تازہ ترین خبریں

امر بالمعروف سے آمروں کو پریشانی

پیغمبر نوگانوی
خداوند عالم نے قرآن مجید کے سورۂ آل عمران ، آیت 104میں حکم دیا ہے کہ : ’’ اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے، نیکیوں کا حکم دے، برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں ‘‘ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کے نظام کا ایسا جزء ہے جو خود بخود معاشرے کی نگرانی کرتا ہے ، ہر انسان اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو اس کے اعمال و رفتار سے آگاہ کرتا ہے اور یہاں یہ مثال صادق آتی ہے کہ ’’مسلمان ، مسلمان کا آئینہ ہے ‘‘اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب میں برائیوں کو روکنے اور اچھائیوں کو پھیلانے کا ایسا طریقہ نہیں ہے ، یہ امتیاز تو صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ معاشرے میں ہر قسم کے فساد کا مخالف ہے جو اس دنیا میں ہر صالح حکومت اور سیاستمدار کی تمنا ہوتی ہے اور اسلام کے اس قانون میں حاکم و رعایا دونوں برابر ہوتے ہیں ، لیکن آمروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بہت پریشانی ہوتی ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر امر بالمعروف کو برداشت نہیں کرتے ، اسی لئے یہ کام بہت ہی سخت ہے ! لیکن چونکہ واجب ہے اس لئے تمام انبیاء نے اس کو انجام دیا اور جواب میں پتھرکھائے ، خود نبی کریم (ص) کو کتنی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں ، ابوذر غفاری جیسے صحابی رسول (ص) کو شہر بدر ہوکر بے آب وگیاہ جنگل میں موت کی آغوش میں جانا پڑا ، امام حسین (ع) جیسے عالی مرتبت نواسۂ رسول (ص) کوجام شہادت نوش کرنا پڑا مگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے منھ نہ موڑا ، 2جنوری 2016بروز ہفتہ آل سعود نے اہل سنت کے عالم و مبلغ فارس الزہرانی اور شیعہ عالم دین شیخ باقر النمر کی گردنیں بھی اسی جرم میں اتار لیں ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ادبی اصطلاح میں تنقید بھی کہا جا سکتا ہے جس کا مفہوم اور زیادہ وسیع ہوجاتا ہے ، مذکورہ دونوں عالم آل سعود کی امریکہ نواز پالیسیوں پر تنقید کیا کرتے تھے جس کی قیمت دونوں کو سر دے کر چکانی پڑی جبکہ قرآن مجید نے بھی یہود و نصاریٰ سے ایسی دوستی کو منع فرمایا ہے جیسی آل سعود نے کی ہوئی ہے ، کیا اسلام میں تنقید کرنے کی اتنی بڑی سزا دی جاتی ہے ؟ نہیں ! سنت رسول (ص) اور سیرت بزرگانِ اسلام گواہ ہیں کہ کبھی تنقید کرنے والوں کو سزائیں نہیں دی گئیں ، یہ آل سعود اسلام کے نام پر حکومت کر رہے ہیں اور اسلام ہی کو بدنام کر رہے ہیں ،آخر آل سعود کس اسلامی قانون کی بنیا د پر بادشاہ بنے بیٹھے ہیں ، کیا یہ عمل اسلامی ہے کہ کوئی شخص یا خاندان جمہوریت کا گلا گھونٹ کر مطلق العنان بادشاہ بن جائے اور لوگوں کا مقدر اپنے ہاتھ میں لے لے اور حکومت کو موروثی کر لے ؟ نہیں ! اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ جیسے ہی یزید کے ذریعہ موروثی شہنشاہیت کی داغ بیل پڑی فوراً ہی بانی اسلام کے نواسے حضرت امام حسین (ع) نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور اس راہ میں اپنا سر دے دیا ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں موروثی شہنشاہیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر آل سعود اسی غیر اسلامی طریقہ پر زبردستی لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں اور وہ اس موروثی شہنشاہیت کی مخالفت پر اسی طرح لوگوں کے سر تن سے جدا کردیتے ہیں ،مذکورہ دونوں عالموں کے یہی تو دو جرم تھے کہ قرآن پر عمل کرتے ہوئے آل سعود کو یہود و نصاریٰ کی دوستی سے روکتے تھے اور اسلامی جمہوریت کی باتیں کیا کرتے تھے ، وہی اسلامی جمہوریت جس کے بارے میں امریکہ اور اہل یورپ مسلمانوں کو یہ سمجھاتے آئے ہیں کہ اسلام میں جمہوریت کی صلاحیت نہیں ہے اور آیت اللہ خمینی نے مغرب کے اس نظریہ کو غلط ثابت کردیا ، اس کے علاوہ ان عالم کی کوئی غلطی نہیں تھی ، نہ انہوں نے کسی کو بم بنانے کی ٹریننگ دی تھی ، نہ کسی کو مسلح جد و جہد کے لئے اکسایا تھا ، نہ کسی کو ہتھیار دیئے تھے اور نہ کہیں بم بلاسٹ کیا تھا ، نہ کہیں آدم بم تیار کئے تھے اور نہ ہی ملک کے خلاف کوئی سازش کی تھی ،بلکہ ان کا کردار تو اتنا صاف ستھرا تھا کہ جب آل سعود نے ان کا رشتہ القاعدہ سے جوڑا تو پوری دنیا نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ الزام مضحکہ خیز ہے اور یہ اس صورت میں ہے کہ طالبان ، القاعدہ، داعش اور النصرۃ جیسی خونخوار دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی خود آل سعود کرتے ہیں۔

شہید شیخ باقر النمر 1968عیسوی میں مشرقی سعودی عرب کے صوبۂ قطیف کے ’’العوامیہ‘‘ شہر کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن ہی میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے 1989عیسوی میں ایران چلے گئے جہاں پر تہران میں واقع حوزۂ علمیہ حضرت قائم ﴿عج﴾ میں داخلہ لے لیا ، یہ حوزہ علمیہ اسی سال آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی نے قائم کیا تھا ، شیخ نمر یہاں 10سال تک تحصیل علم میں مشغول رہے اور پھر شام چلے گئے ، شام میں حوزۂ علمیہ سیدہ زینب (ع) میں داخلہ لے لیا ، آپ نے اصول میں اصول المظفر، رسائل شیخ انصاری اور کفایۃ آخوند خراسانی اور فقہ میں لمعہ دمشقیہ شہید اول، جامع المدارک خوانساری، مکاسب شیخ انصاری اور سید حکیم کی العروۃ الوثقیٰ کے علاوہ دیگر فقہی کتابوں کا مطالعہ کیا ، تہران اور شام میں تعلیم کے دوران آپ نے لمعہ علامہ شیخ وحید افغانی سے پڑھی اور اصول و فقہ کی دیگر کتابیں علامہ شیخ صاحب الصادق سے پڑھیں اور پھرتہران ہی میں آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی کے درس خارج میں شرکت کی ، اور شام میں آیت اللہ سید عباس مدرسی اور آیت اللہ خاقانی کے دروس خارج سے کسب فیض کیا اور پھر ایران کے مقدس شہر قم میں آیت اللہ شیرازی کے دروس اخلاق میں شرکت کی اور اس طرح آپ نے تعلیم کے میدان میں وہ بلند مقام حاصل کر لیا جسے اجتہاد کہتے ہیں ، شیخ نمر نے ایک عرصہ تک تہران و شام کے حوزہ علمیہ حضرت قائم ﴿عج﴾ کی ذمہ داری بھی سنبھالی اور بالآخر 2011میں اپنے وطن ’’العوامیہ‘‘ میں ’’الامام القائم‘‘ کے نام سے ایک اسلامی مرکز کی تاسیس کی ، شیخ نمر کو پہلی بار آل سعود نے 2006میں اُس وقت گرفتار کیا تھا جب آپ بحرین کے ایک سفر سے واپس آئے اور آپ پرالزام یہ تھا کہ آپ نے بحرین