تازہ ترین خبریں

پاکستان اور سرخ رو ہو گا

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

پاکستان کے مردِ آہن جنرل راحیل شریف اور ان کے وزیرِ اعظم نواز شریف کا سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے ریاض اور تہران جانے کا فیصلہ قابلِ قدر ہے۔
بظاہر نہ سعودی عرب نے پاکستان سے ثالثی کے لیے رجوع کیا نہ ہی ایران نے۔ خود پاکستانی دفترِ خارجہ بھی پچھلے ہفتے ہی قومی اسمبلی کی مجلسِ قائمہ برائے امورِ خارجہ کو بتا چکا ہے کہ یہ وقت ثالثی کے لیے مناسب نہیں۔
مگر ہو سکتا ہے گذشتہ دنوں یکے بعد دیگرے اسلام آباد آنے والے سعودی وزیرِ خارجہ اور پھر وزیرِ دفاع نے راحیل شریف کے کان میں کہا ہو کہ ’طریقے نال ساڈی جان چھڈاؤ ۔۔۔‘
ثالثی کے لیے وقت بھی خوب چنا گیا۔ ایک ایسے وقت جب ایران پر سے مغربی پابندیاں اٹھنے کے سبب اسرائیل اور سعودی عرب سخت اپ سیٹ ہیں۔ سوموار کو پاکستانی شریفین جب خادمِ حرمین و شریفین سے ملیں گے تو بادشاہ سلامت آخر کتنی خندہ پیشانی دکھائیں گے؟
اس سے اگلے روز دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور کے صدر شی پنگ بھی صلح صفائی کے لیے ریاض پہنچیں گے۔ جب راحیل و نواز تہران سے اسلام آباد کی جانب محوِ پرواز ہوں گے تو صدر شی پنگ تہران میں اتر رہے ہوں گے۔

چین کے صدر شی جن پنگ بھی ایران اور سعودی عرب کے دورے پر جا رہے ہیں
اب بین الاقوامی میڈیا صدر شی پنگ کو دیکھے یا جنرل راحیل شریف اور نواز شریف کی ثالثی کو؟
ثالثی کے لیے بنیادی شرط غیر جانبداری ہوتی ہے۔ پاکستان اس 34 رکنی سعودی سٹرٹیجک اتحاد کا علامتی حصہ ہے جس میں ایران شامل نہیں۔ بظاہر جنرل راحیل شریف واضح کر چکے ہیں کہ سعودی سرزمین پر کسی بھی جانب سے حملے کی صورت میں پاکستان سعودی عرب کا ہر قیمت پر دفاع کرے گا۔ پھر بھی ایران اور سعودی عرب کے بیچ ایک غیرجانبدار مصلح بننے کی پاکستانی کوشش جرات مندانہ ہے۔
یہ الگ بات کہ خود پاکستان ایک عرصے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالث تلاش کر رہا ہے۔ پاکستان بطور ثالث طالبان اور افغان حکومت کو ایک میز پر لانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پایا۔ خود پاکستان کو بھی اندرونی طور پر بلوچستان کا بحران حل کرنے کے لیے مصالحانہ کوششیں درکار ہیں۔
مگر پاکستان کا اخلاص اس اعتبار سے قابلِ تعریف ہے کہ اپنے داخلی و خارجی مسائل کے حل میں کسی مصالحت سے زیادہ اسے یہ مصلحت لاحق ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایران سعودی مصالحت ہو جائے۔
کیونکہ پاکستان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ سانڈوں کی لڑائی کا کچھ بھی نتیجہ نکلے کچلی گھاس ہی جاتی ہے۔
یوں بھی پاکستان نہ صرف عالمِ اسلام کا واحد قلعہ بلکہ واحد ایٹمی طاقت بھی ہے۔ ایران سے پاکستان کا ثقافتی و تاریخی رشتہ جبکہ سعودی عرب سے مذہبی اخوت کا مالی تعلق ہے۔ اس ناطے تینوں ممالک ایک دوسرے کی نفسیات بہت خوب سمجھتے ہیں۔
خوش قسمتی سے تینوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے سے کماحقہ واقف ہیں۔ بھلا کون سعودی ہے جس کا کسی پاکستانی محنت کش سے کبھی ذاتی واسطہ نہیں پڑا۔ کون سا سعودی ہے جو پچھلے 35 برس میں سرکاری و نجی حیثیت میں پاکستان آیا ہو اور یہاں چند گھنٹے سے لے کر چند برس کے قیام میں آدابِ مہمان نوازی کی گرم جوشی سے واقف نہ ہوا ہو۔
خود پاکستان ایک عرصے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالث تلاش کر رہا ہے۔ پاکستان بطور ثالث طالبان اور افغان حکومت کو ایک میز پر لانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پایا۔ خود پاکستان کو بھی اندرونی طور پر بلوچستان کا بحران حل کرنے کے لیے مصالحانہ کوششیں درکار ہیں۔
اسی طرح ایران اور پاکستان کے عوام کا تعلق بھی کبھی محدود نہیں رہا۔ حکومت و حالات جو بھی ہوں پاکستانی باشندے پوشیدہ و اعلانیہ جیسے چاہیں جب چاہیں ایران جا سکتے ہیں اور ایرانی جو چاہیں بلا روک ٹوک پاکستان بھیج سکتے ہیں۔
برادر مسلمان ممالک کے درمیان جھگڑے میں پاکستانی ثالثی کوئی نئی نہیں۔ ایک ایسے وقت جب خود پاکستان افغان خانہ جنگی میں گردن گردن پھنسا ہوا تھا جنرل ضیا الحق نے ایران اور عراق کے درمیان جنگ بندی و مصالحت کی کوششیں جاری رکھیں اور آٹھ برس صبر کا دامن تھامے رہے ۔1988 میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے تحت ایران و عراق میں جنگ بندی کے نتیجے میں پاکستان سرخ رو ہوا اور آج تلک ہو رہا ہے۔
اس تناظر میں امید رکھنی چاہیے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کی کوششوں کے سبب پاکستان مزید سرخ رو ہوگا۔ وماعلینا الاالبلاغ ۔۔۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close