اسلامتازہ ترین خبریں

اسلامی معاشرے کی اخلاقی اور روحانی ترقی پر حج کے اثرات

“ترقی” کے مختلف معانی ہیں: جیسے؛ زیادتی، افزایش، بڑھنا، آگے بڑھنا، ارتقاء، عروج، اصلاح، بہتری۔۔۔ (فرهنگ معین:ج 1 ص 925). اس مضمون میں ترقی سے مراد: اللہ تعالی کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے جو سہولتیں مہیا کی گئی ہیں اور جو قوانین، اصول اور ضوابط دیے گئے ہیں ان پر پورا پورا عمل کرکے، ایک بہتر صورت حال تک پہنچنے کی انفرادی اور اجتماعی کوشش ہے۔

ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

تحریر: حافظ نجفی۔ (حج و زیارت کےتحقیقاتی ادارے کا رکن)  

رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای عازمین حج کے نام اپنے پیغام میں فرماتے ہیں: انسانی وقار، آزادی، مادی اور روحانی ترقی کےلئےعلم و معرفت، تدبیر، ہوشیاری، احساس ذمہ داری، مسئولیت پذیری، امید اور اللہ پر توکل کرکے، پست اور حقیر چیزوں سے چشم پوشی کرنا لازمی ہے اور یہ وہ عناصر ہیں جو انسان کو ترقی اور پیشرفت کے منازل طے کرنے میں مدد  دیتے ہیں۔ (24پیام حج، آذر ماہ/ 1386).

اس مضمون میں مادی اور روحانی پیشرفت، سماجی ہم آہنگی، سیاسی استحکام، اختیار، آزادی اور اسلامی ثقافت کی ترقی پر حج کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ایک ایسے معاشرے کو ترقی یافتہ سمجھا جا سکتا ہے جو مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہو:1-  خلاقی خوبیاں؛ 2- علم کی ترقی؛ جہالت اور جاہلانہ رویوں کا خاتمہ؛ 3- انسانی حقوق اور وقار کا احترام؛ 4- امن و امان اور سماجی سکون؛ 5- ظالم اور جابرحکمرانوں کا نہ ہونا؛ 6-روحی اور جسمانی طور پرصحت مند ہونا؛ 7-معاشی اور اقتصادی طورپرمضبوط ہونا۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو مناسک حج میں موجود ہیں؛ کیونکہ شرعیت میں حج اس شخص پر واجب ہے جو بالغ  اور عاقل ہونے کے ساتھ ساتھ آزاد اور خودمختار ہو۔ (امام خمینی، مناسک حج، ص 24)، حج کی استطاعت رکھتا ہو۔(امام خمینی، مناسک حج، ص 19)۔ استطاعت؛ یعنی مالی توانائی رکھتا ہو، جسمانی طور پر سالم اور صحتمند ہو اورسفر کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔(امام خمینی، مناسک حج، ص 24)۔ ایسے متوازن شرایط اور حالات کے ساتھ سفر حج پر جانے والے اپنی زندگی کے ایک الگ مرحلے میں قدم رکھتے ہیں، اس لیے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ حج، مذہبی، اخلاقی اور روحانی اقدار کے سائے میں ترقی پسند زندگی کا عملی نمونہ ہے۔

