جب سے پلاسٹک کی ڈسپوزیبل بوتلوں میں پانی ملنا شروع ہوا ہے تو عام خیال یہی ہے کہ پینے کو صاف و شفاف پانی مل رہا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ منرل واٹر فراہم کرنے والی کمپنیاں کس قدر ایمانداری سے کام کررہی ہیں، ہم پلاسٹک کی بوتلوں کے استعمال اور ان سے ہونے والی زمینی اور سمندری آلودگی کے بارے میں بات کریںگے کیونکہ یہ ایک ہولناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔
پلاسٹک کی بوتلوں کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر بوتلوں میں BPAیعنی کاربن پر بنیاد کردہ سنتھیٹک مادہ بائی اسفینول اے (Bisphenol A) ہوتاہے، جو پانی کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی متاثر کرتاہے۔
اس پانی سے انسان میں ماں باپ بننے کی صلاحیت میں کمی کےساتھ ساتھ وٹامن ڈی کی کمی اوردل کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ چین میں جب طلبا کا یورین ٹیسٹ کیا گیا تو ان کا BPAزیادہ نکلا اور وہ موٹاپے کا بھی شکار ہورہے تھے۔
جرمنی میں جب پانی کی بوتلوں کو ٹیسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس پانی میں کئی قسم کے کیمیکلز جیسے کہ فرٹیلائزر، بیکٹیریا، کلورینیشن، بائی پروڈکٹس، بینزین، آرسینک یہاں تک کہ ٹائلینو پایا گیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ پانی اتنا بھی محفوظ نہیں جتنا کہ آپ کے گھر میں موجود پانی ہوتا ہے، جو ROپلانٹ سے ٹریٹ کیا گیا یا دو بارہ اُبالا گیا ہوتاہے۔ حقیقت تو یہ ہےکہ پانی کی ایک بوتل میں24ہزار سے زائد کیمیکلز ہوسکتے ہیں او ر ان کےمضر اثرات کی وجہ سے کینسر، ہارمونز یا خون کی خرابی کا خطر ہ ہوسکتاہے۔
پلاسٹک کی بوتلیں عام طور پرری سائیکل نہیں ہوتیں، انہیں پھینک دیا جاتاہے یا پھر یہ سمندر برد ہو جاتی ہیں۔ پلاسٹک کی بوتلیں سمندری مخلوق کی غذا بنتی ہیں، جس سے سمندری حیات خطرے میں پڑنے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندری اور زمینی آلودگی کی وجہ سے ارضیاتی اور موسمی تبدیلیوں میں شدت آتی جارہی ہے۔ سمندری آلودگی سے مچھلیاں اور دیگر سمندری مخلوقات کی نسلیں خطرے میں ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میںتین ارب آبادی سمندری غذا سے حاصل ہونے والی پروٹین پر انحصار کرتی ہے۔ جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیںاس کا70فیصد سمندری نباتات کے ذریعے آتا ہے جبکہ دنیا کو مہیا کیے جانے والا 97فیصد پانی سمندروں سے آتاہے۔
اب آپ خود سوچیں جب سمندر پلاسٹک سے بھر جائے گا اور پانی گرم ہونے کی وجہ سے آئس کیپس یا آئس برگ پگھلنے لگ جائیں گے تو سمند ری حیات کے معدوم ہونے کا خطرہ گہرا ہوتاچلا جائے گا۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور بہت سی این جی اوز کام کررہی ہیں، اہداف مقرر کررہی ہیں جبکہ آگاہی کے پروگرام بھی جاری ہیں اور ڈاکیومینٹریز بھی بن رہی ہیں۔ 1982ء میں Law of the Seaکے نام سے ایک قانو ن بھی وضع کیا گیا تھا، جس کے تحت دنیا کےسمندروں کا مستقبل بشمول اس کی معاشی ترقی اور انسانی صحت پر اثرات کے حوالے سے مختلف ملکوں کے سربراہوں نے بھی مباحثے کیے تھے۔
ان تمام تر کاوشوں کےعلاوہ بحیثیت زمینی باشندہ ہونے کے ہمیں انفرادی طورپر بھی عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری استعمال کردہ ڈسپوزیبل بوتلوں کا جب ڈھیر لگتاہے تو سمند ر تک پہنچتے ہوئے یہ تعداد8ملین ٹن سالانہ تک پہنچ جاتی ہے۔ ان بوتلوں میں موجود کیمیکلز سمندری حیات کیلئے زہر قاتل ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم اور ایلان میک کرتھر فائونڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050ءتک سمندروںمیں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہوگا۔ دنیا میں ہر سال300ملین ٹن پلاسٹک تیار کیا جاتاہے اور اس کا50فیصد یعنی 150ملین ٹن ایک بار استعمال کرکے پھینک دیا جاتاہے۔ دنیا بھر میں سالانہ500بلین پلاسٹک بیگس تیار ہوتے ہیں، جن کے استعمال کی اوسط مدت15منٹ ہوتی ہے، اس کےبعد وہ انسانی ہاتھ سے نکل جاتےہیں۔ دنیا بھر کے کچرے کا14فیصد پلاسٹک کنٹینرز ہیں جبکہ ایک لیٹر پلاسٹک بوتل کی تیاری میں0.25لیٹر آئل اور 6لیٹر پانی خرچ ہوتاہے۔
پلاسٹک کی بوتلیں ایک بار استعمال کرلی جائیں تو پھر دوبارہ استعمال نہیں کی جاسکتیں کیونکہ ایسا کرنا مضرِ صحت ہے، صرف مخصوص پلاسٹک کی بوتلیں ہی دوبارہ استعمال کے قابل ہوتی ہیں، جن پر مخصوص نمبر درج ہوتا ہے۔
ناقابلِ استعمال بوتلوں کو استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کیمیکلز کو اپنے اندر اُتار رہے ہوں گے۔ ایسی بوتلو ں کی قیمت کم ہوتی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بچت کرنے کے چکر میںآپ کو زیادہ ادائیگی کرنی پڑجائے۔
جہاں تک ممکن ہوپلاسٹک بیگ کی جگہ پیپربیگاستعمال کریں اور پلاسٹک کی بوتلوں، ڈسپوزیبل کپ، کٹلری، اسٹرا اور کافی پوڈز کے استعمالسے گریز کریں۔ اپنا پانی شیشے کے فلاسک یا اسٹین لیس اسٹیل بوتل میں ساتھ رکھیں۔ آپکو اس بات کا یقین رہے گا کہ آپ کیمیکلز سے پاک پانی پی رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپڈسپوزیبل بوتل کو تلف کرنے کی جھنجٹ اور آلودگی میں اضافہ کرنے کے افسوس سے بچ جائیںگے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