ائمہ اطهاراسلاماسلامی بیداریتازہ ترین خبریں

رجعت قرآن و سنت کے آئینے میں


اموات میں سے ایک گروہ قیامت کبری سے پہلے دنیا میں لوٹ آئےگا، پھردوبارہ وفات پائے گا، اس عقیدے کوکسی بھی طورپربدعت یامن گھڑت نہیں کہہ سکتے.

رجعت کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے : «وَ یَوْمَ نحَْشُرُ مِن کُلّ‏ِ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن یُکَذِّبُ بَِایَاتِنَا فَهُمْ یُوزَعُو ن۔»[1]

یہ آیت کریمہ رجعت پرواضح  طورپردلالت کرتی ہے۔ یعنی  قیامت کے دن حشراکبرسےحشراصغر پہلے ہوگا، کیونکہ اس آیت میں امت میں سے ایک گروہ کی حشر کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی ایک خاص گروہ محشورہوگا، نہ کہ سارے لوگ، حالانکہ حشراکبرکے بارے میں اللہ تعالی کاارشاد ہے «  وَ حَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنهُْمْ أَحَدًا»[2] جیسے کہ اللہ تعالی ایک دوسری آیت میں تکرارا فرماتاہے۔ ویوم نحشرھم جمیعا۔۔۔ [3]۔امام صادق علیہ السلام کافرمان ہے: آیت کریمہ: ویوم نحشرھم من کل فَوجا، رجعت کے بارے میں ہے عرض کیاگیا، لیکن لوگوں کاگمان ہے اس آیت کامطلب، روز قیامت ہے۔ توحضرت نے فرمایا: کیا قیامت کے دن اللہ تعالی ہرامت میں سے صرف ایک گروہ کومحشورکرکے باقی تمام لوگوں کوایسے ہی چھوڑ دیگا ؟ اللہ تعالی ہرگز ایسا نہیں کریگا  بلکہ رجعت میں ایسا ہوگا، یعنی صرف ایک گروہ محشورہوگا، لیکن قیامت کے دن سب کے سب اٹھائے جائیں گے جیسے کہ اللہ تعالی فرماتاہے: وحشرناہم ۔۔۔ ۔ [4]۔

شیعہ عقیدے کے مطابق یہ ہے کہ اموات میں سے ایک گروہ قیامت کبری سے پہلے دنیا میں لوٹ آئیں گے، پھردوبارہ وفات پائیں گے، اس عقیدے کوکسی بھی طورپربدعت یامن گھڑت نہیں کہہ سکتے کیونکہ اللہ تعالی ہرچیز پرقادرہے۔ اوراس قسم کے کئی قصے قرآن پاک میں موجود ہیں جیسے کہ عُزیرکاقصہ، اصحاب کہف کاقصہ، اورہزاروں لوگ اپنی سرزمین سے خارج ہوئے، اورستر مرد موسی کی قوم میں سے، وغیرہ جوپچھلے امتوں میں ایسے واقعات پیش آچکے ہیں تواس امت میں بھی ضرورپیش آئیں  گے اوراس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ یہاں پرہمارے علماء کرام نے واضح اورروشن دلائل کوذکر کیاہے، ان دلائل میں سے چند ایک کوقارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

شیخ صدوق نے (رسالۃ الاعتقاد) میں رجعت کے اثبات پرایک کامل اورمتقن دلیل پیش کیاہے۔

شیخ نے کچھ آیات کوبطوردلیل اورشاہد پیش کیا ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ مردوں کادوبارہ زندہ ہونے کی طرف اشارہ کیاہے یعنی اللہ تعالی نے پہلے ان کی قبض روح کی ہے پھردوبارہ زندہ کردیاہے۔ اوریہ لوگ دنیا میں ایک خاص مدت تک زندگی کرنے کے بعد دوبارہ وفات پاگئے ہیں، یہ سارے موارد اس بات کے گواہ ہیں کہ رجعت کوئی ناممکن چیز نہیں ہے، اورنہ ہی قدرت خدا کے ساتھ منافات رکھتی ہے۔ وہ آیات مبارکہ جوبطوردلیل پیش کیاہے:

1۔  « أَ لَمْ تَرَ إِلىَ الَّذِینَ خَرَجُواْ مِن دِیَارِهِمْ وَ هُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْیَاهُمْ»[5] (کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا،)۔یہ لوگ حزقیل کی قوم میں سے ہیں جن کوابن العجوز بھی کہاگیاہے [6]۔

ان لوگوں نے جنگ سے یا طاعون سے فراراختیارکیا، لیکن پھربھی یہ لوگ بیچ نہ سکے اوراللہ تعالی نے ان کوموت کے گھاٹ اتاردیا، حزقیل ان لوگوں کوڈھونڈتے ہوئے گھرسے نکلا پراس نے سب کے سب کومردہ حالت میں پایا، اوراللہ تعالی سے درخواست کی کہ ان سب کودوبارہ زندہ کیاجائے، اوراللہ تعالی نے اس کی دعا قبول کرتے ہوئے سب کودوبارہ زندہ کردیا، اوریہ لوگ اپنے گھروں کوواپس لوٹے، کھائے پئے، شادیاں کی، اوردنیا میں ایک اچھی خاصی زندگی بسرکرنے کے بعد طبیعی موت سے دوبارہ مرگئے۔ [7]

2۔ اللہ تعالی کافرمان ہے: «أَوْ کاَلَّذِى مَرَّ عَلىَ‏ قَرْیَةٍ وَ هِىَ خَاوِیَةٌ عَلىَ‏ عُرُوشِهَا قَالَ أَنىَ‏ یُحْىِ هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا  فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِاْئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۔۔۔» یہاں تک کہ فرمایا«وَ لِنَجْعَلَکَ ءَایَةً لِّلنَّاسِ۔»[8]کہتے ہیں کہ یہ عزیریا ارمیا ہے، روایت میں دونوں کاذکر ہے۔ پہلی روایت امام صادق علیہ السلام اوردوسرے کے بارے میں امام باقرعلیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے۔ اورامام علی علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ فرمایا عزیر دنیاسے چلاگیا جب کہ اس کی زوجہ حاملہ تھی، موت کے وقت اس کی عمرپچاس سال کی تھی اورجب وہ اللہ تعالی کے اذن سے دوبارہ زندہ ہوا تواسی پچاس سال کی عمرکی حالت میں تھا، لیکن اس کا بیٹا 100 سال کابوڑھا ہوچکاتھا، اوریہ اللہ تعالی کے نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے [9]۔

3۔«  وَ إِذْ قُلْتُمْ یَامُوسىَ‏ لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتىَ‏ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وَ أَنتُمْ تَنظُرُون» (اور (یاد کرو وہ وقت) جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم آپ پر ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک ہم خداکو علانیہ نہ دیکھ لیں، اس پر بجلی نے تمہیں گرفت میں لے لیا اور تم دیکھتے رہ گئے۔)«  ثمُ‏َّ بَعَثْنَاکُم مِّن بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون»( پھر تمہارے مرنے کے بعدہم نے تمہیں اٹھایا کہ شاید تم شکرگزار بن جاؤ)[10]

مرحوم طبرسی کہتے ہیں : اس آیت میں بعثناکم سے مراد احییناکم ہے یعنی تم کو زندگی بخشی ہے۔ جب تک تمہاری موت کا وقت نہ آئیے اوراضافہ کرتاہے:  ہمارے کچھ علماء نے رجعت کے اثبات کے لئے اس آیت کے ذریعے سے استدلال کیاہے، اوربعض لوگوں کا یہ کہنا کہ مردوں کازندہ ہونا صرف اورصرف پیغمبر اکرمﷺ  کے زندگی اورحیات کے ساتھ مختص ہے یعنی پیغمبر کی زندگی میں یہ سب ممکن ہے تاکہ پیغمبر اپنی نبوت کی دلیل کے طورپرپیش کرسکے، یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک بلکہ امت اسلامیہ کے اکثر فقہاء کے نزدیک یہ بات طے ہے کہ معجزے ائمہ اوراولیاءاللہ سے بھی صادر ہوتے ہیں۔ ابوالقاسم بلخی کہتے ہیں : رجعت اس صورت میں کہ پہلے ہی اعلان کیاگیا ہو صحیح نہیں ہے کیونکہ اس قسم کی رجعت سبب بنتی ہے کہ انسان گناہ کامرتکب ہوجائے۔ اس امید کے ساتھ کہ جب دنیا میں دوبارہ  لوٹ جاؤنگا تواچھے اعمال کرونگا اورتوبہ کرونگا: اس شبہے کا جواب یہ ہے کہ جس رجعت کے ہم قائل ہیں وہ یہ ہے کہ سارے لوگ اس میں شامل نہیں ہیں، صرف ایک خاص گروہ ہی دوبارہ زندہ ہوگا، لہذا یہ کہنا کہ رجعت باعث بنے گی کہ انسان گناہ کرے گا تویہ بات غلط ہوگی کیونکہ ہرفرد یہ یقین نہیں کرسکتاہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں زندہ ہوکرآئے گا [11]۔