  1. 1-     حج، روحانیت اور خدا کی طرف توجہ کا عنصر

حج ایک ایسی عبادت ہے، جو عبادت گزاروں کو اللہ تک پہنچاتی ہے۔ ان مناسک کے ذریعے انسان شیطانی صفات سے منہ موڑ کر معبود کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور حجاج کرام صرف اللہ کو ہی اپنی امید اور پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: « فَفِرُّوا إِلَى‏ اللَّه‏… (ذاریات، 51)؛ «فرار الی الله» سے مراد حج ہے؛ یعنی اللہ کی طرف سفر کرو.امام سجاد علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے سوالوں کے جواب میں فرمایا:«وَ مَعْنَى قَوْلِهِ عَزَّ وَ جَلَ‏ فَفِرُّوا إِلَى‏ اللَّه‏ ‏ يَعْنِي حُجُّوا إِلَى بَيْتِ اللَّهِ يَا بُنَيَّ إِنَّ الْكَعْبَةَ بَيْتُ اللَّهِ تَعَالَى فَمَنْ حَجَّ بَيْتَ اللَّهِ فَقَدْ قَصَدَ إِلَى اللَّه‏… (مجلسی، بحار الأنوار:ج ‏3، ص: 321)؛  فَفِرُّوا إِلَى‏ اللَّه‏، کا مطلب ہے کہ اللہ کے گھر کا ارادہ کرنا اور حج کرنا۔ میرے بیٹے! کعبہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، جس نے حج کیا اس نے حقیقی معبود کی طرف سفرکا ارادہ کیا». ان اجتماعی عبادات میں حجاج کرام اپنے آپ کو  اللہ تعالی کے مہمان اور ان کی بارگاہ میں دیکھتے ہیں اور دراصل وہ اللہ کی لاتعداد نعمتوں کے دسترخوان پر ہوتے ہیں اور یہی انسان کےلئے توحیدی تعلیم ہے اور حج کے ذریعے اچھی انسانی زندگی کی حقیقی منزل تک پہنچناہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «الْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ، وَ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكْرِمَ وَفْدَهُ وَ يَحْبُوَهُ بِالْمَغْفِرَةِ. (ابن شعبه، تحف العقول،ص 123)؛ عازمین حج اور عمرہ کرنے والوں کا تعلق اللہ  سے ہے اور اللہ تعالی اس وادی میں داخل ہونے والے کی عزت کرتا ہے اور اسے اپنی بخشش اور مغفرت کے دائرےمیں داخل کرتا ہے»۔ اس لیے مناسک حج کسی بھی قسم کے دکھاوے، ریا، منافقت اور انا پرستی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «مَنْ حَجَّ يُرِيدُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لا يُرِيدُ بِهِ رِيَاءً وَ لا سُمْعَةً غَفَرَ اللَّهُ لَهُ الْبَتَّةَ. (حرعاملی، وسائل الشيعه: ج 11 ص 109) ؛ جو شخص حج کرتا ہے وہ صرف خدا کو چاہتا ہے اور ریا یا شہرت کا ارادہ نہیں رکھتا تو خدا اسے ضرور بخش دے گا».

رہبر معظم انقلاب اسلامی حجاج کے نام اپنے پیغام میں لکھتے ہیں: حج میں ذکر و عبادت، جو فرد اور معاشرے کی تعلیم، ترقی اور سربلندی کا بنیادی عنصر ہے، اس کے ساتھ ساتھ اجتماعیت اور اتحاد، ایک متحد قوم کی علامت ہے۔ مشترکہ مقصد کے ساتھ ایک مرکز کے گرد طواف، جو کہ توحید پر مبنی ہے… اسلامی معاشرے کی خداپسندانہ بنیاد کی ایک جھلک ہے۔ (پیام حج۔ 19 مرداد 1398)۔

  •  حج، اخلاقی فضائل پھیلانے کا ذریعہ

جس معاشرے کےلوگ اخلاق اور اخلاقی فضیلتوں اور خوبیوں سے آراستہ ہوں؛ وہ معاشرہ ترقی یافتہ اور ترقی پسند کہلاتا ہے؛ شاعر کہتا ہے: اقوام روزگار به اخلاق زنده اند *** قومی که گشت فاقد اخلاق مردنی است؛ یعنی دنیا کی قومیں اخلاق کی وجہ سے زندہ ہیں*** جس قوم میں اخلاقیات کی کمی ہو وہ فانی ہے۔ اس کا وجود ختم ہوتا ہے۔ (دیوان ملک الشعرای بهار، قطعات، شماره 24)۔

جو لوگ حج کے سفر پر نکلتے ہیں، وہ درحقیقت تقویٰ، نفس کی اصلاح اورخود سازی کی راہ میں قدم رکھتے ہیں:۔ «اَلْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومٰاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ اَلْحَجَّ فَلاٰ رَفَثَ وَ لاٰ فُسُوقَ وَ لاٰ جِدٰالَ فِي اَلْحَجِّ وَ مٰا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اَللّٰهُ وَ تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ اَلزّٰادِ اَلتَّقْوىٰ وَ اِتَّقُونِ يٰا أُولِي اَلْأَلْبٰابِ۔ (بقره 197)؛ حج کے مقررہ مہینے ہیں، پس جو ان میں حج بجا لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر حج کے دوران ہم بستری نہ ہو اور نہ فسق و فجور اور نہ لڑائی جھگڑا ہو اور جو کار خیر تم کرو گے اللہ اسے خوب جان لے گا اور زادراہ لے لیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! (میری نافرمانی سے) پرہیز کرو۔». 

