اسلاماسلامی بیداریتازہ ترین خبریں

اسلام میں ازدواجی زندگی کی اہمیت اورترغیب


گھرانے کی تشکیل میں شادی کا اہم کردار ہونے کی وجہ سے دین مبین اسلام  میں ازدواجی زندگی تشکیل دینے کی بہت ترغیب اور تشویق کی گئی ہے۔

تحریر: غلام مرتضی جعفری

اللہ تعالی شادی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ‏ وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ[1]

اور اپنےغیر شادی  شدہ آزاد افراد اوراپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنادےگا کہ خدا بڑی وسعت والا ہے۔

اسی بنا پر، خود پیغمبر اکرم  صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  مسلمانوں سے شادی کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے[2]۔ یہاں پر جوبات اہم ہے وہ ازدواجی زندگی کی ترغیب اور تشویق کے بارے میں اسلام کے طریقہ کارکو جاننا ہے۔

شادی کی ترویج میں اسلام کا طریقہ کار

        سب سے پہلے ان موانع اور رکاوٹوں کا ازالہ ضروری ہے جو شادی دیرسے یا بالکل نہ کرنے کا باعث بنتےہیں، اس کے بعد جوانوں کوشادی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ شادی کی ترویج میں یہی نکتہ اسلام کا طریقہ کار نظر آتا ہے۔ جب ہم اسلامی منابع کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہےکہ شادی کی ترویج کےلئے دو اہم اصول بیان کئے گئے ہیں:

۱۔ رکاوٹوں اور موانع کو دور کرنا۔      ۲۔ شادی کی ترغیب اور تشویق۔

الف۔ شادی میں حائل رکاوٹیں اور موانع

  عصرحاضرمیں اقتصادی، اعتقادی اورسیاسی مسائل، شادی دیرسےکرنے یا بالکل نہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔  دین مبین اسلام نے شادی میں ہر قسم کے موانع اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے مندرجہ ذیل سنہری اصول بیان کئے ہیں:

   ۱ ۔ اللہ کے فضل و کرم پر بھروسہ

        عام طور پر شادی نہ کرنے کی اصلی وجوہات میں سے ایک وجہ، زندگی کے اخراجات کی فکر ہے۔ جیسے جیسے سماجی زندگی کی سطح بلند تر ہوتی جارہی ہے، انسان فکرمند ہوتا جارہا ہے اسی لئے بعض اوقات آج کل کا جوان شادی کرنے میں دیر یا شادی کرنے سے ہی منصرف ہوجاتاہے۔ فقر و تنگدستی کاخوف، اسکی شادی میں رکاوٹ بن جاتا ہےاوریہی وجہ ہے کہ انسان ذہنی اور روحانی طور پرمفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔

        اللہ تعالی نے واضح طور پر شادی فرمایاہے:اگر تازہ شادی شدہ جوڑے فقیر اور تنگدست ہوں تو اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے ان کو بے نیاز کردیتا ہے۔

‏ وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ[3]

اوراپنےغیرشادی شدہ آزاد افراد اوراپنےغلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنادےگا کہ خدا بڑی وسعت والا ہے۔

 پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی آیت پراستناد کرتے ہوئے ان لوگوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں جو فقر و تنگندستی سے ڈرکر شادی بیاہ سے گریزاں رہتے ہیں۔

و من ترك التّزويج مخافة العيلة فقد أساء الظّنّ باللّه- عزّ و جلّ) إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ(

اگرکوئی شخص اہل وعیال کے مخارج کے ڈر سے شادی نہ کرے تو اس نے اللہ تعالی پربدگمانی برتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی فرماتاہے: اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنادے گا کہ خدا بڑی وسعت والا ہے۔

لہذا اقتصادی مسائل کو حقیقی مشکل تصور نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ یہ ایک قسم کا توھم اور اعتقادی کمزوری ہے۔ شادی کا حل مالدار ہونے میں نہیں ہے؛ بلکہ اپنےعقائد اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ توحیدی عقیدے کے رو سے اللہ تعالی رزق دینے والا ہے اوراللہ نےتمام مخلوقات کی رزق کی ضمانت دی ہے۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ جوڑوں کو بے نیاز کردے گا۔

فقر و فاقہ سے پریشان ہونا دراصل اللہ تعالی پر بے اعتماد ہونا ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: و من ترك التّزويج مخافة العيلة فقد أساء الظّنّ بالله[4]اگر کوئی فقرو تنگدستی کی وجہ سے شادی نہ کرے توگویا وہ اللہ تعالی پر بد گمان ہواہے۔

        سب سے بڑا مسئلہ اللہ تعالی پر بےاعتمادی اور رازقیت پرشک کرنا ہے۔ یہ اقتصادی مشکل نہیں بلکہ خدا کی عدم شناخت اور اعتقادی کمزوری  کا نتیجہ ہے۔ اگر انسان اپنے عقیدے کی اصلاح کرے اور اللہ تعالی پر بروسہ رکھے تو کبھی زندگی میں اقتصادی مسائل سے نہیں گھبرائے گا۔