4۔ اللہ تعالی حضرت عیسی ؑکوخطاب کرتے ہوئے فرماتاہے: «وَ إِذْ تخُْرِجُ الْمَوْتىَ‏ بِإِذْنىِ۔۔۔»( اور آپ میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے) [12]۔ مرحوم صدوق کہتے ہیں : جتنے بھی لوگ حضرت عیسیؑ نے اللہ تعالی کے اذن سے زندہ کیا سب کے سب کچھ مدت تک دنیا میں زندہ رہے اس کے بعد طبیعی موت سے ہی دوبارہ وفات پاگئے۔

5۔ اصحاب کہف کی داستان جوسورہ کہف  کی آیت نمبر 11سے پچیس تک اس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:«  فَضَرَبْنَا عَلىَ ءَاذَانِهِمْ فىِ الْکَهْفِ سِنِینَ عَدَدًا»(۔ پھر کئی سالوں تک غار میں ہم نے ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈال دیا)۔ «وَ لَبِثُواْ فىِ کَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِاْئَةٍ سِنِینَ وَ ازْدَادُواْ تِسْعا»[13](اور وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو کا اضافہ کیا۔)بھی دلالت کرتی ہے کہ رجعت ممکن ہے۔ شیخ صدوق کہتے ہیں : جب رجعت پہلی امتوں میں واقع ہوچکی ہے توپھرکیاقباحت ہے کہ اس امت میں بھی واقع ہوجائے ؟ حالانکہ حدیث میں بھی ہےکہ ہرہوچیز پہلی امتوں میں رونما ہوچکی ہیں اس امت میں بھی ضروررونما ہونگی۔[14]

6۔ اس کے علاوہ مرحوم مفید نے اس آیت کے ذریعے رجعت کے رونما ہونے پراستدلال کیاہے: «قَالُواْ رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَینْ‏ِ وَ أَحْیَیْتَنَا اثْنَتَینْ‏ِ فَاعْترََفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلىَ‏ خُرُوجٍ مِّن سَبِیل»[15]۔( وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی ہے،اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، تو کیا نکلنے کی کوئی راہ ہے۔)۔ یہ  اعتراف اوردرخواست قیامت کے دن ہی ہوگا، اوردوحیات اورزندگی سے مراد، ایک رجعت سےپہلے اورایک رجعت کے بعد والی زندگی ہے اوردوموت سے مراد بھی یہی ہے یعنی رجعت سے پہلے والی موت اوررجعت کے بعد والی کیونکہ یہ لوگ ان کوتاہیوں پرنادم اورپشیمان ہیں جوانھوں  نے ان دونوں زندگیوں میں کی ہیں، اوریہ بات مسلم اورقطعی ہے کہ نفخ دینے والے اعمال صرف اورصرف دنیا میں ہی ممکن ہے۔