مناسکِ حج، نہ صرف سفر کے دوران حاجی کے رویے میں تبدیلی لاتے ہیں، بلکہ ہمیشہ اس کی شخصیت میں بنیادی تبدیلی بھی پیدا کرتے ہیں، لہذا وہ اپنی زندگی کے آخر تک حج کے روحانی اثرات کا احساس کرتا ہے اور اس کے اخلاق و کردار میں حج کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:«مَا يُعْبَأُ مَنْ يَسْلُكُ هَذَا الطَّرِيقَ إِذَا لَمْ يَكُنْ‏ فِيهِ ثَلاثُ خِصَالٍ: وَرَعٌ يَحْجُزُهُ عَنْ مَعَاصِي اللَّهِ، وَحِلْمٌ يَمْلِكُ بِهِ غَضَبَهُ، وَ حُسْنُ الصُّحْبَةِ لِمَنْ صَحِبَهُ. (کلینی الکافی: ج 4  ص 286) ؛ حج پر جانے اور اس سفر کو طے کرنے والے میں اگر یہ تین خصلتیں نہ ہوں تو وہ اللہ تعالی کی توجہ سے محروم رہا ہے: 1۔ تقوی اور پارسائی جو اس کو ہرقسم کے گناہ سے دور رکھے، 2۔ایسا صبر جوغصے پر قابو پاسکے،3۔ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک». رہبرمعظم، حجاج کرام کے نام پیغام میں، حج کے تعلیمی اور تربیتی اثرات کے بارے میں لکھتے ہیں: اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات، رستگاری اور سربلندی ہے، اور اس کا راستہ انسان کی تربیت اور ایک صالح معاشرے کی تشکیل ہے، ایک ایسا شخص جو خدائے واحد کی عبادت کرتا ہو، وہ اپنے آپ کو شرک، اخلاقی آلودگی اور شیطانی خواہشات سے پاک کرتا ہےاور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتاہے جس میں عدل، آزادی، ایمان، خوشحالی ہو؛ اور انسان یہ سب کچھ حج کے مناسک سے ہی حاصل کرسکتا ہے۔ (تاریخ 17 آذر 1387)۔