دراصل فقر و تنگدستی کاخوف شیطان کا حیلہ ہے، جیسے کہ اللہ تعالی  کا ارشاد ہے:  الشَّيْطانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ يَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشاءِ وَ اللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَ فَضْلاً وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ[5]

شیطان تم سے فقیری کا وعدہ کرتا ہےاور تمہیں برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے۔ خدا صاحب وسعت بھی ہے اور علیم ودانا بھی۔

پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی پاکدامنی اورعفت کی خاطر شادی بیاہ کرنے والوں کی ضرور مدد کرتا ہے۔[6]

یہ تصور کرنا کہ شادی انسان کی مادی زندگی کو مشکل ساز بنا دیتی ہے بالکل غلط ہے بلکہ اسلامی تعلمیمات کی رو سے شادی انسان کی مادی اورمالی زندگی کو بہتر بنادیتی ہے۔ یہ اللہ تعالی کا قانون ہے اس پر ہر مسلمان کو یقین رکھنا چاہیے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے آئندہ کے رزق کا حال ہی میں بندوبست کرلینا چاہیے؛ لیکن الہی قانون کا کہنا ہے کہ تم قدم بڑھائو، رزق خود بخود مہیا ہوگا۔

پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم    فرماتے ہیں: إتّخذوا الأهل فإنّه أرزق لكم.[7]شادی کرو، شادی تمہارے رزق میں اضافےکا باعث بنتی ہے۔

پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم    ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: عورتیں شوہر کے گھر مال و دولت کے ساتھ آتی ہیں[8] آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم    شادی کو رزق و روزی کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں روزی کو شادی بیاہ میں تلاش کرو[9]۔

انسان کی غلطی اس میں ہے کہ وہ سمجھ رہا ہے کہ تمام عمر کی روزی حال ہی میں جمع ہونی چاہیے تا کہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسرکرسکے۔

انسان رزق کی ضمانت کا مطلب کچھ اس طرح تصورکرتا ہے کہ تمام عمرکے لئے رزق و روزی زمان حال ہی میں موجود ہو! حالانکہ رزق کی ضمانت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے۔ الہی قوانین یہ ہیں کہ انسان کی روزی، زمانے کے ساتھ ساتھ ملتی جاتی ہے، اس قانون کو پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ یوں بیان فرمارہے ہیں: يا علىّ لا تهتم لرزق غد فانّ كلّ غد يأتى برزقه.[10]یاعلی ع آنے والے کل کی روزی کی فکر مت کرنا؛ کیونکہ ہر آنے والا کل اپنی روزی ساتھ لے کر آتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگرکوئی شخص آنے والے کل کی روزی کے لئے فکر مند رہے تو وہ ہرگز فلاح نہیں پائے گا[11]  اس بحران سے نجات صرف مذکورہ قانون پر یقین کرنے میں ہی ہے۔ اگر کسی کو یقین ہوجائے کہ آنے والے کل کی روزی اسی کل کے ساتھ ملنے والی ہے تو اس رزق کے آج نہ ہونے پر فکرمند نہیں ہوگا اور آرام و سکون کی زندگی گزارے گا۔

حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں: آنے والے کل کی روزی کی فکر مت کرنا؛ کیونکہ اگر آنے والا کل تمہاری عمر کا حصہ ہے تو رزق بھی ساتھ لے کر آئے گا اوراگر آنے والا کل تمہاری عمر کا جز ہی نہ ہو تو پھرتم دوسروں کی روزی کی فکر مت کرنا۔[12]

جب انسان اپنے اندر اس قسم کی روحانی طاقت پیدا کرلے گا تو وہ ہر قسم کی مالی پریشانیوں اور دبائوسے محفوظ رہے گا اور شادی کرنے سے کبھی نہیں گھبرائےگا۔

سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ روزی کی ضمانت کا قانون صرف اس انسان کے لئے ہے جو محنت کش ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالی روزی عطا کرنے والا ہے؛ اللہ پاک اسی انسان کو  باعزت رزق مہیا کرتا ہے جورزق حلال کے حصول میں کوشاں رہتا ہے۔ اللہ تعالی ایسے انسان کی روزی کی ضمانت دیتا ہے جو اپنے اہل وعیال کے لئے روزی کمانے کی کوشش کرتا ہے؛البتہ یہاں روزی اور رزق سے مراد زیادہ مالدار اورثروت مند ہونا نہیں ہے جو ہمیشہ حرص اور زیادہ خواہی کے ہمراہ ہے۔ جس چیز کے بارے میں اللہ تعالی نے ضمانت دی ہے وہ روزی ہے نہ ثروت اندوزی۔ ہرگزیہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ روزی کی ضمانت سے مراد، مال ودولت اور انسانی طویل آرزوئیں ہیں۔  محنت کش انسان اپنے آئندہ کا فکرمند نہیں رہتا ہے وہ اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے اپنی سعی و کوشش جاری رکھتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: لا تحمل على يومك همّ سنتك، كفاك كلّ يوم ما قدّر لك فيه، فان تكن السّنة من عمرك فانّ اللَّه سبحانه سيأتيك فى كلّ غد جديد بما قسم لك، و ان لم تكن من عمرك فما همّك بما ليس لك.[13]