7۔ شیخ مفید نے اس آیت کے ذریعے استدلال کیاہے: «إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِینَ ءَامَنُواْ فىِ الحَْیَوةِ الدُّنْیَا»[16]،( ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیاوی زندگی میں بھی مدد کرتے رہیں گے)۔ اس نصرت اورمدد کے بارے میں سوال کیاگیا اوراس نے کئی ایک جواب دیا ہے اورامامیہ علماء کے جواب کواس آیت کے متعلق ذکر کیاہے: امامیہ علماء کاجواب ہے کہ اللہ تعالی اپنے وعدے پرعمل کرتے ہوئے، اپنے اولیاء کوقیامت سے پہلے، امام زمان کے قیام کے وقت رجعت کاجووعدہ کیاہے مؤمنین کے لئے اس میں یاری اورمدد کرے گا [17]۔

8۔ صدوق نے اس آیت سے بھی استدلال کیاہے، «وَ أَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَیْمَانِهِمْ  لَا یَبْعَثُ اللَّهُ مَن یَمُوتُ  بَلىَ‏ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَ لَاکِنَّ أَکْثرََ النَّاسِ لَا یَعْلَمُون»[18] (اور یہ لوگ اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں: جو مر جاتا ہے اسے اللہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں اٹھائے گا؟ یہ ایک ایسا برحق وعدہ ہے جو اللہ کے ذمے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)۔وہ کہتے ہیں : رجعت کے وقت جیسے کہ اللہ تعالی فرماتاہے «لِیُبَینِ‏َّ لَهُمُ الَّذِى یخَْتَلِفُونَ فِیهِ۔۔۔»[19] (تاکہ اللہ ان کے لیے وہ بات واضح طور پر بیان کرے جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں) اورتبیین صرف اور صرف دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں [20]۔

              9۔ جاراللہ زمخشری نے حدیث ذی القرنین جوکہ علی علیہ السلام سے نقل کیاہے: کہتے ہیں : ابن کوانے حضرت سے پوچھا: ذوالقرنین کون ہے ؟ فرشتہ ہے ؟ یاکوئی پیغمبر ؟ فرمایا: نہ فرشتہ ہے اورنہ ہی پیغمبر ، بلکہ ایک نیک بندہ تھا اللہ تعالی کی اطاعت کرتے کرتے اس کے سرپردائیں جانب ایک ضرب لگی، جس  کی وجہ سے وہ وفات پاگیا،پھراللہ تعالی نے اس کودوبارہ زندہ کیا، کچھ مدت کے بعد اس کے سرکے بائیں جانب ایک ضرب لگی جس کی وجہ سے دوبارہ وفات ہوگیا، پھراللہ تعالی نے اس کوتیسری بارزندہ کیا، اس لئے اس کوذوالقرنین کہاگیا ہے اورآپ کے درمیان بھی اس قسم کا بندہ موجود ہے [21]، یعنی خود علی علیہ السلام۔ ابن طاووس کہتے ہیں : ہمارے مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: تمہارے درمیان بھی اس جیسا بندہ موجود ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ ابن ملجم نے حضرت کے سرپرضربت لگائی جس کی وجہ سے حضرت کی شہادت واقع ہوئی، اورحضرت بھی ذوالقرنین کی طرح دنیا میں لوٹ آئیں گے۔

رجعت کے بارے میں زمخشری کی یہ روایت شیعوں کی روایتوں سے واضح ترہے [22]۔

10۔ شیخ حسن بن سلیمان ،اپنی کتاب (المحتضر) میں حدیث ائمہ اثنا عشرجوکہ حضرت سلمان فارسی نے پیغمبر اکرمﷺ  سے روایت کی ہے، کونقل کرتاہے: سلمان نے حدیث کونقل کرنے کے بعد کہا: میں روپڑھا اوررسول خداﷺسے عرض کیا: اے خداکے رسول کیامیں ان کودرک کرسکتاہوں، ان سےمل سکتاہوں ؟ فرمایا: تم اورتم جیسے دوسرے لوگ صحیح معرفت کے ساتھ ان کودوست رکھوگے توضرورملوگے، سلمان کہتے ہیں  جب میں نے یہ سنا تواللہ کاشکراداکیا اورکہا: اے رسول خدا ﷺ، کیامیں اس وقت تک زندہ رہونگا ؟ فرمایا اے سلمان پڑھو: «ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَیهِْمْ وَ أَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَ بَنِینَ وَ جَعَلْنَاکُمْ أَکْثرََ نَفِیرًا»[23]( پھر دوسری بار ہم نے تمہیں ان پر غالب کر دیااور اموال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی)۔