  • حج، اتحاد و اتفاق اور دوستانہ تعلقات کا مظہر

حج ایک سماجی نظام تعلیم کا نام ہے؛ جس کی بنیاد مسلمانوں کی مشترکات کا احترام اور اختلافات کو نظر انداز کرنے پر مبنی ہے۔ وہ معاشرہ، جس میں انسانی عظمت کا معیار تقویٰ ہو اورجس معاشرے میں انسانی تعلقات دوستانہ ہوں، یقیناً وہ ایک اعلیٰ اور ترقی یافتہ معاشرہ ہو گا؛ لہذا حج، دراصل ایک متوازن معاشرتی زندگی کا نمونہ ہے، جس میں ہر قسم کی منفی گفتگو اور غیر اخلاقی رویے کی ممانعت ہے۔ «فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ اَلْحَجَّ فَلاٰ رَفَثَ وَ لاٰ فُسُوقَ وَ لاٰ جِدٰالَ فِي اَلْحَجِّ وَ مٰا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اَللّٰهُ وَ تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ اَلزّٰادِ اَلتَّقْوىٰ وَ اِتَّقُونِ يٰا أُولِي اَلْأَلْبٰابِ. (بقره 197) حج کے مقررہ مہینے ہیں، پس جو ان میں حج بجا لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر حج کے دوران ہم بستری نہ ہو اور نہ فسق و فجور اور نہ لڑائی جھگڑا ہو اور جو کار خیر تم کرو گے اللہ اسے خوب جان لے گا اور زادراہ لے لیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! (میری نافرمانی سے) پرہیز کرو۔». اس قرآنی تعلیم کے مطابق سفر حج کے دوران حجاج کی طرف سے خوبصورت سماجی خصلتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام صادق عليه السلام فرماتے ہیں: «وَطِن نَفْسَك عَلَى حُسنِ الصَّحابة لِمَن صَحِبتَ فِى حُسنِ خُلقِكَ وَ كُفَّ لِسانَكَ وَ اكظِم غَيظَكَ وَ اَقِل لَغوَكَ وَ تَفرُشُ عَفوَكَ وَ تَسخُو نَفسُك. (کلینی الکافی: ج 4 ص 286) اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھے رویے کے ساتھ میل جول کا عزم کرو اور اپنی زبان کی حفاظت کرو، اپنا غصہ ظاہر نہ کرو۔ فضول باتوں سے بچو، عفو و درگزر کو پھیلاؤ اور سخاوت کو اپنا پیشہ بنا لو». اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حالات زندگی میں یہ ذکر ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نےسفرحج کے دوران فرمایا:«مَنْ كانَ يُسِئُ الجَوارَ فلا يُصاحِبنا» (حر عاملی، وسائل الشیعه: ج 8، ص 505؛ طبرسی، مكارم الاخلاق، ص 288)؛ ہمسفر سے برا سلوک کرنے والا ہمارے ساتھ سفر نہ کرے».

امام خمینی (رح) مناسک حج کو مسلمانوں کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ قرار دیتے ہوئےفرماتے ہیں: بیت اللہ الحرام کے معزز زائرین جو کسی بھی قوم اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ قرآن کریم کے احکامات پرعمل کریں اور شیطانی منفی تبلیغات کے سیلاب کے خلاف آہنی دیوار بنیں اور مشرق و مغرب میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور بھائی چارے کو فروغ دیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں، اختلافات اور تفرقے سے اجتناب کریں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن میں تفرقہ اور اختلاف سے منع فرمایا ہے۔ (امام خمينى، صحيفه نور، ج 9، ص 556.)۔  رہبر معظم حجاج کرام کے نام ایک پیغام میں فرماتے ہیں: حقیقی حج، امت اسلامیہ کو ایک دوسرے سے آشنا اور ایک دوسرے کی مشکلات، مصائب اور توانائیوں سے آگاہ کرکے ان بٹے ہوئے ارکان کومضبوط جسم کی طرح بنا سکتا ہے، ۔۔۔ یہ بات پوری جرئت کے ساتھ  کہی جا سکتی ہے کہ اگر اس اسلامی فریضے کو درست اور اسلامی اصولوں کے مطابق ادا کیا جائے تو مختصرعرصے میں امت اسلامیہ کو وہ عزت اور طاقت ملےگی جس کی وہ مستحق ہے۔ (پیام حج، 13 خرداد 1371)۔

  •  حج اور سرزمین وحی میں امن

  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنے اہل و عیال کو مکہ میں آباد کیا اور خدا سے اس سرزمین میں امن و امان کی درخواست کی۔.« رَبِّ اجعَل هَذَا بَلَدًا آمِناً وَ اُرْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ اَلثَّمَرٰاتِ ۔۔۔۔ (بقره126 و ابراهیم 35) ؛ اے رب! اسے امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان لائیں انہیں ثمرات میں سے رزق عنایت فرما…» یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کی جب آپ علیہ السلام نے بیت اللہ تعمیر فرمایا تھا؛ یعنی اپنی زندگی کے آخری حصے میں؛ چونکہ حضرت اسماعیل و اسحاق، آپ علیہ السلام کے عالم پیری میں پیدا ہوئے: «اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ» اور بیت اللہ کی تعمیر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جوانی کے وقت عمل میں آئی۔ اور حضرت ابراہیم نےدعا کی کہ اس سرزمین کے مسافروں کو لامحدود نعمتوں سے بہرہ مند کردے۔ «… فَاجعَل أَفئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهوِي إِلَيهِم وَارزُقْهُم مِنَ الثَّمَرَاتِ… (ابراهيم 14، 37)؛ پروردگارا!… لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما؛ تاکہ یہ شکرگزار بنیں…». اللہ تعالی نے اس سرزمین کوامن کا گہوارہ بنایا: « وَ هٰذَا اَلْبَلَدِ اَلْأَمِينِ، (تین 3)؛ اور اس امن والے شہر کی قسم»  اوراللہ تعالی نے ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:« وَ مَنْ دَخَلَهُ كٰانَ آمِناً…»(آل عمران 97)؛ اور جو اس میں داخل ہوا وہ امان والا ہو گیا».