میں قرآن کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی تھی اور اس کانفرنس میں آپ نے آل سعود سے بالواسطہ طور پر یہ مطالبہ کیا تھا کہ قبرستان جنت البقیع کی صحیح ڈھنگ سے دیکھ بھال کی جائے اور سعودی عرب میں شیعہ مذہب کو دوسرے مذاہب کی مانند رسمیت دی جائے اور سعودی عرب کے اسکولوں کے نظام تعلیم کی اصلاح کی جائے ، دوسری مرتبہ آپ کو 23اگست 2008میں قطیف میں گرفتار کیا گیا ، اس مرتبہ آل سعود نے آپ کو اس الزام میں گرفتار کیا کہ آپ نے مشرقی سعودی عرب کے باشندوں کو اپنے بنیادی حقوق لینے کی بات یاد دلائی تھی جس کو آل سعود نے شیعوں کو حکومت کے خلاف اکسا نے سے تعبیر کر لیا ، عوام کا غم و غصہ دیکھ کر آل سعود نے آپ کو 24گھنٹے بعد رہا کردیا ، پھر آپ کو تیسری مرتبہ مارچ 2009میں گرفتار کیا گیا ، شیخ نمر حکومت کے ساتھ ساتھ سعودی میڈیا پر بھی تنقید کرتے تھے اور ساتھ ہی آل سعود کی بین المسلمین اختلاف ڈالنے والی پالیسیوں پر بھی تنقید کرتے تھے ، بہر حال ! آل سعودنے شیخ نمر پر جتنے بھی الزامات لگائے ہیں وہ انہیں گرفتار کرنے یا قتل کی سزا دینے کے لئے کافی نہیں ہیں ، اسی لئے پوری دنیا نے آل سعود سے قتل کی سزا پر عمل درآمد نہ کرنے کی کوشش کی تھی اور عراقی اہل سنت کے دارالافتاء سربراہ اور مفتی شیخ الصمیدعی نے تو سعودی عرب کے شاہ سلیمان کو خط بھی لکھا تھا جس میں موصوف نے آل سعود اور شیخ باقر نمر کے مابین ثالثی کی بات کہی تھی ، شاہ سلیمان نے اسے اس شرط پر قبول بھی کر لیا تھا اور سزائے موت کو ٹال دیا تھا کہ عراقی اہل سنت کے دارالافتاء کی ٹیم سعودی عرب آکر گفتگو کرے ، عراقی اہل سنت کی اس ٹیم نے سعودی عرب جانے کی تیاریاں بھی پوری کرلی تھیں کہ آل سعود کی طرف سے وعدہ خلافی کردی گئی اور اچانک یہ خبر عام ہوگئی کہ شیخ نمر کو قتل کردیا گیا ، در اصل اس وقت سعودی عرب مختلف قسم کے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ، ایک طرف شام اور عراق میں داعش جیسے دہشت گردوں کی پشت پناہی کی وجہ سے دنیا میں بدنامی ہو رہی ہے اورکمر توڑ بجٹ خرچ ہو رہا ہے دوسری جانب یمن میں نہتے شہریوں پر بمباری اور دنیا بھر میں تکفیری سوچ کو بڑھاوا دینے پر بے پناہ دولت خرچ کی جا رہی ہے ،تیسرے یہ کہ سعودی شہزادوں کی فضول خرچیاں بھی بام عروج پر ہیں جس سے سعودی بجٹ خسارے میں چل رہا ہے ، اس خسارے سے ابھرنے کے لئے اندرون ملک تیل کے دام 50%تک اضافہ کردیا گیا ہے ، سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کی تجویز تک مسترد کردی گئی ہے ، ان باتوں کا لازمی نتیجہ سعودی عوام کی حکومت کے خلاف بے چینی ہے ، جو گدی کھسکنے کا سبب ہو سکتی ہے ، لہٰذا ایسے موقع پر کسی مصلح کا اصلاح کی بات کرنا یا امر بالمعروف کرنا آمروں کے مفاد میں نہیں ہے اسی لئے آل سعود نے اپنی عوام کی توجہ ان امور سے ہٹانے اور اصلاحی تحریک کا سد باب کرنے کے لئے شیخ نمر کو قتل کرڈالا ، لیکن دنیا میں اس کا ردّ عمل بہت شدید ہوا ، لہٰذا آل سعود نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرکے اس رد عمل سے دنیا کی توجہ ایران۔سعودی عرب تنازعہ کی طرف موڑ دی ، حالانکہ دنیا آل سعود کے ان ہتھکنڈوں کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close