سلمان کہتے ہیں میں نے کہا: یارسول اللہ خود آپ کی ضمانت سے ! کہا: جی میری ضمانت سے، اورہروہ شخص جوہم میں سے ہے اورہماری دفاع کرتے ہوئے اس پرکسی بھی قسم کاظلم وستم ہواہو۔ اللہ تعالی شیطان اوراس کی فوج کواحضارکریگا، اوراسی طرح ہروہ شخص کواحضارکریگا جوخالص ایمان یاکفرکامالک ہوگا، تاکہ کافروں  کوکیفر کردارتک پہنچایاجاسکے، اوراللہ تعالی کسی پرذرہ برابر ظلم نہیں کرتاہے، اورہم اس آیت کی تأویل ہیں۔ «وَ نُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلىَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُواْ فىِ الْأَرْضِ وَ نجَْعَلَهُمْ أَئمَّةً وَ نجَْعَلَهُمُ الْوَارِثِین»[24] (اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں)۔

علامہ مجلسی کہتے ہیں : اس روایت کوابن عیاش نے بھی (معتضب) میں سلمان سے نقل کیاہے [25]۔

البتہ یہ دونوں آیتوں کی تأویل اورباطنی معانی کی تفسیرہے۔ طبرسی سے کہتے ہیں : امامیہ میں سے وہ حضرات جورجعت کے قائل ہیں انھوں  نےسورہ نمل کی  آیت 83کے ذریعے استدلال کیاہے اورکہا ہے کہ (من) کلام میں تبعیض کے لئے آتا ہے، لہذا آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ لوگوں میں سے  ایک خاص گروہ لوٹ آئیں گے نہ سب کے سب اوریہ ممکن نہیں ہے  کہ ہم اس کوروز قیامت کے صفات میں سے قرار دیں، کیونکہ اس دن توسب کے سب محشورہوجائیں گے جیسے کہ اللہ تعالی کافرمان ہے: «وحشرناھم  فلم نغادرمنھم احدا» اس کے علاوہ بہت ساری احادیث اہل بیت اطہار علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہیں کہ فرمایا: اللہ تعالی امام مہدی علیہ السلام کے قیام کے دوران، پیروان حق میں سے ایک گروہ کوجوکہ امام مہدی علیہ السلام کے قیام سے پہلے مرچکے ہیں، دوبارہ زندہ کریگا، تاکہ وہ امام زمان کی مدد کرکے ثواب حاصل کرسکیں  اورقیام امام مہدی کودیکھ کرخوش وخرم ہوجائیں اسی طرح اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کے گروہ کوبھی دوبارہ زندہ کیاجائے گاتاکہ انتقام لیاجائے، اورجس سزاکے مستحق ہیں وہ دی جاسکے اوراس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یہ کام اللہ تعالی کے لئے نہایت ہی آسان ہے اوراللہ تعالی نے یہ کام پہلے امتوں میں انجام بھی دیا ہے، جس کی قرآن پاک کی کئی جگہوں میں گواہی دیتاہے۔ جیسے عزیرکاقصہ وغیرہ۔ جس کی تفصیل گزرگئی۔

 لیکن ایک گروہ نے رجعت والی تمام روایات کوتاویل کرتے ہوئے کہاہے:رجعت والی روایات کامطلب یہ ہے کہ: حکومت ائمہ اطہارؑ کی لوٹ آئے گی، نہ کہ خود ائمہ زندہ ہوکرلوٹ آئیں گے، ان لوگوں نے یہ تاویل اس لئے کیا ہے، ان کے خیال کے مطابق رجعت اورتکلیف (مکلف ہونے) کے درمیان منافات ہے۔ طبرسی کہتے ہیں : لیکن ایسانہیں ہے کسی قسم کی  منافات اس میں نظر نہیں آتی ہے۔ کیونکہ رجعت کے متعلق جوروایات ہیں اس میں کوئی ایسا نام ونشان تک نہیں ملتاہے کہ رجعت کے بعد کوئی شخص مجبورہوجائے کہ واجبات کوانجام دے اورقبیح چیز کامرتکب ہونے سے ممنوع قرارپائے۔ لہذا رجعت اورتکلیف کے درمیان کسی بھی قسم کی کوئی منافات نہیں پائی جاتی ہے۔