وہ چیز جو انسان کو فردی اور سماجی اعتبار سے انسان کو ذہنی  اور روحانی طورپر تشویش، اضطراف اور افسردگی کا شکار کرتی ہے وہ معاشی کمزوری اور ناامنی ہے؛ لیکن اللہ تعالی نے عقیدت مندوں اور حجاج سے معاشی خوشحالی اور ہمہ گیر امن و سلامتی کا وعدہ کیا اور فرمایا:«فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هٰذَا اَلْبَيْتِ۔ اَلَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَ آمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ (قريش/ 3ـ 4)؛ چاہیے کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے انہیں امن دیا». اس حکم الٰہی کے مطابق اہل ایمان کو حرم کی سرزمین میں مشرکین اور دوسرے دشمنوں سے جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے، الا یہ کہ وہ جنگ کا آغاز کرنے والے ہوں۔ جیسے کہ ارشاد رب العزت ہے:«اور انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرو اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ برا ہے، ہاں مسجد الحرام کے پاس ان سے اس وقت تک نہ لڑو جب تک وہ وہاں تم سے نہ لڑیں، لیکن اگر وہ تم سے لڑیں تو تم انہیں مار ڈالو، کافروں کی ایسی ہی سزا ہے». (بقره/ 191).

یہاں تک کہ اگر کوئی شخص حرم سے باہر کوئی جرم کرے اور حرم میں پناہ لے تو کسی کو حق نہیں ہے کہ اس پرحملہ کرے۔ (کلینی، الکافی: 4 ص 226)۔ اسی بنا پر فقہا نے حرم الہی کے حدود کے اندرقصاص اور حد جاری کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔  (جواهر الکلام، ج41، ص344-345)۔ اور جابر کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو مکہ میں ہتھیار ساتھ لے جانے سے منع فرمایا۔ (صحيح مسلم، ج4، ص111)۔  حرم کے اندر مقروض سے مال لینے کی اجازت نہیں ہے؛ یعنی مقروض پر حرم الہی کے اندر دباؤ نہیں ڈال سکتے، قرض دہندہ کو اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک کہ وہ حرم سے باہر نہ نکل جائے۔  ( فقه الرضا، ص253؛ نور الثقلين، ج1، ص371، 369). ایک اور روایت میں آیا ہے کہ، حرم نہ صرف انسانوں کےلئےامن کی جگہ ہے؛بلکہ درندوں، پرندوں کو بھی مارنےکا حق نہیں ہے۔ (کلینی، الکافی: 4 ص 226)۔

  فقہا نے حرم الہی میں جانوروں کی حفاظت کے بارے میں مختلف جہتوں سے بحث کی ہے۔ اس حکم میں دونوں قسم کے جانور شامل ہیں: جنگلی جانور جن کا شکار کیا جاتا ہے اور پالتو جانور جنہیں پالا اور ذبح کیا جاتا ہے۔ وہ پہلی قسم کے شکار کی حرمت پر متفق ہیں اور دوسری قسم کے بارے میں بعض فقہاء نے حرم کے اندر ذبح کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ (جواهر الکلام، ج20، ص241)۔   لہذا حجاج کرام حرم الہی میں اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ سمجھتے ہیں اور کسی بھی قسم کے خوف و خطرکے بغیرمناسک حج بجا لاتے ہیں۔

