تازہ ترین خبریں

ڈو مور تقاضا: امریکہ کا اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا آسان نسخہ

امریکا نے پاکستان سے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کو محفوظ پناہ گاہوں کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو خطے میں دہشت گرد اور انتہاپسند گروپوں سے لاحق خطرے کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔امریکا کا پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ پہلی بار نہیں کیا گیا وہ اس سے پیشتر بھی متعدد بار ایسے مطالبات کا اعادہ کر چکا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے جو بے مثال قربانیاں دی ہیں اس کا اعتراف امریکا عالمی سطح پر کئی بار کر چکا ہے لیکن اس کے اس اعتراف کا پاکستان کو کیا فائدہ ہوا وہ بظاہر نظر نہیں آ رہا کیونکہ اس کے ساتھ ہی وہ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرنا نہیں بھولتا ،اس طرح پاکستانی کی تمام قربانیاں رائیگاں جاتی معلوم ہوتی ہیں۔ امریکہ کا افغانستان پر یلغار کرنیکا مقصد نائن الیون کے منصوبہ ساز اسامہ بن لادن کا تعاقب تھا۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن کی حوالگی کیلئے طالبان پر زور دیا تھا۔ طالبان کے انکار پر امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں کیساتھ پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے طالبان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ طالبان اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر اسلحہ اٹھا کر پورے ملک میں پھیل گئے۔ پاکستان کو امریکہ کی اس جنگ میں معیشت کی زبوں حالی اور 5 ہزار فوجیوں سمیت 60 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اسی جنگ کی وجہ سے 30 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے جن میں سے اب بھی لاکھوں اپنے گھروں سے دور ہیں اور سب سے بڑھ کر دہشتگردی کے آسیب میں پاکستان ایسا جکڑا گیا کہ اس سے نکلنے کیلئے بھی فوج اور قوم کو قربانیاں دینا پڑ رہی ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ قربانیوں کا یہ سلسلہ کب اور کہاں جا کر رکے گا مگر یہ تو واضح ہے کہ پاکستان میں یہ بدقسمتی امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے باعث در آئی۔امریکہ نے افغانستان میں نام نہاد جمہوریت کا پودا لگایا، معاملات سنبھالنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں افغانوں کو بھرتی کر کے فوجی تربیت دی مگر حالات قابومیں نہیں آ رہے۔ اب امریکی خود اپنی رپورٹوں میں کہہ رہے ہیں کہ طالبان دور کی نسبت افغان شہری اب خود کو زیادہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں، یہ امریکہ کی طرف سے اپنی ناکامی کا اعتراف ہے۔ آخر افغان شہری خود کو کب محفوظ سمجھیں گے؟ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان میں موجودگی اور کٹھ پتلی افغان حکومت کی عملداری کے دوران ایسا ممکن نہیں ہے۔ افغانستان میں مسائل حل کرنے اور قیام امن کیلئے عوام کی نمائندہ حکومت ضروری ہے۔ جب تک ملک کی بڑی آبادی ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب نہیں کرتے، حالات یونہی دگرگوں رہیں گے۔ اگر اشرف غنی انتظامیہ افغانستان میں مضبوط ہے اور امریکہ کی 3 لاکھ مقامی لوگوں کی تربیت یافتہ فوج حالات و معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو امریکہ کو افغانستان میں مسلط رہنے کی کیا ضرورت ہے؟

Tags
Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close