جس طرح تعجب آور معجزوں کاظہورہونا صحیح ہے۔ اس کے علاوہ رجعت صرف اورصرف روایات سے ثابت نہیں تاکہ روایات کوتاویل کریں، بلکہ آیات اوراجماع امامیہ سے ثابت ہے اوراس اجماع کی روایات تائید کرتی ہیں [26]۔

 علامہ مجلسی نے رجعت کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے: اوردوسو(200)  سے زیادہ معتمد روایتوں کورجعت کے بارے میں نقل کیاہے اورکہتے ہیں : کوئی بھی شخص جوائمہ اطہارعلیہم السلام کی حقانیت پراعتقاد رکھتاہو،اس کو کیسے ممکن ہے  کہ وہ دوسوسے زیادہ، روایتوں کوجوخود اہل بیت اطہارؑسے تواترکے ساتھ نقل ہوئی ہوں انکارکرے ؟ اورچالیس سے زیادہ بڑے بڑے علماء کرام اورثقات عظام نے اپنے پچاس سے زیادہ تألیفات میں ان روایات کاذکر کیاہے اس کے بعد مجلسی نے ان حضرات جورجعت کے بارے میں کتاب لکھی ہے، ان کا نام ذکرکرتاہے پھرقرآن کی آیتوں کے ذریعے رجعت کواثبات کرتاہے، اس کے علاوہ وہ روایات جورجعت کے بارے میں اہل بیتؑ کے علاوہ دوسروں سے نقل کی گئی ہیں کاذکر کرتے ہیں [27]۔

وہ لوگ جورجعت کےقائل نہیں ہیں، سورہ نمل کی آیت کی تفسیرکچھ یوں کرتے ہیں: آیت میں حشرسے مراد حشراکبرکے بعد دوزخ کی طرف جانا ہے اورفوج سے مراد گمراہ لوگوں کے سربراہان اورقائدین ہیں۔ جواپنے مریدوں سے پہلے پہلے دوزخ کی طرف روانہ ہوجائیں گے جیسے ابوجہل، ولید بن مغیرہ اورشعبۃ بن ربیعۃ،کفارمکہ سے پہلےہی دوزخ کی طرف جائیں گے اسی طرح دوسری امتوں کے سربراہان اورقائدین بھی اپنے مریدوں سے پہلے ہی دوزخ کی طرف روانہ ہوں گے  [28]۔

زمخشری، فہم یوزعون کی تفسیرکرتے ہوئے کہتے ہیں : پہلے شخص سے لیکرآخری شخص تک روکے جائیں گے تاکہ سب کے سب  اکھٹے ہوجائیں اسے کے بعد سب کوجہنم میں ڈال دے جائیں گے۔ پھرکہتے ہیں : یہ تعبیرکثرت اورزیادہ تعداد پردلالت کرتی ہے۔ چنانچہ سلمان کے سپاہیوں کوبھی اسی صفت کے ساتھ ذکر کیاگیا ہے [29]۔ اللہ تعالی ان کے بارے میں ارشاد فرماتاہے: «وَ حُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنّ‏ِ وَ الْانسِ وَ الطَّیرِْ فَهُمْ یُوزَعُون»[30] (اور سلیمان داؤد کے وارث بنے اور بولے: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں سب طرح کی چیزیں عنایت ہوئی ہیں، بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے۔)۔لیکن حق کے دشمنوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ سب کے سب ایک ساتھ محشورہوجائیں گے، پھر ان سب کوٹولوں کی شکل میں جہنم واصل کئے جائیں گے «وَ یَوْمَ یُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلىَ النَّارِ فَهُمْ یُوزَعُون»[31] (اور جس دن اللہ کے دشمن جہنم کی طرف چلائے جائیں گے تو انہیں روک لیا جائے گا)۔