   5- ذمہ داری کا احساس اور انسانی حقوق پر توجہ

  حج کی معاشرتی تعلیمات میں احساس ذمہ داری اور دوسروں کے حقوق کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے جس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں:

الف: فقہی اور اخلاقی تعلیمات کے مطابق اگر حاجی کسی کا مقروض ہے یا اس نے دوسروں کے مادی اور معنوی حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے تو سفر حج پرنکلنے سے پہلے دوسروں کے حقوق ادا کرنے ہونگے؛ چنانچہ امام صادق علیه السلام فرماتے ہیں: «اذا ارَدتَ الحَجَّ … وَ اخرُج مِن حُقوقٍ تُلزِمُكَ مِن جَهَةِ المَخلُوقين‏ (امام صادق ع مصباح الشريعه، ص 112). جب بھی تم حج کرنا چاہو… تم پر لوگوں کے جو حقوق ہیں وہ ادا کرو».

ب: فقہ کی کتابوں میں جو کچھ مذکور ہے اس کے مطابق استطاعت سے مراد یہ ہے کہ خاندان کی روزی اور حقوق پر توجہ دی جائے؛ تاکہ حج کے بعد بھی اہل وعیال کومعاشی پریشانی کا سامنا کرنا نہ پڑے (امام خمینی، حج کے مناسک، شمارہ 39، صفحہ 39)، کسی نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ آیہ شریفہ «وَ لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (آل‏عمران: 97) میں سبیلا سے کیا مراد ہے؟ امام نے فرمایا«… السَّعَةُ فِي الْمَالِ إِذَا كَانَ يَحُجُّ بِبَعْضٍ وَ يُبْقِي بَعْضاً لِقُوتِ عِيَالِهِ،سبیل، مال میں وسعت ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ حاجی کا سرمایہ اتنا ہونا چاہیے کہ اس میں سے ایک حصہ سے حج ادا کرے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کو چھوڑ دے» (حرعاملی، وسائل‏الشيعه، ج 11، ص 37، ح 14181).

ج: اللہ تعالیٰ نے امیروں کے مال میں ضرورت مندوں کا حق رکھا ہے: «وَ اَلَّذِينَ فِي أَمْوٰالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ لِلسّٰائِلِ وَ اَلْمَحْرُومِ، (معارج 25- 24)؛ اور جن کے اموال میں معین حق ہے، سائل اور محروم کے لیے»۔ اور سورہ زاریات آیت نمبر19 میں اللہ کا ارشاد ہے: «اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتاہے»۔ اور یہی وجہ ہے کہ حج کے مناسک میں عازمین کی توجہ ضرورت مندوں کے حقوق کی طرف مبذول کرانے کے لیے قربانی کا ایک حصہ غریبوں کو دینے کا حکم دیا گیا ہے۔  «…وَ أَطْعِمُوا اَلْقٰانِعَ وَ اَلْمُعْتَرَّ…(حج 37) ؛۔۔۔۔اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو بھی کھلاؤ۔۔۔۔ ».

6-  اقتصادی ترقی

قرآن اور احادیث کی رو سے حج کے بہت سے مادی اور روحانی فوائد ہیں، جیسے کہ پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:« حُجُّوا تَسْتَغْنُوا، حج بجا لاؤ اور بے نیاز ہوجاؤ». (برقی، المحاسن: ج 2 ص 345).  

