اہم خبریںخبریں

سانحہ ساہیوال کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کو تیار ہوں، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اپوزیشن کے مطالبے پر سانحہ ساہیوال کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کو تیار ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں موجود پی ٹی آئی ارکان نے ساہیوال کے افسوسناک واقعے پر پنجاب حکومت پر سخت تنقید کی۔

پی ٹی آئی ارکان اور وزرا نے پنجاب حکومت کی جانب سے سانحہ ساہیوال سے متعلق موقف کو بار بار تبدیل کرنے کو پارٹی کی تذلیل قرار دیا۔

اجلاس میں موجود پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے ساہیوال کے واقعے کو مس ہینڈل کیا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے ساہیوال واقعے پر بار بار موقف تبدیل کرنے سے حکومت کی جگ ہنسائی ہوئی۔

وزیراعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں خود ساہیوال واقعے کی تحقیقات کی مانیٹرنگ کررہا ہوں۔

انہوں نے پیش کش کی کہ اپوزیشن کے مطالبے پر سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بھی بنانے کو تیار ہوں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن چاہے تو نئی جے آئی ٹی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے، اپوزیشن بتائے تحقیقات میں کون سے آفیسرز کو شامل کرنا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ساہیوال واقعے کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، شفاف تحقیقات کرواکے سب کچھ عوام کے سامنے رکھیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز (22 جنوری کو) وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے ساہیوال میں پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دیا تھا۔

سانحہ ساہیوال سے متعلق بنائی جانے والے جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی ابتدائی رپورٹ سے متعلق انہوں نے بتایا تھا کہ جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق خلیل کا خاندان بے گناہ ہے اور ان کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی کو ٹھہرایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے تمام افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ذیشان جاوید کے بارے میں مزید تفتیش کی مہلت مانگی گئی ہے۔

وزیر قانون راجہ بشارت نے بتایا کہ واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت چالان کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا، ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا ہے۔

ساہیوال واقعہ
19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

چے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں گزشتہ روز وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال:’ذیشان کا تعلق داعش سےتھا‘

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجا بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

Show More

admin

Shia in Islam is providing authentic values of islamic world

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close