اسلامتازہ ترین خبریں

حج ابراہیمی اور تعلیم و تربیت


اسلام میں تعلیم و تعلم کو ایک خاص مقام حاصل ہے؛ بنیادی طور پرتعلیم کےبغیرمعاشرے میں ترقی، خوشحالی اور کمال کے منازل طے نہیں ہوتے۔ تعلیم و تعلم انفرادی یا اجتماعی دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔

ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

تحریر: مجتبی حیدری

تعلیم وتعلم کے مختلف طورطریقے اور وسائل ہوتے ہیں، جیسے گروہی اورانفرادی؛ ان طریقوں اور وسائل میں سے ایک حج ہے، حج ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس میں انسان انفرادی اور اجتماعی شکل میں (دنیوی، اخروی)، مادی اور روحانی مسائل سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ حج کے دوران پیغمبراکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اورائمہ معصومین علیہم السلام نےانفرادی اور اجتماعی تعلیم و تربیت کی خاطر، دین اسلام کی حقانیت اور اسلامی تعلیمات کوعام کرنےکےلئے بہت زحمتیں برداشت کیں؛ جس کی بہت سی مثالیں تاریخ میں مذکور ہیں؛ جیسے کہ شعب ابی طالب میں تین سال تک معاشی محاصرے کے دوران اسلامی تعلیمات کو پھیلانے اور انسانی تربیت کا واحد راستہ حج ہی تھا۔ اس کے علاوہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ایک طویل خطبہ دینے کے بعد لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کہ ان باتوں کو حاضرین، غائبین تک پہنچا دیں۔ (طبرسی، الاحتجاج، ج 1، ص 62). اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے بعد ائمہ اطہار علیہم السلام نے حج کے ایام میں انسانی تربیت کی، غلط عقائد اورانحرافات کو درست کیا؛ جیسے کہ حج کے متعلق امام جعفرصادق علیہ السلام نے زندیق مصری جیسے متعدد افراد سے مناظرےکئے۔ (کلینی، الکافی، ج 1، ص 72)، ابن ابی‌العوجاء (کلینی، الکافی، ج 1، ص 74)، سفیان ثوری (کلینی، الکافی، ج 6، ص 443)  نیزطواف کعبہ کے دوران امام صادق علیہ السلام کی ابو احمد نامی شخص کو نصیحت۔ یہ وہ نمونے ہیں جوائمہ اطہارعلیہم السلام سے ہم تک پہچنے ہیں. (کلینی، الکافی، ج 4، ص 414)؛لہذا حج کا ماحول ایسا ہے کہ حجاج کرام کے ذریعے اسلامی تعلیمات ساری انسانیت تک پہنچائی جاسکتی ہیں؛ کیونکہ حجاج دنیا کے ہرملک سے آتے ہیں اور حج کے اثرات لے کر واپس جاتے ہیں۔