محمد بن سنان کہتے ہیں: امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے میرے سوالات کے جواب میں حج کے اسرار، رموز اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:«… وَ ما في ذلِكَ لِجَميعِ الْخَلْقِ مِنَ المَنافِعِ … وَ مَنْفعةُ مَنْ في المشرقِ و المغربِ وَ مَنْ فى البرِّ و الْبَحْرِ مِمَّنْ يَحِجُّ وَ مِمَّن لا يَحِجّ مِنْ تاجِرٍ وَ جالِبٍ وَ بايِعٍ و مُشْتَرٍ وَ كاسِبٍ وَ مِسْكينٍ وَ قَضاءِ حَوائِجِ أهلِ الاطْرافِ وَ الْمَواضِعِ الْمُمكنِ لَهُمُ الإجْتِماع فِيها، كَذلِكَ لِيَشْهَدُوا مَنافِع لَهُم،(شیخ صدوق، عيون اخبارالرضا،: ج 2 ص 90 و علل الشرایع ، ص 405). حج کے فرض ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے تمام لوگوں کےلیے فوائد حاصل ہوتے ہیں.. جو مشرق و مغرب یا خشکی اور سمندر میں ہیں۔ خواہ حج کرنے والے ہوں یا حج نہ کرنے والے۔ چاہے وہ تاجر ہو یا درآمد کنندہ، بیچنے والا ہو یا خریدار، تاجر ہو یا غریب۔ یہ آس پاس کے رہائشیوں کی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔۔۔»؛لہٰذا سالانہ حج کا یہ عظیم اجتماع جس میں دنیا بھرسے صاحب ثروت لوگ شریک ہوتے ہیں، اسلامی معاشروں کی معنوی اور مادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے؛لہذا حج  کوغربت کے خاتمے اور مسلمانوں کی معاشی ترقی کاحل تلاش کرنے کا اہم ترین ذریعہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

منابع:

قرآن کریم ترجمه، شیخ محسن نجفی

ابن شعبه، حسن بن علي حرانی، تحف العقول عن آل الرسول، قم، انتشارات جامعه مدرسين حوزه علميه قم، چاپ دوم. (1404ق/1363ش۔).

امام خمینی (ره)، سيدروح الله مناسک حج، مطابق با فتاواي امام خميني (ره) با حواشي مراجع معظم. نشعر مشعر، 1396۔

بهار، محمد تقی، دیوان اشعار ملک الشعرای بهار، انتشارات نگاه ، چاپ هشتم، 1399 ش.

جعفر بن محمد (ع)، امام ششم، مصباح الشريعة، منسوب به امام صادق عليه السلام، اعلمى، بيروت، 1400 ق. ‏

حر عاملي، محمد بن حسن، وسائل الشيعة، تحقيق و تصحيح: مؤسسة آل البيت:، قم، نشر مؤسسة آل البيت:، 1409ق

شیخ صدوق، محمّد بن عليّ (م381 ه. ق)، عيون الأخبار الرضا عليه السّلام، تحقيق: مهدى الحسيني اللاجوردي، طهران منشورات جهان. 1378 ش

شیخ صدوق، محمّد بن عليّ (م ت 381 ه. ق)، علل الشرائع، دار إحياء التراث- بيروت، الطبعة الأولى 1408 ه ق۔

طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، انتشارات الشريف الرضي، قم چاپ چهارم 1370 ش۔

عبد عليّ بن جمعة العروسي الحويزي، تفسير نور الثقلين، تحقيق السيّد‌هاشم الرسولي المحلّاتي، قم، انتشارات اسماعيليان، 1415ه‍ .ق۔

علی بن موسی الرضا (ع) الفقه المنسوب للامام الرضا (ع)، المشتهر ب فقه الرضا، مشهد: مؤسسه آل‌البيت، ۱۴۰۶۔

کلینی، محمد بن یعقوب ، (م 329 ه ق)، الکافی، تحقيق: عليّ أكبر الغفّاريّ، دار الكتب الإسلاميّة- طهران، الطبعة الثانية 1389 ق۔

مجلسى، محمّد باقر بن محمّد تقيّ (ت 1110 ه ق)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمّة الأطهار عليهم السّلام، تحقيق و نشر: دار إحياء التراث- بيروت، الطبعة الأولى 1412 ه ق۔

مسلم بن الحجاج قشيري نيشابوري، صحيح مسلم، تحقيق: فؤاد عبدالباقي، بيروت، دار إحياء التراث العربي. و با تحقيق: موسي شاهين لاشين و احمد عمر هاشم، بيروت، مؤسسه عزّالدين، 1407 ق۔

معین، محمد، فرهنگ یک جلدی معین، انتشارات زرین، چاپ 3 سال 1386۔

نجفي، محمدحسن بن‌باقر، جواهر الکلام في شرح شرائع الاسلام،  بيروت، 1981

 سخنرانی ها و پیام های مقام معظم رهبری از پایگاه اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رهبری    https://farsi.khamenei.ir

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close