  سال بھرکی روزی کی فکر کو آج پر بار مت کرو، ہردن کے لئے جو کچھ اس میں ہے کفایت کرتا ہے پس اگر وہ سال تمہاری عمرمیں شامل ہو تو اللہ تعالی ہر روز کی روزی  تمہارے لئے ضرور مہیا کرتا ہے اور اگر وہ سال تمہاری عمرمیں شامل ہی نہ ہو تو پھر کیوں اس کی فکر کرتے ہو جو تم سے مربوط ہی نہیں!

حضرت علی علیہ السلام ہر دن کی روزی کے بارے میں فکرمند رہنے کی شدید مذمت کرتے ہوئےفرماتے ہیں: روزی کی فکر صرف اسی دن کے لئے کافی  ہے۔ انسان ہردن کی روزی کی فکر اسی دن کرے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ قباحت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب انسان پوری زندگی کی روزی کی فکر آج ہی کرے؛ لیکن انسان اگر صرف آج کی فکر کرے اور آئندہ کی روزی کی فکر چھوڑ دے تو نہ آج کے کام سے رہ جائے گا اور نہ ہی شادی کرنے سے گھبرائے گا۔                     

  جاری ہے


[1] .سورہ نورْ۳۲۔

[2] ۔ وَ قَالَ ص لِرَجُلٍ اسْمُهُ عَكَّافٌ أَ لَكَ زَوْجَةٌ قَالَ لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَ لَكَ جَارِيَةٌ قَالَ لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ص أَ فَأَنْتَ مُوسِرٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ تَزَوَّجْ وَ إِلَّا فَأَنْتَ مِنَ الْمُذْنِبِين. پیغمبر اکرم ص نے عکاف  نامی شخص سے دریافت کیا :کیا تمہاری بیوی ہے؟کہا: نہیں یا رسوگؤل اللہ ،فرمایا: تمہاری کوئی کنیز ہے؟کہا: نہیں ، دیا رسول اللہ ! فرمایا:کیا تم مالی توانائی رکھتے ہو؟کہا: ہاں ، پیغمبر ص نے فرمایا:شادی کرو ورنہ تم گنہگار ہو۔

[3] ۔سورہ نورْ۳۲

[4]۔الکافی،ج ۵،ص۳۳۰۔

[5] .بقرہ،۲۶۸۔

[6] ۔حق علی اللہ عون من نکح التماس العفاف عما حرم اللہ۔الفردوس،ج۲ص۱۳۲۔ح۲۶۷۶۔کنزالعمال،ج۱۶،ص۲۷۶،ح۴۴۴۴۳۔

قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله: «ثلاثة حقّ على اللّه عونهم: المجاهد فى سبيل اللّه و المكاتب الّذى يريد الأداء، و النّاكح الّذى يريد العفاف.(سنن الترمزی،ج۴ص۱۸۴،ح۱۶۵۵۔سنن نسائی ج۶،ص۶۱۔السنن الکبری،ج۱۰ ص۵۳۷۔ح ۲۱۶۱۲۔کنز العمال ج۳، ص۴۱۶، ح۷۲۲۳۔

[7] ۔الکافی، ج۵، ص ۳۲۹۔کتاب من لا یحضرہ الفقیه ج۳، ص۳۸۳، ح۴۳۴۵۔

[8] ۔ تزوّجوا الزرق فإنّ فيهنّ البركة. تزوجوالنساء فانهن  یاتینکم باالمال۔(المصنف لابی شیبه:ج۳ ص۲۷۱۔المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص۱۷۴۔

[9] ۔ الْتَمِسُوا الرِّزْقَ بِالنِّكَاح.(مکارم الاخلاق،۱۹۶؛ الفردوس،ج۱ ص۸۸۔

[10] تحف العقول،ص۱۴؛بحار الانوار،ج ۷۴،ص۶۷

[11] ۔ مَنِ اهْتَمَّ بِرِزْقِ غَدٍ لَمْ يُفْلِحْ أَبَداً(غرر الحکم،ح۹۲۰۸؛ عیون الحکم والمواعظ،ص ۴۲۵

[12] . قَالَ عِيسَى ع لَا تَهْتَمُّوا بِرِزْقِ غَدٍ فَإِنْ يَكُنْ مِنْ آجَالِكُمْ فَسَيَأْتِي فِيهِ أَرْزَاقُكُمْ مَعَ آجَالِكُمْ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ مِنْ آجَالِكُمْ فَلَا تَهْتَمُّوا لِآجَالِ غَيْرِكُ)تنبیه الخواطر،ج1،ص278.

[13] .من لا یحضرہ الفقیه،ج4، ص384،ح 5834، نهج بلاغه، حکمت 379. وسایل الشیعه،ج17، ُ50،\ح 21954

Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close