام میں سخت مذمت کی گئی ہے جیسے که اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرمارہاہے: «۔۔۔وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ»[7]

عداوت اور حسد کا ابھرنا

سوشلستان کا استعمال افراد میں عداوت، حسد اور جلن جیسے منفی جذبات پیدا کرنے کابھی سبب بن سکتا ہے۔ اس کے منفی اثرات کے حوالے سے جرمنی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سماجی وب سائٹس خاص کرفیس بک استعمال کرنے والوں کو اکثر اپنے دوستوں کی تفریحی مقامات کی سیر سے جلن ہوتی ہے۔ دوسروں کی کامیاب پروفائل پڑھنے سے لوگوں میں اپنی زندگی سے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔  ایسے افراد کے نزدیک سوشلستان پر نظر آنے والی زندگی ہی ان کے دوست کی اصل زندگی کا چہرہ ہے جہاں وہ ایک مطمئن اور خوشحال زندگی گزار رہا ہےِ؛حالانکہ ہر انسان اپنی زندگی کے صرف انہی پہلوؤں کو دکھاتا ہے جو وہ دکھانا چاہتا ہے۔

اداسی اور بے قراری کا شکار ہونا

سوشل میڈیا اداسی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے لیکن یہ انسان کے ساتھ بے چینی اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل کی وجہ بھی بن سکتا ہے جب آپ بغیر خیال رکھے اس کا بہت زیادہ استعمال جاری رکھتے ہیں۔

تنہائی کا شکار ہونا

ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انسان کو تنہائی کا شکار کرتا ہے، سماجی ذرائع ابلاغ زیادہ استعمال کرنے والے افراد اپنا قیمتی وقت رشتہ داروں، دوستوں کے پاس جانے کے بجائے موبائل اور کمپیوٹر پر صرف کرتے ہیں۔

احساس کمتری کا شکار ہونا

احساس کمتری اکثر افراد کو ڈپریشن میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اکثر نوجوان فیس بک اور دوسری ذرائع ابلاغ میں دوسروں کی کامیابیاں، حتی کسی کی ایک تصویر دیکھ کرسخت مایوسی اور احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور یہی احساس کمتری اسے ذهنی تناو کا شکار کرتی ہے۔

سماجی تعصب کا شکار ہونا

سوشلستان معاشرے کو قومی، لسانی اور مذہبی تعصبات کا شکار کرتا ہے، جس کی وجہ سے انسان میں خود غرضی بڑھ جاتی ہے۔

 فتوے بازی

سوشلستان نے ہر عمر، ہر طبقے اور ہر معیار کے افراد کو گھر بیٹھے مفتی بنا رکھا ہے، جو یہاں سے فتوے صادر کرتے ہیں۔ ان بے لگام مفتیوں کی کہیں پر کوئی جواب طلبی بھی نہیں ہوتی۔ ان فتوں سے معاشرے میں فرقہ واریت پھیل رہی ہےاور پورا معاشرہ ناامنی کا شکار ہورہا ہے۔

وقت کا ضیاع

سوشلستان کا مسلسل استعمال وقت کے ضیاع کا بہت بڑا سبب ہے۔ خاص طور پر طلبہ کے مستقبل کے لیے تو یہ زہر کی حد تک خطرناک ہے۔ اس میں کھو کر وہ اپنی تعلیم کو وقت نہیں دے پاتے۔ وقت گزرنے کے بعد جب امتحانات میں نمبر کم آجاتے ہیں تو سخت پریشان اور ذہنی تناو کا شکار ہوتےہیں۔

اس کے علاوہ سوشلستان ذراسی بات پر غصّہ، بے چینی، چیزوں کو توڑنا، نااُمیدی، بےکار بیٹھے رہنا، معدے کی خرابی، پسندیدہ کاموں سے اجتناب، کسی بھی کام میں عدم دلچسپی، تھکاوٹ، خودکشی کی ترکیب سوچنا، حافظے کی کمزوری، دھیان بٹا رہنا، نیند کا نہ آنا، سردرد، تھکاوٹ، سستی اور چڑچڑاپن کا باعث بنتا ہے۔

نتیجہ:

سوشلستان کے بے ہنگم استمعال سے انسان بہت سارے منفی اثرات کا شکار ہوسکتا ہے خاص کر خاندانی روابط کا فقدان؛ جنس مخالف سے روابط،غیرمسلموں سے رشتہ ازدواج، فریب و بهره کشی جنسی، نیند پوری نہ ہونا، جسور اور جریح ہونا، غیبت کرنا، سوظن یا بدگمانی کا شکار ہونا، عداوت اور حسد کا ابھرنا، اداسی اور بے قراری کا شکار ہونا، تنہائی کا شکار ہونا،احساس کمتری کا شکار ہونا،سماجی تعصب کا شکار ہونا، فتوے بازی، وقت کا ضیاع وغیرہ اور موارد یہی انسان کو ذہنی تناو اور ڈپریشن میں مبتلا کردیتے ہیں۔

سوشلستان کے بے ہنگم استمعال سے انسان بہت سارے منفی اثرات کا شکار ہوسکتا ہے خاص کر خاندانی روابط کا فقدان؛ جنس مخالف سے روابط،غیرمسلموں سے رشتہ ازدواج، فریب و بهره کشی جنسی، نیند پوری نہ ہونا، جسور اور جریح ہونا، غیبت کرنا، سوظن یا بدگمانی کا شکار ہونا، عداوت اور حسد کا ابھرنا، اداسی اور بے قراری کا شکار ہونا، تنہائی کا شکار ہونا،احساس کمتری کا شکار ہونا،سماجی تعصب کا شکار ہونا، فتوے بازی، وقت کا ضیاع وغیرہ اور موارد یہی انسان کو ذہنی تناو اور ڈپریشن میں مبتلا کردیتے ہیں۔

نوٹ:

جوانوں خاص کربچوں کو سوشلستان کے مسلسل استعمال اور منفی اثرات سے بچانے کے لیے والدین کو سب سے پہلے خود اس کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہوگی۔ جب تک وہ خود اسے نہیں سمجھیں گے بچوں کوکنٹرول نہیں کر سکیں گے۔


[1]راقم مثبت اثرات سے انکار نہیں کررہا۔

[2] دیکھیےِ؛ https://www.independenturdu.com/

[3] سابقہ حوالہ

[4] دیکھیے؛ https://jang.com.pk/news/625568

[5] ابوالقاسم پاینده، نهج الفصاحه، قم: سازمان انتشارات جاویدان، ح247.

[6] https://www.urduweb.org/mehfil/threads

[7] حجرات؛۱۲

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close