 اسلامی معاشرے کی تعلیم وتربیت میں حج ابراہیمی کے اثرات

  1. حج اور مذہبی تعلیمات

حج، اسلامی ثقافت اور وحیانی تعلیمات دنیا بھر میں پھیلانے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ مکہ کی مقدس سرزمین میں مخصوص ایام میں لاکھوں فرزندان توحید فریضہ حج ادا کرتے ہیں اور اس میدان میں دین مبین اسلام کے اہم ترین تعلیمات؛ جیسے مسلمانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ الفت و مودت، بھائی چارہ، شرک اور دشمنان اسلام سے برائت اور بیزاری کا اظہار کرتےہوئے ہرقسم کے باہمی جزئی اختلافات کو پس پشت ڈال کرہرعلاقے اور ہر رنگ و نسل کے تمام مسلمانوں کےلیے برابری اور مساوات کا سبق سکھا اور سکھایا جاتا ہے؛ لہذا حج اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت خاص کرانسانی تربیت کےلیے ایک نہایت موزوں موقع ہے؛یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اوراہل بیت اطہارعلیہم السلام نے اس موقع سے استفادہ کیا۔ حج کے دنوں میں اسلام کی حقانیت کو عام کرنے اور اسلامی تعلیمات کوپھیلانے کےلیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت طیبہ کی بہت سی مثالیں تاریخ میں مذکور ہیں؛ جیسے ظلم وجبر کے دور میں جب حکمرانوں اور سلاطین نے دینی تعلیمات اور احکام کی اشاعت، خاص طور پر احادیث پر پابندی عائد کردی تھی تو مسلمانوں نے حج کے ذریعے اسلامی تعلیمات اور احادیث دنیا بھرمیں پھیلایا اور حج ہی ائمہ معصومین علیہ السلام اور علما کرام اور ان کے علمی خزانے سے رابطے کا اہم ترین ذریعہ رہا۔ (مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج 14، ص ۸۰).

  1.  حج اور روحانی اقدار کی تقویت

 حاضرین، حج کے روحانی ماحول سے متاثر ہوجاتےہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں مذہبی اقدار اوراصولوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ (محمدی، آسیب‌شناسی زیارت، ص 334-335). اسلامی اقدار جیسے حدود الٰہی کی پابندی، عبادت و بندگی، حرام مال و منات، ظلم اور جبر سے بیزاری، مذہبی اخوت، مساوات، عدل و انصاف، دنیوی مصائب اور مشکلات میں صبر و تحمل اور بہت سی دوسری اسلامی تعلیمات اور اقدار، حج کے دوران ہی عام انسانوں تک پہنچایا جاتا ہے؛ لہذا مختصر لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حج، درحقیقت مذہبی علوم اور اقدار سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ ان علوم اور اقدار کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ (محمدی، آسیب‌شناسی زیارت، 1393، ص 93).

  • حج مسلمانوں کی بیداری کا وسیلہ

 علم و آگاہی سے سرشار ایک قوم ہی ترقی کے منازل طے کرتی ہے؛ لہذا امت اسلامیہ کا حالات حاضرہ سے واقف ہونا ضروری ہے؛ دنیا بھرمیں مسلمانوں کے حالات، دشمنوں کی چالیں، دشمن کے ناپاک منصوبوں سے نمٹنے کے طریقے، حج کے توسط سے ہی سیکھے جاسکتے ہیں؛ اہل بیت اطہار علیہم السلام نے دینی عقائد اور تعلیمات سے معاشرے کو آگاہ کرنے کےلئے؛ یہی طریقہ اپنایا؛ جیسے کہ معاویہ کی وفات سے قبل امام حسین علیہ السلام نے منیٰ میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی موجودگی میں ایک طویل خطبہ دیا اور ملت اسلامیہ کومعاویہ اور اس کے منصوبوں سے آگاہ کیا۔ (ابن شعبہ، توحف العقول، ص 237)۔ اسی طرح عمرو بن ابی المقدام کہتے ہیں کہ میں نے عرفہ کے دن امام صادق علیہ السلام کو بلند آواز سے فرماتے ہوئے دیکھا: اے لوگو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے پیشوا اور امام تھے ان کے بعد علی بن ابی طالب (ع)، ان کے بعد حسن (ع)، ان کے بعد حسین (ع)، ان کے بعد علی بن الحسین (ع)، ان کے بعد محمد بن علی (ع)، ان کے بعد میں تم سب کا پیشوا اور امام ہوں۔ اور ان جملوں کو تین بار دہرایا۔(کلینی، الکافی، ج 4، ص 466).  

