اسلامتازہ ترین خبریں

حج، اخلاقیات اور رواداری پرعمل کرنے کی مشق کا میدان

آج کل انسانی معاشرے میں سب سے زیادہ جو چیز نمایاں ہے وہ اخلاقیات کے دائرے میں رہ کرایک پرامن معاشرے کی تشکیل کےلئے کوشش کرنا ہے۔ جیسے کہ ایک پرامن معاشرےکی تشکیل کی کوششوں کے بدولت دنیا میں یونیسکو، ایف اے او، ڈبلیو ایچ او جیسے مختلف ادارے معرض وجود میں آئے۔ ان اداروں کی تشکیل کا ظاہری مقصد ہرقسم کی مذہبی، نسلی اور ملکی سرحدوں کو توڑ کردنیا میں ایک پرامن اور انسان دوست ماحول پیدا کرنا ہے۔

تحریر: ڈاکٹرمحمد مہدی ایمان پور[1]

ترجمہ: ڈاکٹرغلام مرتضی جعفری

درحقیقت دوسری جنگ عظیم کےہنگامہ خیز، کشیدہ اور خونی دور کو پیچھے چھوڑنے کے بعد، بالآخر مذہبی، نسلی اورعلاقائی تنازعات کے خاتمے کےلیے ایک تحریک شروع کر دی گئی، جس کے تحت علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصبات سے ہٹ کر بین الاقوامی سطح پر بہت سی کوششوں کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے؛ لیکن جب ہم ان اداروں اورمیدانوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتاہے کہ حج ابراہیمی کا میدان ہی وہ واحد میدان ہے جس میں ہرقسم کے اتحاد، ہم آہنگی اور رواداری کی مشق کی جاسکتی ہے اور اس میدان سے پوری دنیا کو امن و آشتی کا پیغام دیا جاسکتاہے۔

حج کامیدان

حج کا میدان سالانہ لاکھوں انسانوں کی تربیت کا موقع فراہم کرتا ہے،جس میں نہ صرف انسانی حقوق؛ بلکہ تمام جانداروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، اس میدان میں انسانی تربیت کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی نے غلطی سے بھی کسی انسان یا دیگرجانداروں کے حقوق کو نقصان پہنچایا تو فوری طور پر جرمانہ ادا کرنا ہوگا؛لہذا یہ وہ میدان ہے جس میں سب برابر ہیں، رنگ، نسل، زبان، قوم، بادشاہ، امیر، غریب سب ایک ہی قانون کے پابند ہوتے ہیں، اگرکسی نے کوئی غلطی کی تو مقررہ وقت پر جرمانہ ادا کرے گا، بصورت دیگر وہ عملی طور پراس تربیت گاہ سے خارج ہوجائےگا۔

بیت اللہ الحرام

بیت اللہ الحرام وہ مقام ہے؛جہاں ہرسال کے ایک خاص وقت میں اخلاقیات اور رواداری کی مشق کرنے لئے دنیا بھرسے مسلمان حاضر ہوجاتے ہیں؛ جیسا کہ وہ تمام افراد جو ایک بار اس مقدس رسم میں شریک ہوچکے ہیں وہ ان روحانی لمحات کا ذکر کرتےہوئے کہتے ہیں کہ جیسے ہی خانہ خدا میں حاضری دی، خود کو ہرقسم کی پریشانیوں اور الجھنوں سے دور، ایک پرسکون ماحول میں پایا۔

حج کے ثمرات

ابراہیمی حج کے ثمرات کی تفصیل میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ تمام مفکرین، علماء، سیاست دانوں اور اسلامی معاشروں کے بااثر افراد کےلیے نہایت یادگار لمحات ہیں؛ ان کو پانے کے بعد انسان کو چاہئے کہ ان روحانی تعلیمات اورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قیمتی ورثے کو متعارف کرائیں؛ کیونکہ بدقسمتی سے عالم اسلام نے اس عظیم انسانی ورثے اور اس کی عظیم صلاحیتوں کے فروغ کےلئے جو ضروری اقدامات اورکوششیں کرنے کی ضرورت تھی، نہیں کیں اور اسے دنیا کی دیگر اقوام اور مذاہب تک پہنچانےکا کوئی خاص طریقہ کار وضع نہیں کیا، جس کی وجہ سے آج بھی بہت سے غیرمسلم معاشرے حج کے تربیتی آثارسے ناواقف ہیں۔

حج کاموسم

حج کا موسم بنی نوع انسان کے لئے پرامن زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے؛ لہذا کسی بھی عالمی ادارے میں ایسی صلاحیت موجود نہیں ہے جو حج میں ہے؛ کیونکہ ہم اس عالمی اجتماع کے تمام مناسک میں، انتہا پسندی، فساد، ظلم و جور اور تشدد کی نفی اور انسانوں سمیت جانداروں کے حقوق پر توجہ دینے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

شرعی قوانین

پچھلی صدیوں میں سینکڑوں سال کی جنگ، خونریزی اور تشدد سے گزرنے کے بعد آج کی دنیا نے جو کچھ حاصل کیا ہے اس کو زیادہ واضح طور پر بیان کرنے کے لئے شریعت نے خاص قوانین وضع کئے ہیں، جن میں سے ایک حج ہے، اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس عظیم عالمی اجتماع کے فوائد و ثمرات کی صحیح طور پر حالیہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق، اس عظیم الہی عبادت اور اس کے اثرات پوری دنیا تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ ایران نوین میگزین


[1]۔ بین الاقوامی ثقافتی امور کے محقق



Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close