اسلامتازہ ترین خبریں

اسلامی حکومت، مذہبی جمہوریت کا نمونہ

اس وقت مذہبی جمہوریت پوری دنیا میں ایک نمونہ ہے؛ لہذا ایران کے اسلامی انقلاب اور مذہبی جمہوریت کے درمیان تعلق کی وضاحت ضروری ہے؛ یوں مذہبی جمہوریت کو پوری دنیا خاص کرعالم اسلام کے لئے ایک نمونے کے طور پرپیش کیا جا سکتا ہے۔

تحریر: منصورمیراحمدی[1]

ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

اس تحریر میں مذہبی جمہوریت اور اس کے حریف لبرل جمہوری ںظام کا جائزہ لیاگیا ہے۔

اس مختصرمضمون کے تین محورہیں:

  1.  اسلامی انقلاب اور مذہبی جدیدیت

ایران کا اسلامی انقلاب (1979/1357)؛ ایک خاص مذہبی اور دینی نقطہ نظر کا نتیجہ تھا؛لہذا جسے روایتی اور جدید طرز فکر کے مقابلے میں مذہبی جدیدیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

دین کو سمجھنے کےلیے دینی منابع کا براہِ راست مطالعہ ضروری ہے؛ جب دین سمجھ میں آجائے توحالات حاضرہ کو مدنظر رکھ کرعقلی استدلال اور افھام وتفیہم کے ذریعہ ایک مذہبی جمہوریت تشکیل دی جاسکتی ہے؛ ایک ایسی جمہوریت جو بدلتی ہوئی دنیا کو دین محمدی اورشریعت کے ساتھ موافقت کی طرف لے جائے۔ اس نقطہ نظرسے، نئی دنیا کے تناظر میں مذہبی روایت کی تشکیل نو کی جاسکتی ہے اور انفرادی اور سماجی زندگی کو جدید مذہبی قوانین کے ساتھ ہم آہنگ بھی کیا جاسکتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی نگاہ میں زیادہ سے زیادہ الہیاتی نقطہ نظر کو اہمیت دی جاتی ہے اور اسی کے بنیاد پر ہی اسلام کی سیاسی نوعیت کو مشخص کیا جاتا ہے۔

اسلام نےانفرادی، سماجی اور سیاسی زندگی میں لاگو ہونے والے تمام امور کو کلی اور قانونی شکل میں پربیان کیا ہےاور جزئیات اور انتظامی ڈھانچے کا تعین مسلمانوں کے سپرد کیا ہے؛ لہذا مسلمان، حالات حاضرہ کو مد نظررکھ کر، اسلامی قوانین کے مطابق ذاتی، سماجی اور سیاسی امور کو منظم کرتے ہیں۔

اسلامی قوانین نے بدلتی ہوئی دنیا کو ایک نئے روپ میں ڈالنے کا موقع عنایت کیا ہے۔ اسلامی حکمرانی، انقلابی سوچ اورمذہبی جدیدیت کا نقطہ نظر، روایتی اور جدیدیت پسند نقطہ نظر سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ یہ جدیدیت کے نقطہ نظر سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ جدیدیت کے نقطہ نظر میں دینی فہم، اسلامی متون کے بغیر، ذاتی اجتہاد کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔

  • مذہبی جدیدیت اور جمہوریت

ایران میں اسلامی انقلاب کےبعد عام شہریوں کی زندگی میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں، جن میں سب سے اہم سیاسی تبدیلی ہے، انقلاب نے سلطنتی نظام کا خاتمہ کرکے ایک مذہبی جمہوری نظام متعارف کرایا۔  ایران کا اسلامی انقلاب، ایران کی سیاسی زندگی کا ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ اس نے پہلی بار عوام کو سیاسی اور سماجی طورپر بادشاہی جابرانہ قوانین سے آزاد کرکے خودمختار بنا دیا، شہری اب اپنی رائے سے قوانین بناسکتے ہیں، اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں۔ اس وقت ملکی نظام اور قانون سازی کے شعبوں میں عوام کا ووٹ ہی فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے، اسلامی انقلاب کے بعد سیاسی نظام کا قیام اورقانون سازی، دونوں ہی عوام کے اکثریتی ووٹ سے ہوتے ہیں۔ عوام پوری آزادی کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ رائے دہی میں حصہ لیتے ہیں۔

مذہبی جمہوریت میں سیاسی نظام کی تشکیل اور ملکی سطح پر ہرقسم کے بنیادی فیصلوں میں عوام کا کردار نمایاں ہوتاہے۔ شہری رائے دہی کے ذریعے کسی بھی فیصلے میں حصہ لیتے ہیں اور یہ اس لحاظ سے مذہبی ہے کہ اس میں مذہبی اقدار اور اسلامی قوانین کی پاسداری کی جاتی ہے۔

مذہبی جمہوریت غیرپیچیدہ، سادہ اورعام فہم ہے، یہ جمہوریت مغربی اور اسلامی تعلمیات کی امتزاج سے وجود میں نہیں آتی ہے؛ بلکہ دینی منابع(قرآن وحدیث) سے اخذ کیا جاتا ہے۔