حج مسلمانوں کے مسائل، مشکلات اور صلاحیتوں سے آگاہی کا میدان ہے اور ہر قسم کے مسائل کے حل کےلئےعوامی اور سماجی شرکت کی بنیاد فراہم کرتا ہے؛

 حج قوموں کے حالات اور دشمنوں کی سازشوں اور افواہوں کو جاننے کا موقع فراہم کرتا ہے؛

حج اپنے آپ کو، امت اسلامیہ اور اس کی عظیم صلاحیتوں، اور دشمنوں اور ان کے ناپاک منصوبوں کو جاننے کا بہترین وسیلہ ہے۔

  • دنیا میں اسلامی ثقافت کا فروغ

حج، عالم اسلام کا عظیم اجتماع ہے، جس کے بےشمارفوائد ہیں: جیسے کہ دنیا بھرمیں ساری انسانیت کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کرنا، انسانی اقدار کا دفاع کرنا ۔۔۔ شامل ہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک مخصوص جگہ پر جمع ہونا، ان کا ایک دوسرے سے ملنا، ان کے درمیان دینی ثقافت کی منتقلی کی بنیاد فراہم کرتا ہے؛

 حج کے دوران عالم اسلام کے دانشور جمع ہوتے ہیں اور ان کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے، تبادلہ خیال ہوتا ہے اور حج کے بعد بھی ان کے رابطے برقرار رہتے ہیں؛ یوں یہ دانشورعلمی ترقی میں ایک دوسرے کی راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ (صالحی، مروری بر کارکردهای گوناگون مناسک حج، ص 117).

4۔ افکار اور ثقافتی تبادلہ

  ثقافتی تبادلہ ایک فطری اور باہمی عمل ہے جو ایک دوسرے کی پہچان اور رضایت سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے، شہری مختلف ممالک خاص کرہمسایہ ممالک کا سفرکرکے وہاں کی رسوم اور عادات سے آگاہی کے بعد اپنے اندر موجود کمزوریوں کا ازالہ کرتے ہیں اور یوں دنیا میں اسلامی معاشروں کی ترقی کا سبب بنتا ہے۔(زند وکیلی، مردم‌شناسی فرهنگی، 1383، ص۷۴).

  •  اسلامی معاشرے میں فکری اور نظریاتی انحرافات کی اصلاح

حج، مختلف فرقوں، نظریات اور مختلف عقائد رکھنے والے لاکھوں مسلمانوں کو ایک ہی جگہ جمع ہوکر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں اور یوں ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد ملتی ہے۔

حج کے دوران پوری دنیا سے اسلامی دانشور مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں؛ ایک دوسرے کے علمی وجود سے استفادہ کرتے ہیں، یہود و نصاری کی اسلام دشمن پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کا طریقہ کار پربحث و مباحثہ کرنے اورباہمی نظریات، اختلافات کو افھام وتفہیم کے ذریعے حل کرنے کا موقع ملتا ہے۔  

منابع

  • قرآن کریم۔
  • ابن شعبه حرانى، حسن بن على، 1404ق، تحف العقول عن آل الرسول (صلى الله عليه و آله)، قم، انتشارات جامعه مدرسين، چاپ: دوم.
  • حکیمی، محمدرضا، و دیگران، 1393ش، الحیات، تهران، انتشارات دلیل ما.
  • زند وکیلی، مهدی (به همت پژوهشکده تحقیقات اسلامی)، 1383ش، مردم‌شناسی فرهنگی، قم، انتشارات زمزم هدایت (وابسته به پژوهشکده علوم اسلامی امام صادق «ع»).
  • صالحی، سید رضا، زمستان 1389، «مروری بر کارکردهای گوناگون مناسک حج»، فصلنامه میقات حج، شماره ۷۴، ص 100-119.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، 1407ق، الکافی، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم.
  • طبرسی، احمد بن علی، 1403ق، الإحتجاج علی أهل اللجاج، تحقیق: محمدباقر خرسان، مشهد، نشر مرتضی، چاپ اول.
  • محمدی، محسن، 1400، آسیب‌شناسی زیارت با تمرکز بر زیارت رضوی، مشهد، آستان قدس رضوی.
Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close