اعداء جمع ہے اورمضاف بھی، جواصولی قاعدے کے مطابق عموم پردلالت کرتاہے: لہذا اللہ تعالی کے سارے دشمن اس میں شامل ہوں گے ، اوراس دن سب کےسب ایک ہی جگے میں اٹھائے جائیں گے اس کے بعد ٹولہ ٹولہ کی شکل میں جہنم ڈال دئیے جائیں گے۔ لیکن سورہ نمل کی آیت نمبر 83 واضح طورپربیان کرتی ہے کہ ہرامت میں سے صرف ایک گروہ کواٹھایا جائے گا۔ «ویوم نحشر من کل امۃفوجا»  یہاں پرلفظ (من) تبعیض پردلالت کرتاہے۔ لہذا ہرامت کے کچھ حضرات کوجواس امت کے رؤسا اورقائدین ہیں اٹھائے جائیں گے۔ اوریہ قیامت کے دن کے علاوہ کسی اوردن اٹھائے جائیں گے وہ وہی رجعت کازمانہ ہوگا اورفہم یوزعون کامعنی ہے کہ گروہ بندی کی جائے گی اورہرامت میں سے ایک خاص گروہ کواٹھایاجائے گا۔

اس بات پرآیت واضح طورپردلالت کرتی ہے اورقرآن کے اندربہت سی آیات موجود ہیں۔ جوکہ اس قسم کے واقعات پچھلی امتوں میں رونما ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ معصومین کی روایات بھی اس بات پردلالت کرتی ہیں۔ لہذا جیسے کی مرحوم مجلسی نے کہاہے رجعت کے بارے میں  کسی قسم کے انکارکرنے کا امکان نہیں ہے۔ یہ ان زندہ شواہد میں سے ایک ہے جواہل بیت اطہارؑ کے قرآن کے بارے میں فہم عمیق پردلالت کرتی ہے جوکہ دوسرے لوگ اس پرفیض الہی کے منبع سے محروم  ہیں۔

غلام مرتضی جعفری

1۔« اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھرانہیں روک دیا جائے گا۔» النمل: 83

2۔« اور سب کو ہم جمع کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے» کہف:47

3۔ الانعام  : 22۔ 128۔ یونس 10 : 28۔ سبا 34: 40

4۔ ملاحظہ کیجئے  : تفسیرصافی، ج2، ص 248۔ 247

5۔ بقرہ: 242

6[6]۔ کیونکہ ان کی ماں ایک بوڑھی عورت تھی اوراس نے اللہ تعالی سے بیٹا مانگا، اوراللہ تعالی نے اس کی دعا قبول کرتے ہوئے بڑھاپے میں اس کوایک بیٹا عنایت فرمایا : مجمع البیان، ج2، ص 346

7۔ اس حدیث کوحمران بن اعین نے امام باقرعلیہ السلا م سے روایت کیا ہے، مجمع البیان، ج2،ص 347

8-بقرہ:259

9۔ مجمع البیان، ج2، ص 270

10-بقرہ:55

11۔ مجمع البیان، ج1، ص 115

12۔ مائدہ 5: 110

13- 11سے 25  :کہف

14 ۔ صدوق الاعقائد، ص 62، بحارالانوار، ج53، ص 129۔ 128

15 ۔ غافر: 11

16 ۔ غافر  : 51

 17-     مسائل عبکریہ،ص74،مسئلہ 21۔بحار ج53،ص130)

18 ۔ نحل: 38

19۔ نحل: 39

20 ۔ رسالۃ الاعتقاد، بحارالانوار، ج53، ص 130

21 ۔ الکشاف، ج2، ص 743،  الکہف: 83۔ 88

22 ۔ سعید السعود، ص 65

23 ۔ اسراء : 6

24 ۔ قصص: 6۔ 5 

25 ۔ بحارالانوار، ج53، ص 144۔ 142 

26 ۔ مجمع البیان، ج7، ص 235۔ 234

[27]۔ ملاحظہ کیجئے  : بحارالانوار، ج53، باب 29، رجعت ص 144۔ 39۔

28۔ محمود آ لوسی، روح المعانی، ج20،23

29۔ تفسیرالکشاف، ج3، ص 385

30۔ نمل: 17

31۔ فصلت: 19

Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close