انقلاب اسلامی ایران کے قائدین کے سیاسی افکار و نظریات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مذہبی جمہوریت میں عام شہریوں کی شرکت کو ایک حق کے طور پرتسلیم کیا گیاہے۔ سیاسی اور سماجی زندگی کے مسائل میں شہری اپنی رائے کا نہ صرف اظہار کرسکتے ہیں؛بلکہ قانون سازی میں بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ہرشہری کو مذہبی، اقدار، اصولوں اور قوانین کے دائرہ کار میں رہ کر ملکی سطح پر سماجی اور سیاسی نظام میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے؛ لہذا مذہبی جمہوریت ایک ایسے سیاسی نظام کا عملی نمونہ ہے، جس میں عوامی رائے کا بھرپور احترام کیا جاتا ہے؛ البتہ وہ رائے جوالہی قوانین کے ساتھ نہ ٹکرائے۔

  • مذہبی جمہوریت اور حریف نمونے

اسلامی دنیا اور بین الاقوامی سطح پر مذہبی جمہوریت اوراس کے حریف کاتقابلی جائزہ پیش کیا جاسکتا ہے۔

اسلامی دنیا میں مذہبی جمہوریت دو قسم کے حریفوں سے مقابلہ کرسکتی ہے: نظریاتی حکومت/ مذہبی حکومت۔ مذہبی حکومت؛ ایک ایسی حکومت ہے جو سیاسی اور سماجی زندگی میں دینی اقدار، تعلیمات اورمرجعیت کو تسلیم کرتی ہے۔ دینی تعلیمات؛ سیاسی اور سماجی زندگی کے مواد کا تعین کرتی ہیں اور ہر جگہ اور ہر زمانے کےلئے کارآمد ہوتی ہیں۔

مذہبی حکومت کا ایک گروہ صرف خلافت کومذہبی جمہوریت کے طور پرپیش کرنے کی کوشش کرتا ہے،جیسے کہ گزشتہ صدیوں میں ہوتا رہا ہے، اس نظریے کے مطابق خلافت ہی مذہبی جمہوریت ہے؛ جبکہ دیکھا جائے تو بہت سارے اسلامی ممالک میں خلافت، ملوکیت میں تبدیل کردی گئی اور عملی طور پر بہت سے اسلامی ممالک نے خود کو خلافتی طرز حکومت سے دور کر لیا اور اس کی جگہ اسلامی بادشاہی طرز حکومت کوعملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی؛ جیسےعصر حاضرمیں (افغانستان میں) امارت اسلامی اور داعش اہم نمونے ہیں۔

مذہبی جمہوریت کے مقابلے میں سیکولر جمہوریت کا نمونہ ہے، یہ مذہب کو توتسلیم کرتاہے؛ لیکن صرف ذاتی حدتک، اس نظام میں مذہب کوسیاسی امورمیں کسی قسم کا عمل دخل کی اجازت نہیں ہے، سیاسی نظام اور ملکی قوانین میں شرعی اصول وضوابط سے استفادہ نہیں کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیاسی اور سماجی زندگی میں مذہبی اقدار کو تسلیم کیا جاتاہے؛ لیکن سماجی اور سیاسی زندگی کو منظم کرنے کےلئے شرعی قوانین کے بجائے عقلی دلائل کو ترجیح دی جاتی ہے۔ عقلی اور شرعی قوانین کے ٹکراو کی صورت میں عقلی استدلال اور عقلی قوانین کو ترجیح دی جاتی ہے!۔ یہ نمونہ دین کو تسلیم کرنے کے باوجود نہ صرف مذہبی حکومت سے خود کوالگ کرتاہے؛بلکہ لایک اور لادین حکومت سے  بھی خود کو الگ کرتا ہے۔ اس قسم کی حکومت میں سماجی اورسیاسی زندگی کے اصول و ضوابط میں اصلی اور بنیادی کردار انسانی عقل اور قانون سازوں کا ہے۔ جو معاشرے کے فوائد اور نقصانات کو مد نظررکھ کرقانون سازی کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے سیکولر حکومت سماجی اور سیاسی زندگی میں خود کو شریعت اور فقہ کا پابند نہیں سمجھتی، وہ شریعت اور فقہ کو مسلمانوں کا انفرادی اور ذاتی مسئلہ سمجھتی ہے؛ جس کا عام معاشرے سے کوئی تعلق نہیں!۔

عصر حاضر میں عملی طور پر بعض اسلامی ممالک؛ جیسے ترکی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بھی ایسے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں؛ جبکہ ایران میں مذہبی جمہوریت کو ذاتی اور معاشرتی زندگی میں یکساں طور پرتسلیم کیا جاتاہے۔

اسلامی تعلیمات انفرادی اور سماجی زندگی میں انسان کی ذاتی اور سماجی زندگی کے اصول اور قوانین فراہم کرتی ہیں؛ لہذا انسان اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی جگہ اور کسی بھی زمانے میں ان قوانین پر علمل پیرا ہوسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید دور میں ان قوانین کو کس طرح اجرا کیا جاسکتاہے کس طرح سیاسی امور کو منظم کئے جاسکتے ہیں یہ ایک عقلی معاملہ ہے؛ لہذا مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مذہبی عقائد، اقدار اور قوانین کے دائرہ کار میں رہ کر وقت اور جگہ کے حالات کے مطابق ان قوانین پرعمل کریں۔ اسی وجہ سے اس نمونے نے اسلامی جمہوریہ کی شکل میں ایک بے مثال حکومت قائم کیا ہے جو گزشتہ چار دہائیوں سے عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے قانون سازی اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ حکومت کو مقبول بنانے کےلئے زیادہ سے زیادہ عوامی رائے پرتوجہ دی جائے۔ عوامی امنگوں کا خیال رکھا جائے۔  اس طرح یہ تجربات ثابت کرتے ہیں کہ ایک مقبول حکومت دراصل عوامی حکمرانی پرمشتمل ہوتی ہے؛ دوسرے لفظوں میں، مذہبی جمہوریت، دینی اقدار اور عقائد کے دائرے میں رہتے ہوئے نظریاتی اور سیکولر جمہوریت کے مقابلے میں مقبول ہونے میں کامیاب رہی ہے۔ درحقیقت مذہبی جمہوریت کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ عوامی حکمرانی کو عملی جامہ پہنائے؛ یعنی عوامی رائے اور نقطہ نظر کا احترام ہو؛   بلاشبہ، عوامی حکمرانی کے ماڈل کا حصول سیاسی نظام کی کارکردگی کو بہتربنانے کا سب سے اہم عنصر ہے اور یہ ایرانی معاشرے میں سماجی اور سیاسی زندگی بہتربنانے میں اہمیت کا حامل ہے؛ لہذا اسلامی انقلاب اور مذہبی جمہوریت کو پوری دنیا خاص کر عالم اسلام کے لئے ایک موزوں اور کامیاب ماڈل کے طور پر متعارف کرایا جا سکتا ہے۔

مذہبی جمہوریتی نظام، بین الاقوامی سطح پرکسی بھی حکومتی نظام سے بہتراندازمیں عوام کی خدمت کرسکتا ہے۔ لبرل جمہوریت کے ماڈل میں صرف لبرل ازم کے اقدار اور قوانین کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں سماجی اور سیاسی زندگی میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس نظام مذہب ایک شخصی مسئلہ قرار دے کرانسانی زندگی سے باہرکرنے کی کوشش کی جاتی ہے؛ یہاں تک کہ انسانی زندگی میں دینی کردار کویکسرمسترد کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے لبرل جمہوریت کے ماڈل میں سیکولر اور لایک حکومت میں سے ایک پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں لبرل جمہوریت کا ماڈل بین الاقوامی نظام میں غالب ماڈل کے طور پر متعارف کرکے اس نمونے کو دنیا بھرمیں فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے جمہوریت کے نام پر مشرق وسطی سمیت دنیا بھرمیں جو جنگیں لڑی ہیں وہ لبرل جمہوریت کو فروغ دینے کی کوششوں کی واضح مثالیں ہیں۔

ایران میں مذہبی جمہوریت نے ثابت کردیا ہےکہ جمہوریت کو نہ صرف مذہب سے جوڑا جاسکتا ہے؛ بلکہ دینی اصولوں کے عین مطابق ایک بےمثال جمہوریت تشکیل دی جاسکتی ہے۔

مذہبی جمہوریت عالمی سطح پرتمام اقوام عالم کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ جس طرح جمہوریت کو لبرل ازم کے عقائد اور اقدار کی بنیاد پر عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، اسی طرح اسلامی عقائد اور اقدار کی بنیاد پر مذہبی جمہوریت بھی ممکن ہے؛ لہذا مذہبی جمہوریت نے لبرل جمہوریت کے اجارہ داری سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور پوری دنیا خاص طورپراسلامی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ قرآن و حدیث کا مطالعہ کرکے ایک بہترین سیاسی نظام تشکیل دیا جاسکتاہے۔

مذہبی جمہوریت نے اسلامی دنیا میں لبرل جمہوریت کے نفاذ کو نہ صرف چیلنج کیا ہے؛بلکہ یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ اسلامی دنیا میں لبرل نظام کو عملی جامہ پہنانا ناممکن ہے؛ کیونکہ اسلامی قوانین کا تعلق  شخصی اورانفرادی نہیں ہے؛ بلکہ اجتماعی اور سماجی ہے؛ سماجی اور سیاسی امور میں اسلامی قوانین پرعمل کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ایران میں مذہبی جمہوریت کامیابی کے منازل طے کرتے ہوئے پوری دنیا کے لئے نمونہ عمل بن کرابھر رہی ہے۔


[1] . شہید بہشتی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اور ادارہ حج و زیارت کے بین الاقوامی امور میں ولی فقیہ کا نمایندہ

Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close